سڈل کمیشن عدالتی فیصلے تک کارروائی نہ کرے زاہد بخاری
کمیشن کی تقرری کیخلاف نظرثانی کی پٹیشن پر سماعت 30اکتوبر تک ملتوی کی گئی ہے
ارسلان افتخار کیس میں دیے گئے نوٹس کے جواب میں ملک ریاض حسین کے وکیل زاہد بخاری نے شعیب سڈل کمیشن سے کہا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ میں کمیشن کیخلاف دائر نظرثانی کی پٹیشن کے فیصلے تک کوئی کارروائی نہ کرے۔
انھوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 30اگست کو شعیب سڈل کو ون مین کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کے عدالتی حکم کے خلاف نظر ثانی کی پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ہماری طرف سے نوٹس واپس لینے اور کارروائی روکنے کی درخواست پر سڈل کمیشن نے جامع بیان اور دستاویزات جمع کرانے کی تاریخ 4 اکتوبر تک بڑھا دی تھی تاہم سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مذکورہ نظرثانی کی پٹیشن 2اکتوبر کو باقاعدہ سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے ارسلان افتخار کو نوٹس جاری کیا اور سماعت 30اکتوبر 2012ء تک ملتوی کردی۔
حکم امتناع کی ایک درخواست بھی دائر کی گئی اور معزز عدالت نے آبزرو کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ بھی اگلی سماعت پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیا جائیگا ۔ انصاف کے مفاد میں مناسب یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیا جائے۔ میرے مؤکل نے کمیشن کی تقرری پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے انھیں خدشہ ہے کہ کمیشن آزادی، غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ ون مین کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل کے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے ساتھ سوشل اور فیملی تعلقات ہیں اور ملک ریاض حسین کے خلاف واضح تعصب پایا جاتا ہے۔
سید زاہد بخاری نے نوٹس کے جواب میں مزید کہا ہے کہ کمیشن میں ایف آئی اے کے نچلی سطح کے دو افسروں کی تقرری سے میرے مؤکل کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں کیوں کہ اس قسم کے پیچیدہ اور اہم مالی معاملے کی تحقیقات کیلیے مذکورہ افسروں کی اہلیت پر سنجیدہ سوال اٹھتا ہے؟۔ زاہد بخاری نے مزید کہا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کی طرف سے کمیشن کو کام مکمل کرنے کیلیے دی گئی مہلت تقریباً ختم ہوچکی ہے لہٰذا یہ درست نہیں ہوگا کہ کمیشن مزید کارروائیوں کا آغاز کرے۔
انھوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 30اگست کو شعیب سڈل کو ون مین کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کے عدالتی حکم کے خلاف نظر ثانی کی پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ہماری طرف سے نوٹس واپس لینے اور کارروائی روکنے کی درخواست پر سڈل کمیشن نے جامع بیان اور دستاویزات جمع کرانے کی تاریخ 4 اکتوبر تک بڑھا دی تھی تاہم سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مذکورہ نظرثانی کی پٹیشن 2اکتوبر کو باقاعدہ سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے ارسلان افتخار کو نوٹس جاری کیا اور سماعت 30اکتوبر 2012ء تک ملتوی کردی۔
حکم امتناع کی ایک درخواست بھی دائر کی گئی اور معزز عدالت نے آبزرو کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ بھی اگلی سماعت پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیا جائیگا ۔ انصاف کے مفاد میں مناسب یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیا جائے۔ میرے مؤکل نے کمیشن کی تقرری پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے انھیں خدشہ ہے کہ کمیشن آزادی، غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ ون مین کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل کے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے ساتھ سوشل اور فیملی تعلقات ہیں اور ملک ریاض حسین کے خلاف واضح تعصب پایا جاتا ہے۔
سید زاہد بخاری نے نوٹس کے جواب میں مزید کہا ہے کہ کمیشن میں ایف آئی اے کے نچلی سطح کے دو افسروں کی تقرری سے میرے مؤکل کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں کیوں کہ اس قسم کے پیچیدہ اور اہم مالی معاملے کی تحقیقات کیلیے مذکورہ افسروں کی اہلیت پر سنجیدہ سوال اٹھتا ہے؟۔ زاہد بخاری نے مزید کہا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کی طرف سے کمیشن کو کام مکمل کرنے کیلیے دی گئی مہلت تقریباً ختم ہوچکی ہے لہٰذا یہ درست نہیں ہوگا کہ کمیشن مزید کارروائیوں کا آغاز کرے۔