بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن

توانائی کی قلت کامسئلہ کئی دہائیوں سےملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بناہوا ہےاور یہ بحران چند ہفتوں میں حل نہیں ہوسکتا۔

اس نظام میں جو بھی خرابیاں ہیں انھیں دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں اگر گرمیوں میں بریک ڈاؤن جیسے ایشو سر اٹھاتے ہیں تو اس سے حکومت کے مسائل میں اضافہ ہوگا، فوٹو : فائل

ہفتہ کی رات نیشنل گرڈ میں ایک بار پھر فنی خرابی کے باعث بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہونے سے لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور کراچی سمیت پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا۔ ترجمان وزارت پانی و بجلی نے اس پریشان کن صورت حال پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گڈو سے کوئٹہ جانے والی 220 کے وی کی ٹرانسمیشن لائن فنی خرابی سے ٹرپ کرنے کے باعث بجلی کی فراہمی معطل ہوئی۔ کیسکو ذرایع کا دعویٰ ہے کہ ہفتہ کی رات گئے اوچ پاور پلانٹ کی سپلائی لائن پر خرابی پیدا ہونے سے سارا لوڈ دوسری لائن پر منتقل ہوگیا جس سے نیشنل پاور کنٹرول سینٹر کا سسٹم بھی جواب دے گیا۔

یہ دو ماہ میں بجلی کا چوتھا بڑا بریک ڈاؤن ہے جس سے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوا۔ وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ملک میں بجلی کے بریک ڈاؤن کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت پانی و بجلی سے فوری طور پر تفصیلی رپورٹ طلب کر لی اور اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خورشید شاہ نے اس مسئلے پر سوال اٹھایا ہے کہ ایک ہی وقت میں اتنی لائنیں کیسے ٹرپ کر گئیں، انھوں نے کہا کہ ایسا فرنس آئل کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے اور اس بحران سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔

ترجمان وزیراعظم نے ان اطلاعات کو غلط قرار دیا کہ یہ بحران فرنس آئل کی کمی کے باعث ہوا۔ اس وقت ملک کئی بحرانوں سے گزر رہا ہے، ایک جانب پٹرول کے بحران نے جنم لیا جس نے ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا تو دوسری جانب گیس کا بحران بدستور چل رہا ہے اور کوئی ایسی حکومتی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دے رہی کہ اس بحران پر جلد از جلد قابو پا لیا جائے ۔ اب قومی سطح پر بجلی کے بریک ڈاؤن نے صورت حال مزید پیچیدہ بنا دی ہے۔ یہ گزشتہ دو تین ہفتوں میں مین ٹرانسمیشن لائن میں پیدا ہونے والی خرابی کا تیسرا واقعہ ہے۔

ابھی تو سردیوں کا موسم ہے اور گرمیاں شروع ہونے میں کچھ ماہ باقی ہیں ایسے میں ٹرانسمیشن لائنز خراب ہو رہی ہیں گرمیوں میں جب بجلی کی طلب میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا اور لائنوں پر لوڈ بھی بڑھ جائے گا تو اس وقت ایسے بحران کا دوبارہ پیدا ہونا پریشان کن امر ہوگا۔ حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے اور بجلی کے کئی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ سال ساہیوال میں کوئلہ سے چلنے والے 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دو منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پراجیکٹ دسمبر2016ء میں مکمل کر لیا جائے گا۔


حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے یہ مژدہ سنایا کہ گڈانی میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے دس منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں جب کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے دس منصوبے تھر سندھ اور چھ پنجاب میں بھی لگائے جائیں گے۔ توانائی کی قلت کا مسئلہ کئی دہائیوں سے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور یہ بحران چند ہفتوں میں حل نہیں ہو سکتا، توانائی کے پیداواری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حکومت کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہے لہٰذا وہ اس مسئلے پر جلد قابو پانے کے لیے سولر پاور سے استفادہ کرنے کے منصوبے شروع کر رہی ہے۔

بہاولپور میں قائداعظم سولر پارک تعمیر کیا جا رہا ہے۔ توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے حکومت غیر ملکی کمپنیوں کو دعوت دے رہی ہے، اس وقت چین توانائی کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ حکومت کو دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے جو پورے ملک کی سالمیت کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہفتے کو ڈیرہ مراد جمالی سے گزرنے والی گیس پائپ لائن تباہ ہونے سے اوچ ون پاور پلانٹ سے 500 میگاواٹ اور اوچ ٹو سے 300 میگاواٹ بجلی کی پیداوار معطل ہوگئی۔

یہ دہرا عذاب ہے کہ ایک جانب بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے تو دوسری جانب بجلی کے نظام کو دہشت گرد اپنے حملوں سے مفلوج کررہے ہیں۔ حکومت کو بجلی کے سپلائی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور توجہ دینا ہو گی کیونکہ یہ باتیں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ موجودہ ٹرانسمیشن لائنیں زیادہ لوڈ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں جس سے بریک ڈاؤن جیسے ایشو سر اٹھاتے ہیں۔ گرمیوں میں جب لوڈ بڑھے گا تو ان مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو ابھی سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔

اگرچہ یہ بہت بڑا منصوبہ ہے اور اس کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہے مگر جب تک اس جانب توجہ نہیں دی جائے گی، بریک ڈاؤن جیسے مسائل پر قابو پاناآسان نہیں ہو گا دوسری جانب بجلی کے نظام کا بڑا حصہ فرسودہ ہو چکا ہے۔ گرمیوں میں جابجا ٹرانسفارمر خراب ہونے کی شکایات عام ہو جاتی ہیں اور اس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوامی سطح پر پیدا ہونے والے اشتعال سے حکومت کی سیاسی ساکھ متاثر ہوتی ہے جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں اٹھاتی ہیں۔

عالمی مارکیٹ میں فرنس آئل مہنگا ہونے یا اس کی بروقت دستیابی نہ ہونے سے بھی بجلی کے پیداواری یونٹ کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت کو بجلی کے ہائیڈل پیداواری منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ سولر انرجی کے منصوبوں پر توجہ دینا ہو گی۔ اب آئے دن قومی سطح پر پیدا ہونے والا بجلی کا بریک ڈاؤن پریشان کن امر ہے۔ اس نظام میں جو بھی خرابیاں ہیں انھیں دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں اگر گرمیوں میں بریک ڈاؤن جیسے ایشو سر اٹھاتے ہیں تو اس سے حکومت کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔
Load Next Story