اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان
حکمران یہ اعلان تو کر دیتے ہیں کہ وہ بہت جلد ٹیکس اصلاحات نافذ کریں گے مگر حسب عادت وہ اپنا یہ وعدہ بھول جاتے ہیں۔
QUETTA:
گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر اشرف محمود وتھرا نے ہفتے کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش کن خبر سنائی کہ اسٹیٹ بینک نے آیندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں ایک فیصد کمی کر دی ہے' جس کے بعد شرح سود 9.5 فیصد سے کم ہو کر 8.5 فیصد ہو گئی ہے جس پر عملدرآمد 26 جنوری سے ہو گا۔ اسٹیٹ بینک نے سال 2014ء کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے نومبر' دسمبر کے لیے شرح سود 0.5 فیصد کم کیا تھا جس کے نتیجے میں قرضوں پر سود کی شرح گھٹ کر 9.5 فیصد ہوگئی تھی جب کہ اس سے پیشتر چار ماہ سے شرح سود دس فیصد پر برقرار تھی۔
اس طرح دیکھا جائے تو اسٹیٹ بینک بتدریج قرضوں پر شرح سود میں کمی کرتا چلا آ رہا ہے جو معیشت کی بہتری کے لیے خوش آیند امر ہے۔ قرضوں پر شرح سود کم ہونے سے صنعتکاروں 'تاجروں اور دیگر افراد کی جانب سے بینکوں سے قرضے لینے کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جس سے بینکوں کی معاشی ساکھ مزید بہتر ہو گی۔ اگر بینکوں کی جانب سے قرضوں پر شرح سود بہت زیادہ ہو تو اس سے بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں کمی آتی ہے جس کا بالواسطہ نقصان تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کو پہنچتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ گزشتہ دو ماہ نومبر اور دسمبر 2014ء میں تجارتی خسارہ کم ہوا ، زرمبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا اور بہتر رسد کے باعث غذائی اشیا کی مہنگائی میں کمی رہی۔ گزشتہ سال رمضان المبارک اور اس کے بعد کے چند ماہ تک مہنگائی میں خاطر خواہ اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا' جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے' عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے اس صورت حال سے مزید پریشان ہوگئے' حکومت نے اس صورت حال کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھائے جس سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اس وقت معاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔
پٹرول کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی کمی کے باعث بھی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اب ایک بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے بیرونی تجارت میں اضافہ ہوا۔ برآمدات بڑھنے سے ملکی معیشت میں یقیناً بہتری آئے گی۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے گڈز کی ترسیل پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوئی ہے جس کا فائدہ نہ صرف صنعتکاروں اور تاجروں کو پہنچا بلکہ عوام بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ کاروباری حالات میں بھی بہتری آنے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانی کی جانب سے رقوم بھیجنے کے رجحان میں اضافے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے ملکی معیشت کو استحکام ملا ہے ۔حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کر دے تو اس سے معیشت پر مزید خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بچت اسکیموں میں کم کیے گئے منافع کو بڑھانے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے ' دیکھنے میں آیا ہے کہ ان اسکیموں میں زیادہ تر مجبور 'بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کا سرمایہ ہوتا ہے' اگر ان کا منافع زیادہ ہو جائے تو ان بے بس افراد کی مالی پریشانیاں کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
حکومت کو معاشی نظام بہتر بنانے کے لیے ٹیکس اصلاحات پر بھی تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ حکمران یہ اعلان تو کر دیتے ہیں کہ وہ بہت جلد ٹیکس اصلاحات نافذ کریں گے مگر حسب عادت وہ اپنا یہ وعدہ بھول جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بااثر حکومتی ارکان 'سیاستدان اور جاگیرداروں کی اکثریت اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کرتی اگر یہ لوگ اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں تو اس سے حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے اور اپنا معاشی نظام چلانے کے لیے اس کا قرضوں پر انحصار بھی کم ہوسکتا ہے لہٰذا حکومت کو ٹیکس اصلاحات کا آغاز حکومتی ارکان اور سیاستدانوں سے کرنا چاہیے ۔عوام دوست اقتصادی پالیسیاں ہی ملکی ترقی کی حقیقی ضامن ہو سکتی ہیں۔ جہاں تک بڑے پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو اس کا انحصار سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورت حال پر ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر اشرف محمود وتھرا نے ہفتے کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش کن خبر سنائی کہ اسٹیٹ بینک نے آیندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں ایک فیصد کمی کر دی ہے' جس کے بعد شرح سود 9.5 فیصد سے کم ہو کر 8.5 فیصد ہو گئی ہے جس پر عملدرآمد 26 جنوری سے ہو گا۔ اسٹیٹ بینک نے سال 2014ء کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے نومبر' دسمبر کے لیے شرح سود 0.5 فیصد کم کیا تھا جس کے نتیجے میں قرضوں پر سود کی شرح گھٹ کر 9.5 فیصد ہوگئی تھی جب کہ اس سے پیشتر چار ماہ سے شرح سود دس فیصد پر برقرار تھی۔
اس طرح دیکھا جائے تو اسٹیٹ بینک بتدریج قرضوں پر شرح سود میں کمی کرتا چلا آ رہا ہے جو معیشت کی بہتری کے لیے خوش آیند امر ہے۔ قرضوں پر شرح سود کم ہونے سے صنعتکاروں 'تاجروں اور دیگر افراد کی جانب سے بینکوں سے قرضے لینے کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جس سے بینکوں کی معاشی ساکھ مزید بہتر ہو گی۔ اگر بینکوں کی جانب سے قرضوں پر شرح سود بہت زیادہ ہو تو اس سے بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں کمی آتی ہے جس کا بالواسطہ نقصان تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کو پہنچتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ گزشتہ دو ماہ نومبر اور دسمبر 2014ء میں تجارتی خسارہ کم ہوا ، زرمبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا اور بہتر رسد کے باعث غذائی اشیا کی مہنگائی میں کمی رہی۔ گزشتہ سال رمضان المبارک اور اس کے بعد کے چند ماہ تک مہنگائی میں خاطر خواہ اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا' جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے' عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے اس صورت حال سے مزید پریشان ہوگئے' حکومت نے اس صورت حال کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھائے جس سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اس وقت معاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔
پٹرول کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی کمی کے باعث بھی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اب ایک بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے بیرونی تجارت میں اضافہ ہوا۔ برآمدات بڑھنے سے ملکی معیشت میں یقیناً بہتری آئے گی۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے گڈز کی ترسیل پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوئی ہے جس کا فائدہ نہ صرف صنعتکاروں اور تاجروں کو پہنچا بلکہ عوام بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ کاروباری حالات میں بھی بہتری آنے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانی کی جانب سے رقوم بھیجنے کے رجحان میں اضافے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے ملکی معیشت کو استحکام ملا ہے ۔حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کر دے تو اس سے معیشت پر مزید خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بچت اسکیموں میں کم کیے گئے منافع کو بڑھانے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے ' دیکھنے میں آیا ہے کہ ان اسکیموں میں زیادہ تر مجبور 'بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کا سرمایہ ہوتا ہے' اگر ان کا منافع زیادہ ہو جائے تو ان بے بس افراد کی مالی پریشانیاں کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔
حکومت کو معاشی نظام بہتر بنانے کے لیے ٹیکس اصلاحات پر بھی تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ حکمران یہ اعلان تو کر دیتے ہیں کہ وہ بہت جلد ٹیکس اصلاحات نافذ کریں گے مگر حسب عادت وہ اپنا یہ وعدہ بھول جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بااثر حکومتی ارکان 'سیاستدان اور جاگیرداروں کی اکثریت اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کرتی اگر یہ لوگ اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں تو اس سے حکومت کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے اور اپنا معاشی نظام چلانے کے لیے اس کا قرضوں پر انحصار بھی کم ہوسکتا ہے لہٰذا حکومت کو ٹیکس اصلاحات کا آغاز حکومتی ارکان اور سیاستدانوں سے کرنا چاہیے ۔عوام دوست اقتصادی پالیسیاں ہی ملکی ترقی کی حقیقی ضامن ہو سکتی ہیں۔ جہاں تک بڑے پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو اس کا انحصار سیاسی استحکام اور امن و امان کی بہتر صورت حال پر ہے۔