ملک کی خاطر
بجلی کی طویل اور ناختم ہونے والی لوڈشیڈنگ سے بدترین دہشت گردی تک کون سی ایسی عفریت ہے، جس سے ملک دوچار نہ ہو۔
ہوسکتا ہے کہ جس روز یہ اظہاریہ شایع ہو، پنجاب کے مختلف اضلاع میں دو ہفتوں سے جاری پٹرول کا بحران ختم ہوچکا ہو۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا کوئی وقتی بندوبست کسی بحران کا مستقل حل ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر مستقل اور پائیدار بندوبست پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ معاملہ صرف پٹرول کے بحران یا قدرتی گیس کی کمیابی تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا ملک مختلف نوعیت کے چھوٹے بڑے بحران کا شکار ہے۔
بجلی کی طویل اور ناختم ہونے والی لوڈشیڈنگ سے بدترین دہشت گردی تک کون سی ایسی عفریت ہے، جس سے ملک دوچار نہ ہو۔ مگر حکمران اشرافیہ اس صورتحال سے بے نیاز حاصل ہونے والے اقتدار واختیار کو عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے بجائے اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔
سول سوسائٹی اور متوشش شہری، جو جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں، منتخب حکمرانوں کی خامیوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں کو محض اس لیے نظر انداز کرنے پر مجبور ہیں کہ کہیں ان کا سخت گیر ردعمل ملک میں جمہوری نظم حکمرانی کی بساط لپیٹنے کا باعث نہ بن جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ خاموشی اور یہ مصلحت کوشی آخر کب تک؟ کیونکہ برداشت کی بہرحال ایک حد ہوتی ہے اور پھر لوگ انجام کی پرواہ کیے بغیر حکمرانوں سے دست وگریباں ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، وہ دراصل بری حکمرانی کا شاخسانہ ہے، جس کی لپیٹ میں ملک کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ بری حکمرانی کی کئی خصوصیات ہوتی ہیں۔ کہیں کوئی ایک برائی حکمرانی کی خرابی کا سبب بنتی ہے کہیں کوئی دوسری۔ لیکن پاکستان میں بری حکمرانی کی متعینہ تمام خرابیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمرانی کے منصب پر فائز اکابرین و قائدین نااہلی کی آخری منزلوں پر ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ذرا ایک نظر ان برائیوں پر ڈالتے چلیں جو بری حکمرانی کا سبب بنتی ہیں۔ اول، فیصلوں کا میرٹ پر نہ ہونا۔
دوئم، شفافیت کا فقدان۔ سوئم، حکومت یا حکومتی اداروں کا کسی بھی مسئلے یا معاملے پر فوری اور مثبت ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہنا۔ چہارم، قانون کی حاکمیت کا تصور مفقود ہوجانا۔ پنجم، حکومت کا عدل سے دامن بچانے کی کوششیں کرنا۔ ششم، احتساب اور جوابدہی سے پہلوتہی ۔ ہفتم، حکومتی اقدامات کا مؤثریت سے عاری ہوجانا۔ ان نکات کی بنیاد پر موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کو پرکھیں تو پاکستان میں قائم ہونے والی بیشتر حکومتیں بری حکمرانی کی نظیر نظر آئیں گی۔ جب کہ موجودہ حکومت بری حکمرانی کی بدترین مثال بن چکی ہے۔
ایک اور معاملہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بعض صاحب الرائے دانشور اور اہل قلم آج کل صدارتی نظام کے حق میں قلمی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ خرابی بسیار کا سبب پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ حالانکہ پاکستان میں کبھی بھی پارلیمانی نظام اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی۔ منتخب حکومتیں اس نظام کی نزاکتوں اور موشگافیوں کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری رہیں۔ جب کہ غیر منتخب حکومتوں یعنی فوجی آمریتوں نے پارلیمانی نظام میں صدارتی نظام کا ٹانکا لگانے کی کوشش میں مزید ابہام پیدا کردیے۔
اس سلسلے میں دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی یہ کہ صدارتی نظام کا اپنا مکینزم ہوتا ہے، جو طویل مشقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسی طرح پارلیمانی نظام کا اپنا طریقہ کار ہے۔ چونکہ ہم انڈیا ایکٹ 1935 کے حوالے سے اسی نظام کے تحت حکمرانی کا تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے یہی نظام ہمارے لیے سود مند ہے۔ البتہ فکری ابہام ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی نظام کی نوعیت اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کی نزاکتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
پارلیمانی جمہوری نظام کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ پارلیمان، انتظامیہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ سے مراد صرف منتخب کابینہ نہیں بلکہ اس کی مدد و معاونت کے لیے مستقل بنیادوں پر تقرر کی گئی بیوروکریسی بھی ہوتی ہے۔ پارلیمان قانون سازی کے ساتھ اس کے نفاذ کی حکمت عملی بھی طے کرتی ہے۔ کابینہ بیوروکریسی کی مدد سے نظام حکمرانی چلاتی ہے اور پارلیمان کے فیصلوں پر عملدرآمد کراتی ہے۔ جب کہ عدلیہ آئین اور قانون کی محافظ ہوتی ہے اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے نظام عدل کو قائم کرتی ہے۔
ساتھ ہی وہ ایسی تمام قانون سازی کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہے، جو ریاستی آئین کی بنیاد اور حقوق انسانی کے مروجہ اصولوں سے متصادم ہوں۔ لہٰذا عدلیہ کے کردار کو انگریزی اصطلاح کے مطابق Watchdog کہا جاسکتا ہے، جو منتخب پارلیمان اور حکومت کے علاوہ ریاست کے ہر ادارے کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور اسے آئینی محدودات سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔
پاکستان میں پارلیمان جب بھی قائم ہوتی ہے، اپنی ذمے داریاں احسن طور پر ادا کرانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ عدلیہ ماضی میں بعض غلط فیصلوں کی وجہ سے متنازع ضرور ہوئی تھی، مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی حد تک عوام کو ریلیف مہیا کرتی رہی۔ گزشتہ 8 برسوں سے وہ ریاست کے ایک اہم ستون کی حیثیت سے خود کو assert کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس لیے منطقی طور پر ان دونوں اداروں پر تنقید تقریباً نہ ہونے کے برابر بنتی ہے، جب کہ خرابی کی اصل جڑ انتظامیہ ہے۔ جس کی ذمے داری منتخب حکومت کے ساتھ بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے۔
چونکہ ہمارا سماجی ڈھانچہ قبائلیت، برادری سسٹم اور فیوڈل سوچ میں جکڑا ہوا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں پر بھی اس کے گہرے اثرات ہیں، جس کی وجہ سے پشتینی یا خاندانی قیادت کا تصور عام ہے۔ اسی Mindset کا نتیجہ ہے کہ عمومی طور پر سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات کا کوئی تصور نہیں ہے، جن جماعتوں میں مختلف عہدوں پر چناؤ کی رسم جاری بھی ہے، تو وہ مقبول جمہوری طرزعمل سے متصادم ہے۔
یہ روش یا طرزعمل اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اقتدار کی ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح پر منتقلی اور اقتدار واختیار میں مناسب فاصلہ کی اہمیت سے نہ تو آگاہ ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں جمہوریت کے نام پر ایک منتخب آمریت جنم لے رہی ہے، جو فوجی آمریت سے بھی بدتر ہے۔
چونکہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی جمہوری نظام کی نزاکتوں اور موشگافیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے وہ سول سروس کو ریاست کے بجائے ذاتی ملازم سمجھتی ہیں۔ یہ طرز فکر اور رویہ دراصل تمامتر خرابی بسیار کا سبب ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برطانوی طرز حکمرانی میں سول سروس کا انسٹیٹیوشن آئین کے تابع ریاست کا مستقل ملازم ادارہ ہوتا ہے۔ جس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ہر منتخب حکومت کی معاونت کرے اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کرائے۔ لیکن اس میں تقرریوں، تعیناتیوں، ترقیوں اور تبادلوں کا اپنا اندرونی مکینزم ہوتا ہے، جس کا اختیار قواعد وضوابط کے مطابق مجاز اتھارٹی کو حاصل ہوتا ہے۔
اس عمل میں منتخب پارلیمان اور کابینہ کے وزرا مداخلت نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی تقرری یا تعیناتی اشد ضروری ہو تو کابینہ اس کے لیے صرف سفارش (Recommendation) کرسکتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سول سروس اپنے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہوئے ہر منتخب ہوکر آنے والی حکومت کی بلاامتیاز معاونت کرتی ہے۔ یوں صرف ایک حد تک منتخب حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ البتہ پارلیمان اکثریتی ووٹ کے ذریعے اس کے ورکنگ مینول میں تبدیلی و تغیر لاسکتی ہے۔
لہٰذا پارلیمانی جمہوریت میں منتخب حکومت اور سول سروس کے باہمی تعلق کی نوعیت اور طریقہ کار کی نزاکتوں کو باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسا معاشرہ جو اپنی سرشت میں قبائلیت، برادری سسٹم اور فیوڈل معاشرت کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہو، ان نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عام طور پر ایسے معاشروں میں یہ توازن قائم نہیں رہ پاتا، جس کی وجہ سے پارلیمانی جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ پاکستان اور نائیجریا موجودہ دنیا میں اس کی واضح مثال ہیں، جو برطانوی نظام اختیار کرنے کے باوجود اسے صحیح طور پر چلانے کی اہلیت سے محروم ہیں۔
اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عوامی مسائل کے فوری حل کے لیے دنیا بھر میں 1970 کے عشرے سے شراکتی جمہوریت کے نظام نے تیزی کے ساتھ قبولیت حاصل کی ہے۔ آج دنیا کے سبھی جمہوری ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ عوام کو بہتر خدمات مہیا کرنے کی غرض سے دنیا کے کئی ممالک نے ریاستی انتظام کی ہر سطح (Tier) کے لیے سول سروس کا الگ ڈھانچہ بھی ترتیب دیا ہے۔ دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک میں میونسپل سول سروس کے لیے امیدواروں کے انتخاب اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ کیونکہ وفاقی اور صوبائی سول سروس کے مقابلے میں اس سروس کے اہلکاروں کا عوام سے براہ راست اور ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔
اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں فعال، سرگرم اور مستعد کارکنوں کو میدان میں اتارتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ مقامی حکومتی نظام سیاسی جماعتوں کی فیوڈل ذہنیت کے باعث قائم ہی نہیں ہوپا رہا، اس لیے میونسپل سروسز کے قیام کی بات قبل از وقت ہے۔ لیکن دنیا جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور معالات ومسائل جس انداز میں پیچیدہ ہورہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے ایک پائیدار مقامی حکومتی نظام ملک میں نافذ کردیا جائے۔ اس کے قیام میں مزید تاخیر ملک میں حکمرانی میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔