تہذیبوں کے ٹکراؤ کا کوئی خطرہ نہیں
نائیجر اور بیلجیم میں ہونے والے فسادات کے بعد جس میں فرانس کی تجارتی کمپنیوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
عالمی جنگوں کے بعد دنیا ایک اور خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔ دہشت گردی عالمی مسئلہ بن گئی ہے اور حکمران طبقات اور اہل دانش اس خطرے کا عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی سوچ رہے ہیں، 16/12 کے سانحہ پشاور نے نہ صرف پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ پوری دنیا الرٹ ہوگئی تھی کہ اچانک فرانس کے ایک جریدے نے گستاخانہ خاکے چھاپ کر جو سنگین صورتحال پیدا کردی ہے اگر اس سے نہ نمٹا گیا تو ان مبصرین کے یہ خدشات درست ثابت ہوسکتے ہیں کہ دنیا ایک اور عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔
میں ذاتی طور پر کسی عالمی جنگ کا امکان نہیں دیکھ رہا نہ اس قسم کے سانحات کو تہذیبی جنگ سمجھتا ہوں کہ عالمی جنگ کا امکان اس وقت ہوتا ہے جب جنگ کے دونوں فریقوں میں طاقت کا کوئی معقول توازن موجود ہو۔ 57 مسلم ملک دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی اس قابل نہیں کہ مغرب سے پنگا لینے کی جرأت کرے۔ ایسی صورتحال میں کسی عالمی جنگ کا تو سرے سے کوئی امکان نہیں بلکہ یہ امکان ضرور ہے کہ دنیا بھر میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات نہ پھوٹ پڑیں، اس خدشے کی وجہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں کی مذہبی جماعتیں اور دہشت گرد تنظیمیں اس مسئلے کے حوالے سے پرتشدد احتجاج کی طرف جا رہی ہیں۔
کئی مغربی ملکوں میں دہشت گردی کے حوالے سے مسجدوں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں، ڈر یہ ہے کہ پیرس کے جریدے کے دفتر پر حملے کے دوران جو 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں یہ ہلاکتیں مذہبی جذبات کی آگ پر تیل کا کام نہ کریں۔ افریقی ملک نائیجر میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کے دوران 7 چرچ کو نذر آتش کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ بیلجیم میں مسلم انتہا پسندی کے خطرے کے خلاف فوج طلب کرلی گئی ہے اور پورے یورپ میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔
پیرس کے جریدے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کے خلاف جو ملین مارچ کیا گیا اس میں چالیس ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی جن میں مسلم حکمران بھی شامل ہیں، اگر یہ ریلی عالمی دہشت گردی کے تناظر میں نکالی گئی تھی تو یقیناً یہ ایک مثبت اقدام تھا لیکن اگر اس ریلی کو پیرس کے چارلی ایبڈو پر حملے ہی کے تناظر میں دیکھا گیا تو پھر اس حملے کی نوعیت مذہبی ہوجاتی ہے اور عالمی دہشت گردی کا مسئلہ پس منظر میں جاسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ ایک ایسی حماقت ہوگی جو عالمی دہشت گردی سے نہ صرف دنیا کی توجہ ہٹا دے گی بلکہ ایک نئی صلیبی جنگ کی طرف عوام کو دھکیل سکتی ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ عالمی دہشت گردوں کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو ہوگا۔
نائیجر اور بیلجیم میں ہونے والے فسادات کے بعد جس میں فرانس کی تجارتی کمپنیوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، فرانس کے ایک ثقافتی مرکز کو نشانہ بنایا گیا اس کے کتب خانے اور دفاتر کو آگ لگادی گئی۔روس کے ایک مسلم اکثریتی علاقے انگشتیا میں ہزاروں افراد نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف ریلی نکالی اور افغانستان کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں کے سربراہ فوری پیرس کے جریدے کے منتظمین کو آیندہ اس قسم کی اشتعال انگیزی سے روکتے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جو خاکے پہلے جتنی تعداد میں چھاپے گئے تھے حملے کے بعد اس سے بہت زیادہ تعداد میں گستاخانہ خاکے چھپوا کر تقسیم کیے گئے، اس حماقت کی اتباع جرمنی کے ایک اور جریدے نے کی۔
یوں مسلم دنیا کو مزید مشتعل کرنے کی ایک اور احمقانہ کوشش کی گئی۔ہم ان افسوسناک واقعات کو تہذیبوں کا ٹکراؤ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تہذیبیں اور دین دھرم سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اولین اہمیت معاشی مفادات کو حاصل ہوتی ہے اگر تہذیبوں کی کوئی جنگ ہوگی تو یہاں بھی فریقین میں بڑا فرق موجود نظر آتا ہے، کوئی تہذیب اپنے ملک اور معاشرے کی معاشی صورت حال سے الگ نہیں ہوتی کیونکہ تہذیبیں بھی معاشی نظام کا پرتو ہوتی ہیں، مغرب کی معیشت انتہائی ترقی یافتہ ہے اور مسلم دنیا ایک انتہائی پسماندہ معیشت کی حامل ہے۔ اس قابل ذکر قابل فہم تضاد کے پس منظر میں دو تہذیبوں کا ٹکراؤ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ ٹکراؤ بھی مذہبی فسادات سے آگے نہیں جاسکتا۔
اس قسم کے خدشات کی نفی ہمارا وہ عالمی کلچر کرتا ہے جس نے آئی ٹی کے انقلاب کی وجہ سے دنیا کو ایک گاؤں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ اور دنیا کے عوام خصوصاً ترقی یافتہ معاشروں کے عوام اب مذہب، رنگ، نسل، زبان کے حوالوں سے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے بجائے معاشی ناانصافیوں کے حوالے سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، جس طرح پاکستان میں چند انتہا پسند گروہ مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی طرح ترقی یافتہ ملکوں میں بھی مذہبی انتہا پسندی میں چند گروہ ہی شامل ہیں، جس طرح پاکستان میں عوام کی بھاری اکثریت مذہبی انتہا پسندی سے دور ہے مغرب میں بھی یہی صورت حال ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی تو دور کی بات ہے مذہبی اعتدال پسندوں کو بھی 67 سال میں عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وہ حقیقت یا المیہ ہے جو مذہبی طاقتوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنا ہوا ہے۔ خیال ہے کہ اسی تناظر میں اعتدال پسند مذہبی طاقتیں دہشت گردوں کے لیے اپنے دل میں اپنی پالیسیوں میں نرم گوشہ رکھتی رہی ہیں۔
بدقسمتی سے 16/12 کے سانحے نے ملک کی دوسری جماعتوں کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کھل کر آواز اٹھائیں اور 16/12 کے بعد خوشی سے یا مجبوری سے دوسری جماعتوں کے ساتھ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کو بھی ایک پیج پر لاکھڑا کیا لیکن یہ اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کی مجبوری تھی رضا نہیں تھی اور جلد ہی اس کا اظہار اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اختلافات کی شکل میں باہر آگیا۔ اب فرانس اور جرمنی کے جریدوں کی حماقت نے ہماری اعتدال پسند جماعتوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ چارلی ایبڈو کی غلطی یا گستاخی کو عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں۔
سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مغرب آزادی اظہار کے نام پر جو اشتعال انگیز حرکتیں کر رہا ہے اس سے مسلم دنیا کی اعتدال پسند اکثریت بھی انتہا پسندی کی طرف جا رہی ہے۔ کیا مغرب کے حکمران اور اہل دانش اس خطرناک صورتحال سے واقف نہیں؟ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ 16/12 نے اس ملک کے عوام کو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف متحد کردیا ہے وہ اس اتحاد کو محض ایک جریدے کی بدمعاشی سے پارہ پارہ ہونے نہیں دیں گے اور پرامن طریقے سے احتجاج کی راہ اپنائیں گے۔