کلچرل جال
بھارت کی سب سے بڑی صنعت تو اس کی وہ فلمی صنعت ہے جس کے ہیروز پاکستانی دلوں پر راج کرتے ہیں
امریکی صدر بھارت کا دورہ کر رہے ہیں اور بھارت اپنے پرانے جال کو مہارت سے بچھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ جال اس بھارتی کلچر کا ہے جس سے مشرق تو آزاد ہوچکا ہے مگر مغرب بڑی خوشی کے ساتھ اس جال میں پھنس کر ہنستا ہے اور ایک قسم کی مسرت محسوس کرتا ہے۔ بھارت تو بخوبی جانتا ہے مگر اس حقیقت سے ہم بھی آگاہ ہیں کہ بھارت اب وہ نہیں جو نصف صدی قبل تھا۔ آج بھارت بلٹ ٹرین کی اسپیڈ سے مغربی کلچر کو اپنا رہا ہے اور بھارت کی نئی نسل کو ہندی بولنا تو کیا سمجھ میں بھی نہیں آرہی۔
اب بھارت کے مردوں نے دھوتی اور عورتوں نے ساڑھی سے اپنا رشتہ ختم کردیا ہے۔ اب وہ دونوں اپنے آپ کو جینز میں اچھا محسوس کرتے ہیں۔ وہ بھارت بدل نہیں رہا بلکہ بدل گیا ہے جس کے بارے میں جواہر لال نہرو نے ''تلاش ہند'' لکھی تھی۔ وہ بھارت جس کو اپنے کلچر پر ناز تھا جس کے بارے میں غیر ملکی سیاح اپنے سفرنامے تحریر کرتے ہوئے ایک فخر محسوس کرتے تھے، جس پر ایک مغربی دانشور نے ''کنول اور روبوٹ'' کے عنوان سے قابل مطالعہ کتاب لکھی تھی۔ جس بھارت کو دیکھنے کے لیے دنیا کے لوگ ایک جذباتی کیفیت محسوس کرتے تھے۔ وہ بھارت بدل گیا ہے۔
اب اس کے لوگ اپنے گنگا جمنا والے کلچر سے محبت نہیں کرتے۔ اب انھیں امریکی کلچر اچھا لگتا ہے اور وہ دنیا کے ماڈرن باشندے بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے خواب کچھ بھی تھے مگر بھارت بنیادی طور پر ایک ہندو ریاست ہے اور اس کی ہندو ذہنیت آج بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اچھی طرح سے جانتی ہے۔ اس لیے بھارت نے اپنے لوگوں کو ماڈرن ہونے سے روکا نہیں بلکہ اس نے اپنی نوجوان نسل کی ہر طرح سے ہمت افزائی کی ہے کہ وہ ماڈرن بنے مگر اس نے جدیدیت کے اس بہاؤ میں اپنے دھرمی کلچر کا وہ جال نہیں بہایا جس میں وہ آسانی کے ساتھ مغربی لوگوں کو قید کرلیتا ہے۔
جب غیر ملکی وفد بھارت میں داخل ہوتے ہیں تب بھارت ماڈرن انداز والے اعتماد کے ساتھ اپنے دھرمی اور کلچرل جال بچھانے لگتا ہے اور اس جال میں دنیا کو انگلیوں پر نچانے والے امریکی بھی پھنس جاتے ہیں۔ اس بار بھارت صدر اوباما کو کس طرح اپنے کلچر کے جال میں قید کرتا ہے؟ وہ مناظر تو ہم دیکھیں گے۔ مگر ہم کس طرح بھول سکتے ہیں جب اس سے قبل امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن بھارت آئے تھے تب بھارت نے انھیں ہولی کے رنگوں میں رنگ کر اسے ذہنی طور پر متاثر کردیا تھا اور وہ بھارت کے کلچر کا دیوانہ بن گیا تھا۔
حالانکہ امریکا کی وزارت خارجہ میں موجود ذہین افراد نے اپنے صدر کو بتایا تھا کہ ''ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں'' مگر بھارت وہ ہاتھی ہے جو دونوں دانتوں سے کھا سکتا ہے۔ آج اگر مشرق وسطی کے عرب ممالک میں پاکستانیوں اور بنگالیوں کے مسلمانوں کے مقابلے میں بھارت کے ہندو بڑی تعداد میں اور بڑی تنخواہوں والی ملازمتوں میں مصروف ہیں، اس کا سبب بھی بھارت کی وہ کلچرل ڈپلومیسی ہے جو ہندو دیو مالا کی طرح بہت رنگین اور بیحد پراسرار اور پراثر بھی ہے۔
گورے تو ویسے بھی ان چیزوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ جب وہ مندروں میں جاتے ہیں اور وہاں گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ جب انھیں کلاسیکل رقص دکھایا جاتا ہے۔ جب انھیں کنول کے پھولوں کی مالائیں پہنائی جاتی ہیں اور جب ان کے ماتھے پر ٹیکے لگائے جاتے ہیں تب وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اس وقت تو انھیں ایسا لگتا ہے کہ وہ پچھلے جنم میں ہندو تھے۔ مگر وہ پاکستانی جن کے آباؤ اجداد نے اپنے ثقافتی اقتدار کو ہندو شاؤنزم سے بچانے کے لیے پاکستان بنایا تھا جب ان کے وفود بھارت میں داخل ہوتے ہیں اور بھارت کی ''مہیلائیں'' ایک روپے کی بندی ان کے ماتھے پر چپکاتی ہیں تب ہماری خواتین خوشی میں پھولی نہیں سماتی۔
بھارت کی سب سے بڑی صنعت تو اس کی وہ فلمی صنعت ہے جس کے ہیروز پاکستانی دلوں پر راج کرتے ہیں اور بھارت کے ٹی وی ڈرامے جس دلچسپی سے دیکھے جاتے ہیں اس پس منظر میں کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کو یہ بات کرنے کا حق حاصل ہوا تھا کہ ''پاکستان بھارت کی کلچرل کالونی ہے'' مگر اس جال میں وہ پوری دنیا کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آج بھی افغانستان میں بھارت کے گانوں اور فلموں کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ مگر اس خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں چین وہ واحد ملک ہے جو بھارت کے کلچرل جال میں نہیں آیا۔
وہ بھارت جو مسلمان حکمران کی تاریخ پر غصے سے تڑپ اٹھتا ہے مگر تاج محل کو دیکھنے کی اتنی فیس وصول کرچکا ہے جو تاج محل کی تعمیر سے سیکڑوں بار زیادہ ہے۔ اس تاج محل کے لیے چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ نے کس قدر سچی بات کہی تھی کہ بھارت میں غربت اور تاج محل کے علاوہ اور کیا ہے؟ اور چین بھلے سوشلزم کو فراموش کرے مگر اس نے بھارت کے حوالے سے کامریڈ ماؤ کی اس بات کو فراموش نہیں کیا۔ اس لیے چین کے وفود جب بھی آتے ہیں تب بھارت ان سے ہولی کھیلنے کی کوشش نہیں کرتا۔
بھارت کی ہندو ذہنیت کے بارے میں تو ہمیں قائداعظم نے عملی طور پر اصل سچائی سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر ہم اپنے قائد کی ان باتوں کو بھول چکے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں یاد کہ جب گاندھی اپنے مخصوص لباس میں ننگے پیر قائداعظم سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے اور انھیں اپنے اسٹائل سے کوئی غلط بات منوانے کی کوشش کرتے تھے تب قائداعظم انھیں کھرے لہجے میں کہا کرتے تھے کہ ''آپ اپنے ننگے پیروں اور سادہ سی دھوتی سے انگریزوں کو تو متاثرکر سکتے ہیں مگر مجھے نہیں۔ اس لیے مجھ سے دلیل کے ساتھ بات کریں۔ یہ سیاست ہے۔ اس میں مفادات منطق کے حوالے سے زیر بحث آتے ہیں''۔
یہی سبب تھا کہ بھارتی کانگریس کے ہزار نخروں کے باوجود قائداعظم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئے۔ اور یہی انداز ذوالفقار علی بھٹو کا بھی تھا۔ انھوں نے بھی کبھی بھارت کی ہندو ثقافت کے انداز کے اثر میں آکر اپنے ملکی مفاد پر آنچ آنے نہیں دی۔ اگر بھارت کے دانشور ان سے قدیم ہندوستان کی بات کرتے تو ذوالفقار علی بھٹو ان سے موہن جو دڑو کی بات کرتے ہوئے کہتے کہ ہم تاریخی طور پر آپ سے زیادہ کلچرل ہیں اور یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے پاکستان کے قدیم کلچر اور اسلام کو اس انداز سے ملایا تھا کہ ایک نئی ثقافتی صورت پیدا ہوگئی تھی۔
مگر ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہمارے حکمرانوں میں سیاسی تخلیق کی صلاحیت نہیں تھی۔ اس لیے انھوں نے پاکستان کی جداگانہ ثقاقت کو پروان چڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی، جس کے نتیجے میں ایک خلا پیدا ہوا اور اس خلا کو بھارت نے فلم انڈسٹری سے پر کیا۔ آج ہم اپنے لوک گیتوں کو بھول چکے ہیں اور اگر پنجابی گیتوں پر پاکستانی شائقین ناچتے ہیں وہ گیت بھی ان سکھ فنکاروں کے ہیں جو پاکستانی عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔ گیت اور سنگیت کا وار تو ایسا ہوا کرتا ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ جب کوئی سکھ فنکار بڑی ادا کے ساتھ آنکھ مارتے ہوئے گاتا ہے کہ:
''آجا نچ لے... آجا نچ لے''
تو کون اپنے آپ کو روک سکتا ہے۔ ویسے تو فن ایک عظیم چیز ہے اور اس کی کوئی بھی سرحد نہیں ہونی چاہیے مگر اس حقیقت کو بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ بھارت اپنے فن اور اپنے کلچر کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس میں ابھی تک کامیاب ہے۔
امریکی بڑے استاد ہیں۔ وہ بھارت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر ہیں تو وہ بھی انسان! جب ساڑھیاں پہن کر اور اپنی کمر کو بلکھا کر بھارت کی لڑکیاں بندی کی نمائش کرتے ہوئے اپنی ناک میں لونگ کا لشکارہ مارتی ہیں تو وہ امریکی بھی اپنے دل پر کنٹرول نہیں کرپاتے۔ بھارت اپنی ہندو ثقافت کے جال کو اتنی مہارت سے استعمال کرتا ہے کہ امریکی حکمران بھی اس میں قید ہوکر وقتی طور پر ایک سرور محسوس کرتے ہیں۔
اس بار جب صدر بارک اوباما بھارت کا مہمان بنا ہے تو بھارت اس انداز سے اس پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے کہ وہ خوش ہوکر بھارت کے حکمرانوں کی فرمائشیں تسلیم کرے اور پاکستان کے لیے ان کی زبانوں سے برائیوں کو حقیقت سمجھے اور پاکستان پر ایک اور زیادتی کرے۔ ہمارے پاس تو ایسا کوئی خوشنما جال نہیں۔ مگر ہم کم از کم امریکی حکمران کو یہ تو سمجھا سکتے ہیں کہ''کلچرل جال'' کے دلفریب مظاہرے کے پیچھے بھارت کے کون سے سیاسی مفادات ہیں؟