جرم ضعیفی کی سزا

اللہ تعالیٰ انسانوں کی بہتری و فلاح کے لیے انھیں اپنا نمایندہ بنا کر بھیجتا ہے۔

03332257239@hotmail.com

عہدیداران و ممبران بار، معزز خواتین و حضرات، حضرت آدمؑ کی تخلیق کے موقع پر شیطان نے اختلاف کیا۔ جس درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا اس کا پھل کھایا گیا۔ پھر ہابیل و قابیل کا جھگڑا گویا دنیا میں اختلاف ہی اختلاف۔ عیسائیت، یہودیت، اسلام، ہندومت، سکھ مذہب اور بدھ مت۔ یوں دنیا مختلف خیالات پر بحث کرتی رہی۔ کون سا طریقہ زندگی اچھا اور کون سی شخصیت بلند تر۔

قائداعظم ہوں یا گاندھی جی، جارج واشنگٹن ہو یا نیلسن مینڈلا، یہ عظیم شخصیات مختلف ملکوں کے بابائے قوم ہیں۔ کرنسی نوٹوں پر ان کی تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ کروڑوں لوگ ان کی عزت کرتے ہوں گے۔ ہم سیاسی بحث و مباحثے میں کوشش کرتے ہیں کہ کسی کا دل نہ دکھے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اسی طرح بہت سے سائنسدان ہیں جن کی انسانیت کی بہتری کے لیے ایجادات کے سبب ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر پیغمبران ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ انسانوں کی بہتری و فلاح کے لیے انھیں اپنا نمایندہ بنا کر بھیجتا ہے۔ وہ خالق کائنات اور اس کی مخلوق کے درمیان رابطے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ واجب الاحترام یہ شخصیات ہیں۔ بابائے اقوام اور سائنسدان صدیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں جب کہ کسی بھی مذہب کے بانی کو ہزاروں سال تک یاد رکھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مذاہب کے ماننے والے آج کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی تعداد میں ہیں۔

مسلمانوں نے کبھی یہودیوں اور عیسائیوں کے پیغمبروں کی توہین نہیں کی۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہم مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک ہم تمام پیغمبروں پر ایمان نہ لائیں۔ حضرت موسیٰؑ و حضرت عیسیٰؑ کو ماننا اور ان کا احترام کرنا ہمارے دین کا لازمی جز ہے۔ ہم ان کی توہین کرکے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں ہم ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ سکھ مذہب کو بھی آئے پانچ سو سال ہوچکے ہیں۔ کئی صدیوں میں کسی بڑے سے بڑے عالم نے اور چھوٹے سے چھوٹے مسلمان نے کبھی ہندومت، بدھ مت اور سکھوں کی بزرگ ہستیوں کی توہین نہیں کی۔

کبھی ان مذاہب کے ماننے والوں سے گفتگو، بحث و مباحثے اور لڑائی جھگڑے میں ان کے بانیوں کے بارے میں کبھی اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کہی۔ ہمیں قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ ''تم دوسروں کے خداؤں کو گالیاں نہ دو کہ وہ کم علمی میں تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں۔'' جب ہم چودہ، پندرہ صدیوں سے کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے واقعے میں کسی بھی پیغمبر یا بانی مذہب کی توہین کا ایک بھی چھوٹے سے چھوٹا قصہ نہیں رکھتے تو ہمیں کیوں آزمایا جا رہا ہے؟

''اگر کوئی میری ماں کو گالی دیتا ہے تو اسے میرا مکا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔'' یہ بات عیسائیوں کے پوپ نے کہی ہے۔ جب فرانس میں توہین آمیز خاکوں کا پاپ کیا گیا تو پوپ کو یہ بات کہنی پڑی۔ مذہب سے ذرا بھی لگاؤ رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ دوسرے کے مذہب کی مقدس ہستیوں کو برا بھلا کہنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک بڑی دہشت گردی ہے جس کا ارتکاب تہذیب و شائستگی کے دعوے دار کر رہے ہیں۔

توہین آمیز خاکے پے در پے کیوں شایع کیے جا رہے ہیں؟ ویسٹ ہمیں ٹیسٹ کر رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ابھی ہم میں حب رسولؐ کی کتنی رمق باقی ہے۔ ہم محسن انسانیتؐ کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہم اسے روز کا معمول سمجھ کر بے حس ہوجائیں۔ مغرب جانتا ہے کہ مسلمانوں میں آنحضرتؐ کی ہستی واحد ذات بابرکت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ کسی اور شخصیت پر ہم بٹ سکتے ہیں لیکن رسول پاکؐ کے نام پر تمام مسلمان یکجا ہوجاتے ہیں۔


عیسائی مبلغ جانتے ہیں کہ غازی علم دینؒ نے اس وقت شہادت کا مرتبہ پایا جب مسلمان اقلیت میں تھے۔ توہین رسالتؐ پر ہر شخص کا ردعمل مختلف ہوگا۔ اسی کو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ''ہم باتیں کرتے رہ گئے اور ترکھانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔'' قائداعظم سے گفتگو کرتے ہوئے حرمت رسولؐ پر مر مٹنے کے مدعی نے کہا کہ ''راج پال کو میں نے مارا ہے اور یہی عمل شفاعت مصطفیٰؐ کا باعث بنے گا۔''

انسانی حقوق اور تہذیب کے علم برداروں کو گھٹیا حرکتوں کے بجائے مباحثے کرنا چاہیے۔ انھیں رسول پاکؐ کی حیات طیبہ کے کچھ گوشوں پر تحفظات ہیں تو علمی انداز میں مکالمہ کرنا چاہیے۔ تقابل ادیان پر ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے ماہرین ان کے سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ مباحثے اور مکالمے کے بجائے کارٹون اور خاتون کے ذریعے ایسی ہستیوں کی توہین کرنا جن کے ماننے والوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ سوال کسی کے کم یا زیادہ ماننے والوں کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اسی طرح کی توہین کسی عام آدمی کی نہیں کی جاسکتی تو عظیم پیغمبر کی کیوں کر۔

احترام انسانیت یہ ہے کہ اگر کسی کا باپ قابل اعتراض کام کرتا ہو تو ہم بیٹے کے سامنے باپ کا کچا چٹھا بیان نہیں کرتے۔ اگر کوئی آدمی کسی سیاسی شخصیت کا ماننے والا ہو تو ہم دلیل کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ کوئی ایسا جملہ نہیں کہتے جو اس شخص کا دل دکھائے۔ بھارت میں اس وقت جانے کا موقع ملا جب اندرا گاندھی کا قتل ہوچکا تھا۔

ایک انڈین مسلم سے دوران گفتگو منہ سے نکل گیا کہ ''اندرا کی زندگی میں پاکستانیوں کو خطرہ تھا کہ وہ حملہ کریں گی۔ ان کے قتل سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔'' وہ صاحب کانگریس کے حامی تھے اور انھیں یہ بات بری لگی۔ محسوس ہوا کہ یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے تھا جن سے ان کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرا۔ یہ 1984 کی بات ہے۔ یوں آپ عمر کی نقدی سے تیس سال کم کرکے جان سکتے ہیں کہ یہ کالج لائف کا زمانہ ہوگا۔

یورپ کے دانشور بے خبر ہیں جب کہ امریکا کے ماہرین بھی قطعاً آگاہ نہیں کہ گنہگار سے گنہگار مسلمان کا عشق رسولؐ کس انتہا کے درجے میں ہوتا ہے۔ وہ صرف یہودیوں کے ہولو کاسٹ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ سوال ہے کہ مسلمان حکمران کیوں مست مئے پندار ہیں؟ وہ کیوں اپنے عوام کو جگا کر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرتے؟ وہ کیوں بھرپور احتجاج کرکے عوام کے لیے مثال نہیں بنتے؟ وہ کیوں عوام کی تربیت نہیں کرتے کہ ہماری اپنی املاک کو نقصان پہنچانا دہرے عذاب کا باعث بنتا ہے۔ وہ کیوں دنیا کو نہیں بتاتے کہ ہماری اپنے نبیؐ کے لیے محبت کی انتہا کیا ہے۔ وہ کیوں مغرب کو باور نہیں کرواتے کہ آپؐ سے محبت ہم مسلمانوں کو اپنی اولاد و ماں باپ سے بھی زیادہ ہے۔ وہ کیوں مسلمانوں کے کردار کو اتنا اعلیٰ نہیں بناتے کہ کوئی گستاخی کی جرأت نہ کرے۔

ہم جرم ضعیفی کے مرتکب کیوں ہو رہے ہیں؟ ہمارے ہاتھ بے زور ہیں کہ ہمیں گستاخ کو سزا دینے کا یارا نہیں۔ ہمارے دل الحاد سے خوگر ہیں۔ کیا ہم امتی باعث رسوائی پیغمبرؐ ہیں؟ موت ہی ہوتی واقعتاً موت کہ ہم علم اور محنت سے دور ہیں۔ مرگ مفاجات کے سوا کوئی اور ہوسکتی ہے جرم ضعیفی کی سزا۔

(یہ تقریر 19 جنوری 2015 کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ''حرمت رسولؐ اجلاس'' میں کی گئی۔)
Load Next Story