ویکوم محمد بشیر۔۔۔۔ ایک تعارف

ویکوم محمد بشیر۔۔۔۔ ایک تعارف


ایکسپریس July 14, 2012
ویکوم محمد بشیر۔۔۔۔ ایک تعارف : فوٹو ایکسپریس

''ایک جمع ایک کتنا ہوتا ہے؟''ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک اور ایک دو ہوتے ہیں مگر مجید نے اس سیدھے سادے اور آسان سے سوال کا ایک ایسا جواب ڈھونڈ نکالا جسے سن کر ماسٹر صاحب سے بھی ہنسی ضبط نہ ہو سکی اور ساری کلاس بھی ہنس پڑی۔ مجید کا جواب اتنا دلچسپ تھا کہ بہت دنوں تک وہی جواب اسکول میں اس کی عرفیت بنا رہا۔ جواب دینے سے پہلے مجید نے تھوڑی دیر سوچا' دو دریا جب مل کر بہتے ہیں تو وہ نسبتاً ایک بڑا دریا بن جاتے ہیں

لہٰذا اس نے نہایت فاتحانہ انداز میں جواب دیا ''ایک اور ایک مل کر نسبتاً بڑا ایک ہوتا ہے۔'' ریاضی میں ایک نیا نظریہ ایجاد کرنے کی پاداش میں اسے بنچ پر کھڑا کر دیا گیا۔ ماسٹر صاحب نے اس کے ہاتھ پر چھ بید مارے اور فرمایا ''انھیں ایک جگہ جمع کر کے نسبتاً بڑا ایک سمجھو۔'' یہ ان معصوم واقعات میں سے ایک ہے جو ویکوم محمد بشیر کی کہانیوں میں اپنی معصومیت اور خلوص کے ساتھ جابجا ملتے ہیں۔

ویکوم محمد بشیر جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ کے ایک گاؤں ویکوم میں 1910ء میں پیدا ہوئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً چوراسی برس تھی۔ بشیر عمارتی لکڑی کے ایک ٹھیکیدار کے بیٹے تھے۔ کاروبار کی حالت بہت سقیم ہو چکی تھی' خاندان بڑا ہو چکا تھا' گھر کا حال بہت برا تھا' زندگی افلاس اور واجبی فراغت کے بین بین تھی۔ کیرالہ چھوڑنے اور کافی عرصے تک سارے ہندوستان میں دربدر پھرنے کے بعد جب وہ پھر کیرالہ آئے تو خاندان پر افلاس اور ادبار کے بادل اور گہرے ہو چکے تھے۔ ان کی زندگی کے ان دنوں کے حالات کا بیان جن میں رہ کر انھوں نے اتنا عظیم ادب تخلیق کیا خود ان کی ہی زبانی سنئے۔ اپنے کہانیوں کے ایک مجموعے ''بھوک'' (1954ء) کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
''برسوں بیت گئے جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا۔ میں نے کب شروع کیا تھا لکھنا؟ میرا خیال ہے کہ 1937ء سے۔ میرا پیشہ ہی لکھنا تھا۔ میں نے بہت لکھا۔ میں اپنی لکھی ہوئی چیزوں کو اخباروں اور رسالوں میں چھپواتا تھا۔ مجھے ان کا معاوضہ کسی نے نہیں دیا۔ یہ کہانیاں 1937ء اور 1938ء کے درمیانی عرصے میں تریوندرم سے شائع ہونے والے ایک ہفتہ وار رسالے ''نو جیون'' میں شائع ہوئیں۔ کیا زمانہ تھا وہ! چار آنے یومیہ میں آپ عیش کی زندگی گزار سکتے تھے۔۔۔

محض چار آنے۔۔۔ مگر اس زمانے میں کسی کو چار پیسے بھی نہیں ملتے تھے۔ ہفتے' مہینے' سال تردد اور پریشانی میں گزرے۔ میں نے اپنے مصائب کو جھیلا' زندگی کی اور ایک روشن مستقبل کی امید بلکہ یقین کے ساتھ۔''
''یہ روشنائی جس سے میں لکھ رہا ہوں مانگی ہوئی ہے۔ کاغذ اور لفافہ بھی کسی سے مانگ کر لایا ہوں۔ میں ضرورت مند ہوں' میں نے ایڈیٹروں کو لکھا۔ مگر کسی نے کسی بھی شکل میں میری مدد نہیں کی۔ میں نے بہت سی کہانیاں لکھیں۔ میں اپنی تحریروں کے سہارے زندہ رہا۔ دشواری کہانیاں لکھنے میں نہیں تھی۔ (کہانی لکھنے کے بعد) اسے بک پوسٹ سے ایڈیٹروں کے پاس بھجوانے کے لئے چار پیسے کی ضرورت ہوتی تھی۔ ڈاک کا یہی خرچہ تھا۔ صرف چار پیسے... یا اللہ' میں نے کتنے لوگوں سے ان چار پیسوں کے لئے بھیک مانگی۔ میں بھیک مانگتا اور مجھے ڈاک کے ٹکٹ خریدنے کے لئے چار پیسے مل جاتے جس سے میں کہانی کسی رسالے میں بھیج دیتا اور پھر اضطراب اور بے یقینی کی ایک سلگتی ہوئی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا... اضطراب اور بے چینی اگلے ہفتے کے رسالے یا اخبار کو دیکھنے کی... میری کہانی شائع ہوئی؟ اوہو! کتنا سکون ہوا ہے... کہانی چھپ گئی۔''

''اس زمانے میں آدھا گلاس چائے کی قیمت ایک پیسہ تھی اور میرے پاس ایک پیسے کو حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ایک پیسے کے بغیر آدھا گلاس چائے خریدنے کی استطاعت سے محروم' میں بیٹھ جاتا اور روتا... میں اس وقت ہنس نہیں پاتا تھا۔ اسی طرح بہت سے سال گزر گئے۔''

''آج میں ہنستے ہوئے اپنی ان کہانیوں کو ایک کتاب کی شکل میں اپنے مہربان قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ مہربانی کر کے اسے قبول کیجئے۔ میں اپنے تمام قارئین کے لئے مسرت اور شادمانی کی دعا کرتا ہوں۔''
یہ زندگی تھی جس میں بشیر نے پرورش لوح وقلم کی اور جو گزری اسے رقم کرتے رہے۔ ویکوم محمد بشیر کی پہلی ناول نما کہانی ''بچپن کی دوست'' (1944ء) تھی جس نے ملیالم زبان میں لکھنے والوں کے سامنے ادبی تخلیق کی نئی نئی راہیں کھول دی تھیں۔

بشیر 11برس کی عمر میں اسکول کو خیرباد کہہ کر تحریک آزادی میں شامل ہو گئے۔ اپنی سیاسی اور انقلابی سرگرمیوں کی بدولت انھیں کیرالہ چھوڑنا پڑا۔ اس دربدری نے ایک طرف اگر ان کی سماجی اور سیاسی بصیرت میں اضافہ کیا تو دوسری طرف سرد وگرم زمانہ نے زندگی کرنے کا جگر ودیعت کیا۔ ان کی خانہ بدوشی اور آوارہ گردی کا یہ زمانہ دس طویل برسوں پر محیط ہے۔ اس جہاں گردی میں وہ جیب کتروں' مرد طوائفوں' ہجڑوں' مداریوں اور فقیروں کی معیت میں رہے۔ انھوں نے ہندو رِشیوں منیوں کے ساتھ ہمالہ کی وادیوں میں دن بتائے اور مسلمان صوفیوں اور درویشوں کے حلقوں میں شب وروز گزارے۔ ان کی کہانی کا ایک ہیرو کہتا ہے ''زندگی ہر جگہ ایک جیسی ہے اور ہر فرد پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو کسی طور گزار دینے کی جدوجہد میں سرگرداں ہے۔'' بشیر نے اپنی کہانیاں انتہائی آسان اور عوامی ملیالم زبان میں لکھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اس طرز کے موجد ہوں مگر اس طرزِ تحریر کو شعوری طور پر اپنانے اور اسی انداز میں لکھنے کی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ بعد کو یہی زبان ملیالم فکشن کی زبان بن گئی۔

سماجی نقطہ نظر سے بھی عدیم المثال قصہ گو بشیر کی ایک خصوصی اہمیت ہے۔ کیرالہ میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والے وہ پہلے بڑے ادیب ہیں۔ ملیالم ادب میں مسلم ماحول' مسلم تشبیہوں اور ان کے مذہبی عقیدوں اور ان فقروں اور جملوں کے استعمال کو جنہیں کمیونٹی کی خصوصی میراث کہا جا سکتا ہے' کہانیوں میں پہلی بار متعارف کرانے کا سہرا بھی بشیر ہی کے سر ہے۔ کہتے ہیں کہ ملیالم زبان میں آج لاتعداد فقرے اور بات کہنے کے نہ جانے کتنے ڈھنگ بشیر کی دین ہیں۔ کیرالہ کے ادیبوں میں ایک رجحان یہ نظر آتا ہے کہ ادیب اپنے ناول اور اپنی کہانیوں میں خود اپنے فرقے یا اپنی کمیونٹی کو ہی حوالے بناتے ہیں۔ بشیر کی کہانیوں میں اگرچہ ہمیں کرسچن اور ہندو ہیرو ہیروئن بھی ملتے ہیں مگر غالب رجحان ان کے یہاں بھی یہی ہے۔ حسن اتفاق کہئے کہ بشیر نے جن کہانیوں میں خالص مسلم ماحول کی تصویر کشی کی ہے انھیں زیادہ قبول عام ملا ہے۔بعض حلقوں میں ایک رویہ ایشیائی نثر پر مغربی اثرات تلاش کرنے کا ہے۔ ان کے خیال میں وہ سارا ادب جو یورپین یا امریکن نہیں ہے' معیاری نہیں ہوتا۔ یہ صحیح ہے کہ کیرالہ کے بعض انتہائی ممتاز ادیب اپنی تحریروں پر زولا' موپاساں' چیخوف اور دوسرے ایسے ہی ادیبوں کے اثرات کا اعتراف کرتے ہیں مگر جہاں تک بشیر کا تعلق ہے وہ شاید ایسے اثرات کے رد و قبول سے بے نیاز ہیں۔بشیر کے معاملے میں ناقدین ابھی شاید یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ یہ مختصر ناول لکھتے ہیں یا طویل کہانیاں۔ بشیر خود اس بحث میں نہیں پڑتے۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کو الگ کتابی شکل میں شائع کر کے یا کچھ کو ایک مجموعے میں شامل کر کے کسی مخصوص زمرے میں رکھ دیا ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی طویل کہانیاں ''بچپن کی دوست'' اور ''فاطمہ کی بکری'' جب پہلی بار چھپیں تو ان کے سرورق پر ''ناول'' کا لفظ لکھا ہوا تھا مگر سب سے آخر میں چھپنے والے ایڈیشن میں یہ لفظ نہیں ہے۔ یہ اشارہ شاید اس بات کی طرف ہے کہ ہمیں اس کو بہت اہمیت دینی ہی نہیں چاہئے۔

بشیر کی ادبی تخلیقات تعداد اور حجم کے لحاظ سے شاید بہت نہیں ہیں۔ ایک ایکٹ کے ڈرامے ''ایک کہانی کا بیج'' خودنوشت جیسی ایک چیز ''یادوں کے جھروکے'' اور مختلف تحریروں پر مشتمل ایک جلد ''حقیقت اور افسانہ'' کے علاوہ بشیر نے اپنی تقریباً چالیس سالہ ادبی زندگی میں محض سو مختصر کہانیاں اور لگ بھگ ایک درجن مختصر ناول یا طویل کہانیاں لکھی ہیں۔ یہ کل سرمایہ ان چالیس برسوں کا ہے جن میں ان کے پاس دوسرا کوئی کام شاید ہی رہا ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ تعداد اور مقدار کی کمی کو انھوں نے اپنے کام کے معیار سے پورا کیا۔ کمال کی عاشق ان کی افتاد طبع ہی تھی جس کی وجہ سے ان کے یہاں کوئی سرسری یا پھوہڑ چیز نہیں ملتی۔

بشیر نے ادبی تخلیق کی لاتعداد کہانیوں سے ادیبوں کی کئی نسلوں کو روشناس کرایا۔ اسی وجہ سے انھیں بسااوقات ''ادیبوں کا ادیب'' بھی کہا جاتا ہے۔ ویکوم محمد بشیر اپنی زندگی ہی میں ایک افسانوی کردار کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ آم کا وہ چھتنار درخت جس کے نیچے آخر عمر میں بنیان اور دھوتی میں بیٹھ کر یہ سلطان گدا نما اپنا دربار لگایا کر تا تھا اس کی وہ پسندیدہ ''سلیمانی چائے'' جس سے وہ ہر آنے جانے والے کی ضیافت کرتا تھا اور اس کی انگلیوں میں دبی ہوئی مسلسل سلگتی ہوئی بیڑی' ملیالم عوام کے ذہنوں میں پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہے۔ بشیر کے دربار میں عمر' جنس' خیالات ونظریات' پیسے' سماجی حیثیت' زبان' مذہب اور عقائد کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ان کی یہ وسیع القلبی' وسیع النظری' وسیع المشربی اور سراپا انسانیت ہی غالباً ان کی عوامی مقبولیت کا جواز بھی ہے اور ضامن بھی۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1970ء میں انھیں ساہتیہ اکادمی کی فیلوشپ ملی۔ 1982ء میں حکومت ہند نے پدم شری کا خطاب عطا کیا اور 1987ء میں کالی کٹ یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لیٹرز کی اعزازی سند سے انھیں سرفراز کیا۔ غالباً ان کا آخری مضمون تھا جس کی آخری سطریں تھیں ''میں اپنے سفر کے خاتمے پر پہنچ رہا ہوں۔ کون جانے' شاید یہ کسی دوسرے سفر کا آغاز ہو۔ وقت صرف خدا کے خزانے میں ہے۔ وہی میری راہ کو متعین کرے گا۔ میں دعا کرتا ہوں دنیا کی خوش حالی کی' اور تمنا کرتا ہوں ہر فرد وبشر کی مسرت اور اس کے سکون واطمینان کی۔''

(مسعود الحق جو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے متعلق رہے ہیں،ایک عمدہ مترجم کے طور پر معروف ہیں۔ فیروز مکرجی کے مقالے کا ترجمہ ''لکھنؤاورسرشارکی دنیا''کے عنوان سے کرچکے ہیں۔ویکوم محمد بشیر کی ملیالم سے انگریزی میں ترجمہ ہونے والی کئی کہانیوں کوانھوں نے اردو میں منتقل کیا۔پاکستان سے ''آج کی کتابیں''کے زیر اہتمام مسعودالحق کے اردو تراجم پر مشتمل ویکوم محمد بشیر کی منتخب کہانیوں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔)

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں