پرانی اور نئی تاریخ
سندھ سے جانے والے ہندو تھے اور آنے والے اردو بولنے والے مسلمان، سندھ پر ہندوئوں کا غلبہ تھا۔
کبھی کبھی آپ کہیں سے گزرتے کچھ آوازوں، کچھ چیزوں پر غور کرتے ہیں تو بہت تلخ حقائق بھی آپ کے سامنے آجاتے ہیں، مگر حق یہ ہے کہ آپ کو ان کا مشاہدہ غیر جانبداری سے کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی حقائق اصل بتانے چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ جوش خطابت یا تحریر میں تاریخ کو ہی بدل ڈالیں۔ ایک ٹی وی چینل پر ہمارے معزز ساتھی دانشور کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا، چند باتیں بہت دل کو لگیں، چند پر تعجب ہوا، افسوس کا لفظ تو اب لغت میں سے پاکستان کی حد تک نکال دینا چاہیے۔
انھوں نے کہاکہ بھارت میں بہت سے صوبے ہیں، ہر علاقے کی ایک زبان ہوتی ہے۔ بھارت میں ساری علاقائی زبانوں کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے، تین زبانیں ایسی ہیں جن کا کوئی علاقہ یا زمین نہیں ہے مگر ان کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا ہے، وہ ہیں ''ہندی، اردو اور سندھی''۔ پھر انھوں نے پاکستان کے حالات کا اپنے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ساری علاقائی زبانوں کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں دے دیا جاتا؟ یہ بات ایسی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ زبانوں میں محبت اور اخلاص کا طریقہ واحد یہ ہے کہ سب کو برابر کردیا جائے ایک جیسا سمجھا جائے۔
انھوں نے یہ بھی کہاکہ اردو اب ایک انٹرنیشنل زبان ہے۔ اسے ہر علاقائی زبان بولنے والا سمجھتا ہے، بولتا ہے اور لکھتا ہے، پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے بولنے والے اردو کو بھی لکھتے پڑھتے بولتے ہیں، لہٰذا کسی کا اس پر واحد استحقاق نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کیوں کہ یہ اردو کی خصوصیت رہی ہے کہ وہ برصغیر میں بھی ہر زبان کو اپنے اندر سموتی رہی ہے اور یوں وہ ہر زبان کو جگہ دے کر اپنی خوبصورتی میں اضافہ کرتی رہی ہے، یوں اردو کی وسعت میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دوسری کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے، ہرگز نہیں، ہر زبان بے حد خوبصورت ہے۔ انسان کے جذبے، اس کے احساسات کا اظہار ہر زبان نے بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے، ہر زبان کا اپنا Locale ہے، ماحول ہے، جو اس زبان میں ہے۔ اردو کو ہمیشہ رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور ہر فاتح اور مفتوح کے درمیان یہ رابطے کی زبان رہی۔ فارسی، عربی، ہندی، سنسکرت، غرض یہ کہ ارد گرد کی تمام زبانوں کے ساتھ اردو نے ہمیشہ رابطہ استوار رکھا ہے۔
لیکچر دینے والے صاحب نے یہ بھی کہاکہ دہلی اور لکھنو کے لوگوں کی زبان دوسروں سے مختلف رہی ہے اور وہاں ان کے خیال کے مطابق جس کا انھوں نے اظہار نہیں کیا، PURE اردو کا رواج رہا۔ خیر ہم تو اردو کے حق میں کوئی بات نہیں کررہے بلکہ وہی بیان کررہے ہیں جو انھوں نے کہا غالباً ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ادبی زبان اردو ان علاقوں میں تھی اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہی اپنے آپ کو اہل زبان کہتے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہے۔ شاید وہ اس کے شاکی تھے کہ یہ لوگ بقیہ لوگوں سے الگ کیوں ہیں اور ان کو یہ کلیم چھوڑدینا چاہیے کہ وہ اہل زبان ہیں کیوں کہ اردو ان کے خیال میں اب صرف ان کی زبان نہیں رہی۔
سندھ سے جانے والے ہندو تھے اور آنے والے اردو بولنے والے مسلمان، سندھ پر ہندوئوں کا غلبہ تھا جسے محمد بن قاسم نے آکر توڑا تھا۔ سندھ میں اسلام دہلی یا لکھنو سے نہیں بلکہ ٹھٹھہ سے داخل ہوا تھا، محمد بن قاسم کے ذریعے اور پورے برصغیر میں یہاں سے ہی پھیلا۔ اس وجہ سے یہاں اسلام ایک باہر سے آنے والا مذہب رہا اور شاید کچھ علاقوں اور ذہنوں میں اب بھی ہے۔زبان اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ پنجاب کے لوگ عام طور پر اردو بولتے تھے۔
علامہ اقبال کا تعلق پنجاب سے تھا۔ لہٰذا وہاں آنے والوں کو کوئی دشواری نہیں ہوئی اور وہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی بولنے لگے۔ پنجابی ایک آسان زبان ہے اور رسم الخط اردو، سندھ میں معاملہ برعکس تھا۔ یہاں فارسی تو اعلیٰ خاندانوں کی زبان تھی جو زیادہ تر ہندو تھے۔ سندھی مقامی زبان کے طورپر رائج تھی لہٰذا یہاں کے لوگ فارسی اور سندھی سے واقف تھے۔ براہ راست اردو سے بہت زیادہ تعلق نہ تھا اس قدر۔ ہاں سندھی شعرا اردو میں بھی کسی حد تک شعر کہتے تھے۔ جو موجود ہیں کتب میں۔
سندھ میں جو ہندو چھوڑ کر گئے وہ سرکاری طور پر متروکہ املاک تھیں اور ترک وطن یا تبدیلی وطن کے سلسلے میں آنے والوں کے لیے نہیں جو ان کو کافی حد تک ملیں بھی اور ان کی املاک جو وہاں چھوڑ کر آنے جانے والے ہندوئوں کو مل گئیں۔ یوں سندھ میں آنے والوں کو زمین، گوملے، دکانیں ملیں اور اس طرح اردو کو علاقہ بھی مل گیا جو ایک زبان کی شرط قرار دی جاتی ہے اور شاید قوم کی بھی۔ دراصل ایک ذہنی فلش ہے کہ یہاں سے جانے والوں سے روابط تھے کس طرح کے۔ اس کے لیے تاریخ دیکھ لیجیے۔
آنے والے ایک دوسری زبان بول رہے تھے۔ شاید اس وجہ سے کچھ فلش رہی۔ یہ دونوں طرف کی بات ہے، شاید دونوں زبانوں کے بولنے والے اس پر قابو نہ پاسکے، آنے والے بھی اور رہنے والے بھی۔ دونوں کو اس کا سدباب کرنا چاہیے تھا، جو شاید ہو بھی جاتا مگر ایک عاقبت نااندیش حکومت نے لازمی سندھی پڑھنے کی پابندی ختم کردی اور یوں دونوں قوموں کو جو دراصل ایک ہی قوم کے دو جسم ہیں، علیحدہ کردیا، ورنہ سندھ کا بچہ بچہ آج سندھی پڑھ، لکھ اور بول رہا ہوتا۔ جیسا کہ اردو، سندھی کے سلسلے میں الگ الگ ہورہا ہے، ایک ذاتی فائدے کے لیے اپنی اولاد کے اس قانون کو ختم کرنے والے کو تاریخ بھی معاف نہیں کرے گی اور اس کے بعد بھی سنجیدگی سے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی گئی اس پر اب بھی غور کیاجاسکتا ہے کچھ نہیں بگڑا اب بھی۔
ایک غلط تاثر کہ آنے والوں نے سندھ کی زمین، کاروبار، جائیداد پر قبضہ کرلیا، اس لیے بھی غلط ہے کہ سندھ کے 1947 کے عمومی حالات اور تاریخ میں یہاں ہندوئوں کا غلبہ اور ملکیت تھی اور ظاہر ہے کہ وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے گئے تھے۔ کیوں گئے؟ کس نے ان کو مجبور کیا، کس سے ان کو خوف تھا؟ آنے والے تو نئے تھے وہ تو کسی چیز پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے، اس سوال کا جواب خصوصاً سندھ سے اب بھی بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندو ہیں، جن کی زندگی بالائی سندھ میں عذاب کردی گئی ہے، ان کی مندر کی زمینوں پر حیدرآباد میں سندھ کی سب سے بڑی پارٹی کے رکن نے قبضہ کرلیا ہے، جس کے خلاف حالیہ بھوک ہڑتال ہندوئوں نے کی ہے۔
اغوا برائے تاوان اور ڈاکوئوں کے ہدف سب سے زیادہ بلکہ صرف ہندو ہیں۔ سندھ میں اور لوٹنے اور قتل کرنے والوں کی سرپرستی کون کررہا ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اوباڑو سے شہداد کوٹ، شکار پور تک کے علاقے آہستہ آہستہ ہندوئوں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے کسی اور صوبے میں ایسا نہیں ہورہا۔
رہ گئی بات زبان کی تو اگر ہندوستان جانے والے وہاں ہندی سیکھ گئے تو اس کی وجہ وہاں کا طریقہ تعلیم ہے اور زبان ہندی ہے، جس میں تعلیم دی جاتی ہے لہٰذا لازماً وہاں کی نئی نسل سندھی اور ہندی دونوں جانتی ہے، یہاں بھی لازماً سندھی پڑھائی جانی چاہیے تھے اور کچھ کوشش بھی کی گئی کسی نے تعصب نہیں برتا، لوگوں نے سندھی پڑھی مگر ایک عاقبت نااندیش نے اپنی اولاد کو اچھی پوزیشن سے پاس کروانے کے لیے سندھ سے یہ سسٹم ختم کیا۔ ٹکا خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں وہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی میں شامل ہوگئے، حالانکہ اس جرم پر وہ سزا کے حق دار تھے۔
سندھی بے حد اہم اور ضروری زبان ہے لازماً پڑھنا اور سیکھنا چاہیے اور نفاق کے اس بیج کو اکھاڑ دینا چاہیے جو تناور درخت بنے جارہا ہے۔ فاضل لیکچرر نے کہا اب ہم سب سندھی ہیں۔ سندھ سب کی ماں ہے اور سندھی بولی سب کی بولی ہے۔ ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ تمام بچوں کو سندھی اور اردو لازماً پڑھنا چاہیے۔ سندھی کو قومی قرار دینا چاہیے بلکہ علاقائی زبان کو قومی زبان کے برابر درجہ ملنا چاہیے۔ پرانی اور نئی تمام تاریخ سندھ کی تاریخ ہے۔ ہماری تاریخ ہے، ہم سب سندھ کے ہیں اور سندھ ہم سب کا ہے۔
انھوں نے کہاکہ بھارت میں بہت سے صوبے ہیں، ہر علاقے کی ایک زبان ہوتی ہے۔ بھارت میں ساری علاقائی زبانوں کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے، تین زبانیں ایسی ہیں جن کا کوئی علاقہ یا زمین نہیں ہے مگر ان کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا ہے، وہ ہیں ''ہندی، اردو اور سندھی''۔ پھر انھوں نے پاکستان کے حالات کا اپنے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ساری علاقائی زبانوں کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ کیوں نہیں دے دیا جاتا؟ یہ بات ایسی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ زبانوں میں محبت اور اخلاص کا طریقہ واحد یہ ہے کہ سب کو برابر کردیا جائے ایک جیسا سمجھا جائے۔
انھوں نے یہ بھی کہاکہ اردو اب ایک انٹرنیشنل زبان ہے۔ اسے ہر علاقائی زبان بولنے والا سمجھتا ہے، بولتا ہے اور لکھتا ہے، پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے بولنے والے اردو کو بھی لکھتے پڑھتے بولتے ہیں، لہٰذا کسی کا اس پر واحد استحقاق نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کیوں کہ یہ اردو کی خصوصیت رہی ہے کہ وہ برصغیر میں بھی ہر زبان کو اپنے اندر سموتی رہی ہے اور یوں وہ ہر زبان کو جگہ دے کر اپنی خوبصورتی میں اضافہ کرتی رہی ہے، یوں اردو کی وسعت میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دوسری کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے، ہرگز نہیں، ہر زبان بے حد خوبصورت ہے۔ انسان کے جذبے، اس کے احساسات کا اظہار ہر زبان نے بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے، ہر زبان کا اپنا Locale ہے، ماحول ہے، جو اس زبان میں ہے۔ اردو کو ہمیشہ رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور ہر فاتح اور مفتوح کے درمیان یہ رابطے کی زبان رہی۔ فارسی، عربی، ہندی، سنسکرت، غرض یہ کہ ارد گرد کی تمام زبانوں کے ساتھ اردو نے ہمیشہ رابطہ استوار رکھا ہے۔
لیکچر دینے والے صاحب نے یہ بھی کہاکہ دہلی اور لکھنو کے لوگوں کی زبان دوسروں سے مختلف رہی ہے اور وہاں ان کے خیال کے مطابق جس کا انھوں نے اظہار نہیں کیا، PURE اردو کا رواج رہا۔ خیر ہم تو اردو کے حق میں کوئی بات نہیں کررہے بلکہ وہی بیان کررہے ہیں جو انھوں نے کہا غالباً ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ادبی زبان اردو ان علاقوں میں تھی اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہی اپنے آپ کو اہل زبان کہتے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہے۔ شاید وہ اس کے شاکی تھے کہ یہ لوگ بقیہ لوگوں سے الگ کیوں ہیں اور ان کو یہ کلیم چھوڑدینا چاہیے کہ وہ اہل زبان ہیں کیوں کہ اردو ان کے خیال میں اب صرف ان کی زبان نہیں رہی۔
سندھ سے جانے والے ہندو تھے اور آنے والے اردو بولنے والے مسلمان، سندھ پر ہندوئوں کا غلبہ تھا جسے محمد بن قاسم نے آکر توڑا تھا۔ سندھ میں اسلام دہلی یا لکھنو سے نہیں بلکہ ٹھٹھہ سے داخل ہوا تھا، محمد بن قاسم کے ذریعے اور پورے برصغیر میں یہاں سے ہی پھیلا۔ اس وجہ سے یہاں اسلام ایک باہر سے آنے والا مذہب رہا اور شاید کچھ علاقوں اور ذہنوں میں اب بھی ہے۔زبان اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ پنجاب کے لوگ عام طور پر اردو بولتے تھے۔
علامہ اقبال کا تعلق پنجاب سے تھا۔ لہٰذا وہاں آنے والوں کو کوئی دشواری نہیں ہوئی اور وہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی بولنے لگے۔ پنجابی ایک آسان زبان ہے اور رسم الخط اردو، سندھ میں معاملہ برعکس تھا۔ یہاں فارسی تو اعلیٰ خاندانوں کی زبان تھی جو زیادہ تر ہندو تھے۔ سندھی مقامی زبان کے طورپر رائج تھی لہٰذا یہاں کے لوگ فارسی اور سندھی سے واقف تھے۔ براہ راست اردو سے بہت زیادہ تعلق نہ تھا اس قدر۔ ہاں سندھی شعرا اردو میں بھی کسی حد تک شعر کہتے تھے۔ جو موجود ہیں کتب میں۔
سندھ میں جو ہندو چھوڑ کر گئے وہ سرکاری طور پر متروکہ املاک تھیں اور ترک وطن یا تبدیلی وطن کے سلسلے میں آنے والوں کے لیے نہیں جو ان کو کافی حد تک ملیں بھی اور ان کی املاک جو وہاں چھوڑ کر آنے جانے والے ہندوئوں کو مل گئیں۔ یوں سندھ میں آنے والوں کو زمین، گوملے، دکانیں ملیں اور اس طرح اردو کو علاقہ بھی مل گیا جو ایک زبان کی شرط قرار دی جاتی ہے اور شاید قوم کی بھی۔ دراصل ایک ذہنی فلش ہے کہ یہاں سے جانے والوں سے روابط تھے کس طرح کے۔ اس کے لیے تاریخ دیکھ لیجیے۔
آنے والے ایک دوسری زبان بول رہے تھے۔ شاید اس وجہ سے کچھ فلش رہی۔ یہ دونوں طرف کی بات ہے، شاید دونوں زبانوں کے بولنے والے اس پر قابو نہ پاسکے، آنے والے بھی اور رہنے والے بھی۔ دونوں کو اس کا سدباب کرنا چاہیے تھا، جو شاید ہو بھی جاتا مگر ایک عاقبت نااندیش حکومت نے لازمی سندھی پڑھنے کی پابندی ختم کردی اور یوں دونوں قوموں کو جو دراصل ایک ہی قوم کے دو جسم ہیں، علیحدہ کردیا، ورنہ سندھ کا بچہ بچہ آج سندھی پڑھ، لکھ اور بول رہا ہوتا۔ جیسا کہ اردو، سندھی کے سلسلے میں الگ الگ ہورہا ہے، ایک ذاتی فائدے کے لیے اپنی اولاد کے اس قانون کو ختم کرنے والے کو تاریخ بھی معاف نہیں کرے گی اور اس کے بعد بھی سنجیدگی سے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی گئی اس پر اب بھی غور کیاجاسکتا ہے کچھ نہیں بگڑا اب بھی۔
ایک غلط تاثر کہ آنے والوں نے سندھ کی زمین، کاروبار، جائیداد پر قبضہ کرلیا، اس لیے بھی غلط ہے کہ سندھ کے 1947 کے عمومی حالات اور تاریخ میں یہاں ہندوئوں کا غلبہ اور ملکیت تھی اور ظاہر ہے کہ وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے گئے تھے۔ کیوں گئے؟ کس نے ان کو مجبور کیا، کس سے ان کو خوف تھا؟ آنے والے تو نئے تھے وہ تو کسی چیز پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے، اس سوال کا جواب خصوصاً سندھ سے اب بھی بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندو ہیں، جن کی زندگی بالائی سندھ میں عذاب کردی گئی ہے، ان کی مندر کی زمینوں پر حیدرآباد میں سندھ کی سب سے بڑی پارٹی کے رکن نے قبضہ کرلیا ہے، جس کے خلاف حالیہ بھوک ہڑتال ہندوئوں نے کی ہے۔
اغوا برائے تاوان اور ڈاکوئوں کے ہدف سب سے زیادہ بلکہ صرف ہندو ہیں۔ سندھ میں اور لوٹنے اور قتل کرنے والوں کی سرپرستی کون کررہا ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اوباڑو سے شہداد کوٹ، شکار پور تک کے علاقے آہستہ آہستہ ہندوئوں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے کسی اور صوبے میں ایسا نہیں ہورہا۔
رہ گئی بات زبان کی تو اگر ہندوستان جانے والے وہاں ہندی سیکھ گئے تو اس کی وجہ وہاں کا طریقہ تعلیم ہے اور زبان ہندی ہے، جس میں تعلیم دی جاتی ہے لہٰذا لازماً وہاں کی نئی نسل سندھی اور ہندی دونوں جانتی ہے، یہاں بھی لازماً سندھی پڑھائی جانی چاہیے تھے اور کچھ کوشش بھی کی گئی کسی نے تعصب نہیں برتا، لوگوں نے سندھی پڑھی مگر ایک عاقبت نااندیش نے اپنی اولاد کو اچھی پوزیشن سے پاس کروانے کے لیے سندھ سے یہ سسٹم ختم کیا۔ ٹکا خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں وہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی میں شامل ہوگئے، حالانکہ اس جرم پر وہ سزا کے حق دار تھے۔
سندھی بے حد اہم اور ضروری زبان ہے لازماً پڑھنا اور سیکھنا چاہیے اور نفاق کے اس بیج کو اکھاڑ دینا چاہیے جو تناور درخت بنے جارہا ہے۔ فاضل لیکچرر نے کہا اب ہم سب سندھی ہیں۔ سندھ سب کی ماں ہے اور سندھی بولی سب کی بولی ہے۔ ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ تمام بچوں کو سندھی اور اردو لازماً پڑھنا چاہیے۔ سندھی کو قومی قرار دینا چاہیے بلکہ علاقائی زبان کو قومی زبان کے برابر درجہ ملنا چاہیے۔ پرانی اور نئی تمام تاریخ سندھ کی تاریخ ہے۔ ہماری تاریخ ہے، ہم سب سندھ کے ہیں اور سندھ ہم سب کا ہے۔