پولیو پٹرول اور پاکستان
جہاں دنیا بھر میں پولیو پوری طرح ختم ہوچکا ہے وہیں آج ہمارے ملک پاکستان کو دنیا پولیو کی ’’جنت‘‘ مانتی ہے۔
پاکستان کا ذکر آج ہر جگہ عام ہے، امریکا کے صدر اوباما ہر ہفتے کہیں نہ کہیں پاکستان میں ہوئی دسمبر سولہ کی ٹریجڈی کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بار بار سن کر دنیا یقیناً یہ سوچ رہی ہوگی کہ کیسے پاکستان خود کو اس مشکل وقت میں سنبھال رہا ہوگا تو ہم پاکستانی دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے مشکل وقت مزید مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ہمیں اور بھی ایسے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے جو کسی بھی قوم کو ہلاکر رکھ سکتے ہیں۔
جنوری کے شروع میں معلوم ہوا کہ ہم نے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ پاکستان کے لیے شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنا ہی ''پولیو'' کا سولہ سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے، 1998 میں پاکستان میں تین سو پولیو کے کیسز آفیشلی ریکارڈ کیے گئے تھے جوکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ تھے لیکن پچھلے سال یعنی 2014 میں پولیو کے 303 کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں جس نے ہمارا اپنا ہی سولہ سالہ پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔
پولیو کو لے کر 2014 پاکستان کا سب سے تاریک سال مانا جا رہا ہے۔ 2013 میں پولیو کے 297 کیسز سامنے آئے تھے جن کی تعداد میں کمی ہونے کی امید تھی لیکن 2014 میں تو ان کی تعداد میں چھ کا اضافہ ہوگیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیو ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے، چھ کیسز میں سے دو خیبرپختونخوا ، دو فاٹا، ایک سندھ اور ایک پنجاب سے تھے۔
جہاں دنیا بھر میں پولیو پوری طرح ختم ہوچکا ہے وہیں آج ہمارے ملک پاکستان کو دنیا پولیو کی ''جنت'' مانتی ہے، دنیا میں اگر ایک بار پھر پولیو پھیلا تو اس کا ذمے دار صرف اور صرف پاکستان ہوگا اور یہ بات دنیا اچھی طرح سمجھتی ہے اس لیے درجنوں بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ کسی طرح اس مسئلے سے نمٹا جائے لیکن پاکستان میں ایسے مسئلوں کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔
یہی سلوک انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (IMB) کی لگاتار نویں رپورٹ کے ساتھ بھی کیا گیا جو انھوں نے پاکستان کو پولیو کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بناکر دی تھی، رپورٹ کے مطابق IMB نے پاکستان کو فوراً ایک ایمرجنسی آپریشن سینٹر بنانے کی تجویز دی تھی جس کو ایک بہت ہی طاقتور ادارہ چلائے جس کے پاس پاور اور ذرایع کے ساتھ فیصلہ کرنے کی طاقت بھی ہو، آئی ایم بی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اس سینٹر میں ٹاپ لیول سول سروس کے آفیسرز، فیڈرل، اسٹیٹ اور مقامی حکومتوں کے نمایندے اور ساتھ ہی ملٹری اور مذہبی شخصیات بھی شامل ہوں یعنی پوری طرح ہر ایک کی نمایندگی کرتی ہوئی ایک مرکزی باڈی جو پورے ملک کے لیے ایک ساتھ ایکشن لے سکے۔
ان تمام تجاویز پر آئی ایم بی نے بہت زور دیا تھا لیکن ان میں سے کسی بھی تجویز یا رپورٹ کے کسی بھی پہلو کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہاں یہ ضرور ہوا کہ دنیا بھر کے پریشر کی وجہ سے پاکستان میں موجود پولیو پروگرامز چلانے والوں نے پولیو کنٹرول روم کو پرائم منسٹر مانیٹرنگ سیل کے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا جس سے ان کے حساب سے پولیو کو کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔
یہ وہ فیصلہ تھا جو آئی ایم بی کی تجویز کے مخالف تھا کیوں کہ اب ہر صوبے میں پولیو کے درجنوں چھوٹے چھوٹے مراکز بنائے جائیں گے جن کی کوئی سینٹرل مانیٹرنگ نہیں ہوگی، اس کے ساتھ ہی سال کی پہلی ہی پولیو ڈرائیو منسوخ کردی گئی کیوں کہ پولیو ویکسی نیشن اتھارٹیز کے مطابق پانچ سے سات جنوری کے درمیان ہونے والی اس مہم کو اس لیے کینسل کردیا گیا کیونکہ سیکیورٹی کا معقول انتظام نہیں تھا۔
اس وقت تمام دنیا میں پٹرول کی قیمتیں پچھلے پانچ سال کے دوران سب سے کم ہیں، جہاں کچھ سال پہلے تک امریکا میں پٹرول پانچ ڈالر گیلن تک پہنچ گیا تھا وہیں اس وقت امریکا کے کچھ علاقوں میں پٹرول ڈیڑھ ڈالر گیلن تک دستیاب ہے لیکن پاکستان میں جو ہوتا ہے وہ الٹا ہی ہوتا ہے جہاں پٹرول کی دستیابی اور قیمتیں دنیا کے بیشتر ملکوں میں کوئی مسئلہ نہیں وہیں پاکستان میں اس وقت یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان میں کچھ دن پہلے پٹرول لینے کے لیے آپ کو اوسطاً تین گھنٹے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا، پٹرول پمپ کے باہر اتنی لمبی لائن اس وقت بھی شاید نہ لگے کہ اگر پٹرول مفت مل رہا ہو۔
پٹرول کی کمی کا بھی وہی حل تھا جو ہمارے یہاں ہر مسئلے کا ہوتا ہے یعنی وہی آسان سی بحث کہ غلطی میری نہیں تیری ہے، کئی رپورٹس کے مطابق یہ PSO کی غلطی ہے جس کا تعلق حکومت سے ہے، پی ایس او کو دو بلین ڈالرز سے زیادہ کی کریڈٹ لائن نہیں مل پائی جس کی وجہ سے وہ وقت پر پٹرول نہیں خرید پائے اور ملک بھر کو اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
پٹرولیم منسٹر شاہد خاقان عباسی کے مطابق یکدم ڈیمانڈ کا بڑھنا اور ریفائنریز کا اس کے لیے تیار نہ ہونا اس مسئلے کا سبب بنا، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت صحیح طرح سے Oil Reserves رکھنے میں ناکام رہی اسی لیے قلت کا سامنا ہوا۔
ایک خبر کے مطابق پاکستان کے پاس صرف تین دن کا پٹرول رہ گیا تھا جب PSO اپنی پے منٹ کرنے میں ناکام رہی اور پٹرول ختم ہوگیا جس کے بعد پی ایس او کو کم سے کم سو بلین روپے اور آٹھ ہفتے کا وقت چاہیے تھا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے۔مسئلہ جو بھی تھا تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مسئلہ پیسوں کا تھا جو یقیناً وقت پر ادائیگی نہ ہونے یا پھر پی ایس او کا اپنا لائن آف کریڈٹ پوری طرح استعمال کرجانا تھا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، دنیا کو ہماری چیخوں کی آواز اس وقت آتی ہے جب ہمارے اسکولوں پر حملہ ہوتا ہے لیکن ان چیخوں کو کوئی نہیں سن پاتا جو ہمارے عوام کی اپنے ہی ملک کے مسائل میں پس کر نکلتی ہیں۔
وہ ملک جو پولیو میں ریکارڈ بنا رہا ہے، پٹرول کے لیے گھنٹوں گھنٹوں کی لائن لگا رہا ہے اور جہاں کے بڑھتے ہوئے بزنس میں سب سے زیادہ کفن اور تابوت بنانے کا اسمال بزنس فائدہ مند مانا جا رہا ہے وہاں کا آنے والا ''کل'' خدا نہ کرے ''آج'' سے بھی زیادہ تاریک ہو۔