مغالطوں کے اندھیرے میں سوالات کی کرنیں
روسی فلسفی گرڈجیف کہا کرتا تھا:’’انسان نیند میں ہے۔عمل تنویم کےزیر اثر۔اگر جاگا، تو اپنے اعمال پر حیران رہ جائے گا۔‘‘
روسی فلسفی گرڈجیف کہا کرتا تھا: ''انسان نیند میں ہے۔ عمل تنویم کے زیر اثر۔ اگر جاگا، تو اپنے اعمال پر حیران رہ جائے گا۔'' آگہی کے نئے رستوں کی نشان دہی کرنے والے اس گیانی کا موقف تھا کہ انسانی ذہن ہمہ وقت خیالات سے چمٹا رہتا ہے۔ خیالات، جنھوں نے اسے مشین کی شکل دے دی ہے۔ خیالات، جن سے متعلق الیگزینڈر ڈوما نے لکھا تھا: ''وہ روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونما پاتے ہیں۔ پھلتے پھولتے ہیں۔ شرپسند انسانوں پر تو قابو پایا جاسکتا ہے، مگر خیالات پر نہیں۔''
چینی کہاوت ہے؛ انسان کا عمل اس کی مکمل پہچان ہے۔ عمل فیصلوں سے جنم لیتا ہے، اور فیصلے کے پیچھے ذہن میں راسخ نظریات ہوتے ہیں، جو متعلقہ فیصلے کے ضمن میں آپ کی سوچ کو مرکوز یا محدود کر دیتے ہیں۔ چند نظریات تو انسان شعوری طور پر تجربے، مشاہدے اور مطالعے سے کشید کرتا ہے۔ مگر بیش تر ایسے ہیں، جنھیں کبھی پرکھنے کی نوبت نہیں آتی۔ یا تو ورثے میں ملے ہوتے ہیں، یا سماج سے۔ اور آدمی سہل پسندی کے باعث غوروفکر سے اجتناب برتتے ہوئے انھیں جوں کا توں قبول کر لیتا ہے۔ یوں تو کئی عناصر ہیں، مگر ماہرین عمرانیات کے مطابق اِس خاموش عمل میں خاندان، مدرسے اور عبادت گاہیں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ورثے اور ماحول سے ملنے والے خیالات میں جہاں چند کی اساس حقیقت کی زمین پر ہوتی ہے، وہیں مغالطوں کی بھی کمی نہیں۔ پر کیا کیجیے کہ وہ ظالم اتنی گہری جڑیں رکھتے ہیں کہ اُن پر سوچ بچار اذیت ناک معلوم ہوتی ہے۔ بہ قول علی عباس جلال پوری: ''ان جالوں کی وجہ سے عمر گزرنے کے ساتھ ہمارا ذہن دھندلا جاتا ہے۔ ہم ان سے مانوس ہوجاتے ہیں، انھیں سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ صاف کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں روشنی ہماری آنکھیں خیرہ نہ کر دے، اور شکوک و شبہات، جو اب تک ابہام کے دھندلکے میں لپٹے تھے، اجاگر ہو کر ہمیں پریشان نہ کرنے لگیں۔''
بعضوں کے نزدیک مغالطہ لاعلمی سے تشکیل پاتا ہے۔ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے واسطے بھی انسان دلاسوں پر یقین کرنے لگتا ہے۔ اگر احساس کمتری اجتماعی ہو، تو وقت کے ساتھ یہ نظام میں سرایت کر جاتے ہیں۔ البتہ خوش خبری یہ ہے کہ مغالطے لاکھ گھاتک سہی، ان سے نجات کے لیے ایک تیر بہدف نسخہ میسر ہے، اور وہ ہے: سوال کرنے کی عادت۔ وجدان کو عقل پر برتری حاصل ہے، عورت مرد سے کم تر ہے، حال ہمیشہ ماضی سے بدتر ہوتا ہے؛ یہ عام فکری مغالطے ہیں۔ اگر ٹھوس دکھائے دینے والے ان مغالطوں پر سوالات کے الیکٹران کی بارش کی جائے، تو مرکزہ پلوں میں ٹوٹ جائے۔
اس بحث کی روشنی میں ذرا اس بنیادی خیال کا جائزہ لیتے ہیں، جو آج ہمارے رگ و پے میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ خیال کہ ہمارے تمام مصائب کی ذمے دار اسلام دشمن قوتیں ہیں۔ یوں تو دشمنوں کی کئی جہتیں بنا رکھی ہیں، جیسے یہودی، ہندو، ملحد وغیرہ وغیرہ، لیکن اگر اس خیال کے حامیوں کو مدعا اپنا ایک لفظ میں بیان کرنا ہو، تو بڑی سہولت سے کہیں گے؛ امریکا!! خیبر سے کراچی تک، پاکستانیوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ ہماری مشکلات کا رتھ امریکا نے سنبھالا ہوا ہے۔ وہی ہمارے عذابوں کا ذمے دار۔ ہر سانحے، حادثے پر ہمارا ردعمل یہی۔
بین الاقوامی دنیا میں پاکستان یا اسلام کی شبیہ کو کسی بھی سبب ٹھیس پہنچے، ہماری انگلی مشینی انداز میں امریکا کی سمت اٹھ جاتی ہے۔ اس نقطۂ نظر نے ہماری فکر کو تانگے میں جتے گھوڑا کی طرح محدودکر دیا ہے۔ مذہبی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے نصاب میں شامل یہ نظریہ کیا سوالات کی بوچھاڑ سہہ سکتا ہے؟ ایک سادہ سی مشق سے آپ جواب جان جائیں گے: تو خود سے پوچھیے، کیا سندھ کی شاہراہوں پر ہونے والے حالیہ حادثوں کے پیچھے امریکی ہاتھ تھا؟
سوچیے، کیا ہمارے گوالے بارک اوباما کے کہنے پر دودھ میں پانی ملاتے ہیں؟ جارج بش نے ہمارے ٹریفک اہلکاروں کو رشوت لینا سکھایا؟ آپ ہی بتائیں، پلوں کی تعمیر میں گھپلا کرنے والے ٹھیکے دار کیا پینٹاگون سے ہدایات لیتے ہیں؟ وڈیرے امریکی اشاروں پر ہاری کے بچے پر کتے چھوڑتے ہیں؟ کیا ہم امریکیوں کی خوشنودی کے لیے اپنی عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں؟ بازار حسن کیا ڈالروں کے دم سے قائم ہے؟ کیا کاروکاری کی رسم نیویارک سے درآمد کی گئی ہے؟ بجلی چوری کے پیچھے جان کیری صاحب ہیں؟ ہر چاند رات کو امریکا کچی شراب تقسیم کرتا ہے؟
شادی میں فائرنگ امریکی ٹین ایجرز کرتے ہیں؟ ہیلری کلنٹن نے ہماری نوجوان نسل کو والدین سے نافرمانی کا پاٹ پڑھایا؟ آپ ہی کہیں، کیا کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں سی آئی اے نے آگ لگوائی؟ کیا امریکیوں نے سندھ بھر کے اسکولوں کو اوطاق بنا رکھا ہے؟ سو بچوں کا قاتل امریکا سے آیا تھا؟ کیا ان کے کہنے پر آپ اور ہم بجلی چوری کرتے ہیں؟ اسٹریٹ کرائم میں چھینے جانے والے موبائل فون کیا لاس اینجلس کے باسی خریدتے ہیں؟ سیلاب کا پانی انکل سام چھوڑتے ہیں؟ سارا پٹرول فلاڈلفیا چلا گیا؟ بچے اغوا کرنے والے کینیڈی کے چچا زاد ہیں؟
کیا ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے لاؤڈ اسپیکرز کے مائیک لاس ویگاس میں نصب ہیں؟ سانحۂ پشاور کی ذمے داری قبول کرنے والے کیا شکاگو میں مقیم تھے؟ زوال پذیر قوموں کی نمایاں ترین نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے مصائب کی ذمے داری دوسروں پر تھوپ دیتی ہیں۔ کبھی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتیں۔ خود احتسابی سے دور بھاگتی ہیں، اور یوں قدرت کی جانب سے مشکل میں چھپا موقعے کا سنہری بیج ضایع ہوجاتا ہے۔ صاحبو، ہماری بدبختی کا سبب اخلاقی گراوٹ ہے، جس کی جڑیں ایک سمت علم سے دوری میں گڑی، دوسری جانب معاشی عدم استحکام میں۔ جب ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے، تو ہمارے مغرور جاگیر دارانہ مزاج نے مغالطوں میں پہنا لی۔ آنکھیں بند کرلیں۔
اور یوں ڈوبتی ناؤ کنارے لگنے کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ اگر پاکستان گرم پانی کے ذخیروں، چار موسم اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود گردن تک قرضوں میں دھنسا ہے، تو ذمے دار ہم خود۔ اگر سلامتی کے پیروکاروں میں دہشت گردی کی وبا پھیل گئی، تو آپ اپنا گریبان پکڑیں۔ جب کسی قوم میں خیانت اور اپنی خطاؤں سے چشم پوشی کی وبا پھیل جائے، پھراسے تباہ کرنے کے لیے ایٹمی حملوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ ''انسان زنداں میں ہے۔'' گرڈ جیف نے اپنے شاگرد اوس پنکی سے کہا۔ ''ہاں، اگر تم درست سوال کرتے رہے، تو ممکن ہے کہ کسی روز منزل پر پہنچ جاؤ۔''
تو سوال کیجیے۔ ان نظریات سے متعلق، جو ہمارے فیصلوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ کہیں وہ خام تو نہیں۔ یہ بھی سوچیں کہ پاکستان میں اعتدال پسند طبقات کے کمزورہونے سے نقصان کس کا ہوا؟ معروف صحافی اور قلم کار لوئی فشر لکھتا ہے: ہمیں ایک نئی دنیا کی ضرورت ہے، جو مقلدین نہیں، مصلحین کے ہاتھوں صورت پذیر ہوگی۔ مصلحین جو حوصلے کے ساتھ کٹھن راستے پر چل پڑیں گے۔'' نیند سے جاگ جائیں، اپنے لیے نہیں، بلکہ اس نسل کے لیے جس کے مستقبل کو ہم خطرے میں ڈال چکے ہیں۔
چینی کہاوت ہے؛ انسان کا عمل اس کی مکمل پہچان ہے۔ عمل فیصلوں سے جنم لیتا ہے، اور فیصلے کے پیچھے ذہن میں راسخ نظریات ہوتے ہیں، جو متعلقہ فیصلے کے ضمن میں آپ کی سوچ کو مرکوز یا محدود کر دیتے ہیں۔ چند نظریات تو انسان شعوری طور پر تجربے، مشاہدے اور مطالعے سے کشید کرتا ہے۔ مگر بیش تر ایسے ہیں، جنھیں کبھی پرکھنے کی نوبت نہیں آتی۔ یا تو ورثے میں ملے ہوتے ہیں، یا سماج سے۔ اور آدمی سہل پسندی کے باعث غوروفکر سے اجتناب برتتے ہوئے انھیں جوں کا توں قبول کر لیتا ہے۔ یوں تو کئی عناصر ہیں، مگر ماہرین عمرانیات کے مطابق اِس خاموش عمل میں خاندان، مدرسے اور عبادت گاہیں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ورثے اور ماحول سے ملنے والے خیالات میں جہاں چند کی اساس حقیقت کی زمین پر ہوتی ہے، وہیں مغالطوں کی بھی کمی نہیں۔ پر کیا کیجیے کہ وہ ظالم اتنی گہری جڑیں رکھتے ہیں کہ اُن پر سوچ بچار اذیت ناک معلوم ہوتی ہے۔ بہ قول علی عباس جلال پوری: ''ان جالوں کی وجہ سے عمر گزرنے کے ساتھ ہمارا ذہن دھندلا جاتا ہے۔ ہم ان سے مانوس ہوجاتے ہیں، انھیں سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ صاف کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں روشنی ہماری آنکھیں خیرہ نہ کر دے، اور شکوک و شبہات، جو اب تک ابہام کے دھندلکے میں لپٹے تھے، اجاگر ہو کر ہمیں پریشان نہ کرنے لگیں۔''
بعضوں کے نزدیک مغالطہ لاعلمی سے تشکیل پاتا ہے۔ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے واسطے بھی انسان دلاسوں پر یقین کرنے لگتا ہے۔ اگر احساس کمتری اجتماعی ہو، تو وقت کے ساتھ یہ نظام میں سرایت کر جاتے ہیں۔ البتہ خوش خبری یہ ہے کہ مغالطے لاکھ گھاتک سہی، ان سے نجات کے لیے ایک تیر بہدف نسخہ میسر ہے، اور وہ ہے: سوال کرنے کی عادت۔ وجدان کو عقل پر برتری حاصل ہے، عورت مرد سے کم تر ہے، حال ہمیشہ ماضی سے بدتر ہوتا ہے؛ یہ عام فکری مغالطے ہیں۔ اگر ٹھوس دکھائے دینے والے ان مغالطوں پر سوالات کے الیکٹران کی بارش کی جائے، تو مرکزہ پلوں میں ٹوٹ جائے۔
اس بحث کی روشنی میں ذرا اس بنیادی خیال کا جائزہ لیتے ہیں، جو آج ہمارے رگ و پے میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ خیال کہ ہمارے تمام مصائب کی ذمے دار اسلام دشمن قوتیں ہیں۔ یوں تو دشمنوں کی کئی جہتیں بنا رکھی ہیں، جیسے یہودی، ہندو، ملحد وغیرہ وغیرہ، لیکن اگر اس خیال کے حامیوں کو مدعا اپنا ایک لفظ میں بیان کرنا ہو، تو بڑی سہولت سے کہیں گے؛ امریکا!! خیبر سے کراچی تک، پاکستانیوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ ہماری مشکلات کا رتھ امریکا نے سنبھالا ہوا ہے۔ وہی ہمارے عذابوں کا ذمے دار۔ ہر سانحے، حادثے پر ہمارا ردعمل یہی۔
بین الاقوامی دنیا میں پاکستان یا اسلام کی شبیہ کو کسی بھی سبب ٹھیس پہنچے، ہماری انگلی مشینی انداز میں امریکا کی سمت اٹھ جاتی ہے۔ اس نقطۂ نظر نے ہماری فکر کو تانگے میں جتے گھوڑا کی طرح محدودکر دیا ہے۔ مذہبی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے نصاب میں شامل یہ نظریہ کیا سوالات کی بوچھاڑ سہہ سکتا ہے؟ ایک سادہ سی مشق سے آپ جواب جان جائیں گے: تو خود سے پوچھیے، کیا سندھ کی شاہراہوں پر ہونے والے حالیہ حادثوں کے پیچھے امریکی ہاتھ تھا؟
سوچیے، کیا ہمارے گوالے بارک اوباما کے کہنے پر دودھ میں پانی ملاتے ہیں؟ جارج بش نے ہمارے ٹریفک اہلکاروں کو رشوت لینا سکھایا؟ آپ ہی بتائیں، پلوں کی تعمیر میں گھپلا کرنے والے ٹھیکے دار کیا پینٹاگون سے ہدایات لیتے ہیں؟ وڈیرے امریکی اشاروں پر ہاری کے بچے پر کتے چھوڑتے ہیں؟ کیا ہم امریکیوں کی خوشنودی کے لیے اپنی عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں؟ بازار حسن کیا ڈالروں کے دم سے قائم ہے؟ کیا کاروکاری کی رسم نیویارک سے درآمد کی گئی ہے؟ بجلی چوری کے پیچھے جان کیری صاحب ہیں؟ ہر چاند رات کو امریکا کچی شراب تقسیم کرتا ہے؟
شادی میں فائرنگ امریکی ٹین ایجرز کرتے ہیں؟ ہیلری کلنٹن نے ہماری نوجوان نسل کو والدین سے نافرمانی کا پاٹ پڑھایا؟ آپ ہی کہیں، کیا کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں سی آئی اے نے آگ لگوائی؟ کیا امریکیوں نے سندھ بھر کے اسکولوں کو اوطاق بنا رکھا ہے؟ سو بچوں کا قاتل امریکا سے آیا تھا؟ کیا ان کے کہنے پر آپ اور ہم بجلی چوری کرتے ہیں؟ اسٹریٹ کرائم میں چھینے جانے والے موبائل فون کیا لاس اینجلس کے باسی خریدتے ہیں؟ سیلاب کا پانی انکل سام چھوڑتے ہیں؟ سارا پٹرول فلاڈلفیا چلا گیا؟ بچے اغوا کرنے والے کینیڈی کے چچا زاد ہیں؟
کیا ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے لاؤڈ اسپیکرز کے مائیک لاس ویگاس میں نصب ہیں؟ سانحۂ پشاور کی ذمے داری قبول کرنے والے کیا شکاگو میں مقیم تھے؟ زوال پذیر قوموں کی نمایاں ترین نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے مصائب کی ذمے داری دوسروں پر تھوپ دیتی ہیں۔ کبھی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتیں۔ خود احتسابی سے دور بھاگتی ہیں، اور یوں قدرت کی جانب سے مشکل میں چھپا موقعے کا سنہری بیج ضایع ہوجاتا ہے۔ صاحبو، ہماری بدبختی کا سبب اخلاقی گراوٹ ہے، جس کی جڑیں ایک سمت علم سے دوری میں گڑی، دوسری جانب معاشی عدم استحکام میں۔ جب ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے، تو ہمارے مغرور جاگیر دارانہ مزاج نے مغالطوں میں پہنا لی۔ آنکھیں بند کرلیں۔
اور یوں ڈوبتی ناؤ کنارے لگنے کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ اگر پاکستان گرم پانی کے ذخیروں، چار موسم اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود گردن تک قرضوں میں دھنسا ہے، تو ذمے دار ہم خود۔ اگر سلامتی کے پیروکاروں میں دہشت گردی کی وبا پھیل گئی، تو آپ اپنا گریبان پکڑیں۔ جب کسی قوم میں خیانت اور اپنی خطاؤں سے چشم پوشی کی وبا پھیل جائے، پھراسے تباہ کرنے کے لیے ایٹمی حملوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ ''انسان زنداں میں ہے۔'' گرڈ جیف نے اپنے شاگرد اوس پنکی سے کہا۔ ''ہاں، اگر تم درست سوال کرتے رہے، تو ممکن ہے کہ کسی روز منزل پر پہنچ جاؤ۔''
تو سوال کیجیے۔ ان نظریات سے متعلق، جو ہمارے فیصلوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ کہیں وہ خام تو نہیں۔ یہ بھی سوچیں کہ پاکستان میں اعتدال پسند طبقات کے کمزورہونے سے نقصان کس کا ہوا؟ معروف صحافی اور قلم کار لوئی فشر لکھتا ہے: ہمیں ایک نئی دنیا کی ضرورت ہے، جو مقلدین نہیں، مصلحین کے ہاتھوں صورت پذیر ہوگی۔ مصلحین جو حوصلے کے ساتھ کٹھن راستے پر چل پڑیں گے۔'' نیند سے جاگ جائیں، اپنے لیے نہیں، بلکہ اس نسل کے لیے جس کے مستقبل کو ہم خطرے میں ڈال چکے ہیں۔