عمران خان کی آمدجنوبی وزیرستان پھرخبروں کی زینت بننے والاہے
اس علاقے کے راستوں کے ذریعے یورپ تک تجارت کی جاسکتی ہے،لائیو ود طلعت میں انکشاف
جنوبی وزیرستان کے معلوماتی دورے کے دوران پروگرام لائیو ودطلعت حسین میں اینکر پرسن طلعت حسین نے بتایا کہ کوٹکئی میں خود کش بمباروں کی باقاعدہ طورپربریگیڈ بنائی گئی تھی۔
عبداللہ محسود،بیت اللہ محسوداور حکیم اللہ محسود کا تعلق اسی علاقے سے تھا ۔آٹھ لاکھ کی آبادی پر مشتمل جنوبی وزیرستان نے فوجی آپریشن کے دوران شدید تباہی دیکھی ہے اگلے چند روزمیں عمران خان کی جنوبی وزیرستان میں آمد کی وجہ سے یہ علاقہ ایکبار پھر خبروں کی زینت بننے والا ہے ۔اس علاقے کے راستوں کے ذریعے یورپ تک تجارت کی جاسکتی ہے۔ علاقے کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری منصوبوں میں اسکول اسپتال اوردیگرسہولتیں موجودہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی ماحول کا بڑا خلا موجود ہے یہاں کبھی الیکشن ہوا ہی نہیں ۔
اسپتال بنائے جارہے ہیں لیکن ڈاکٹرنہیں اسکول بنانے ہیں لیکن منت کرنے پربھی اساتذہ آنے پر راضی نہیں۔ جنوبی وزیرستان کے رہائشی نے کہاکہ فوری طورپر ایک بڑے اسپتال کی اشد ضرورت ہے عورتوں کے لیے بھی اسپتال بنناچاہیے۔علاقے میںپہلے طالبان تھے مگر اب نہیں اللہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ایک شخص نے کہاکہ جب یہاں پر جنگ تھی تو ہم صرف جان بچانے کے لیے نکل گئے تھے ، لوگ روزگار کے لیے پریشان ہیں۔
ایک ادھیڑعمرشخص نے کہاکہ جب تک امن نہیں ہوتا ترقی نہیں ہوسکتی۔ایک نوجوان نے کہاکہ عمران خان آجائے گا توکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔عمران خان صرف جنڈولہ تک آرہا ہے وہ خاص جنوبی وزیرستان میں نہیں آرہا۔علاقے میں ہاتھ سے فٹبال بنانے والے کارخانے کے مزدوروں نے کہاکہ اور کوئی کام نہیں ہے اس لیے ہم فٹبال بنانے کا کام کرتے ہیں اور ہرماہ دوسے تین ہزار کمالیتے ہیں۔کیڈٹ کالج کے طلبا سے گفتگو میں پتہ چلا کہ جو لوگ باوسائل ہیں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں جبکہ غریب والدین کی اولاد تعلیم کے حصول میں ناکام ہے۔
عبداللہ محسود،بیت اللہ محسوداور حکیم اللہ محسود کا تعلق اسی علاقے سے تھا ۔آٹھ لاکھ کی آبادی پر مشتمل جنوبی وزیرستان نے فوجی آپریشن کے دوران شدید تباہی دیکھی ہے اگلے چند روزمیں عمران خان کی جنوبی وزیرستان میں آمد کی وجہ سے یہ علاقہ ایکبار پھر خبروں کی زینت بننے والا ہے ۔اس علاقے کے راستوں کے ذریعے یورپ تک تجارت کی جاسکتی ہے۔ علاقے کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری منصوبوں میں اسکول اسپتال اوردیگرسہولتیں موجودہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی ماحول کا بڑا خلا موجود ہے یہاں کبھی الیکشن ہوا ہی نہیں ۔
اسپتال بنائے جارہے ہیں لیکن ڈاکٹرنہیں اسکول بنانے ہیں لیکن منت کرنے پربھی اساتذہ آنے پر راضی نہیں۔ جنوبی وزیرستان کے رہائشی نے کہاکہ فوری طورپر ایک بڑے اسپتال کی اشد ضرورت ہے عورتوں کے لیے بھی اسپتال بنناچاہیے۔علاقے میںپہلے طالبان تھے مگر اب نہیں اللہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ایک شخص نے کہاکہ جب یہاں پر جنگ تھی تو ہم صرف جان بچانے کے لیے نکل گئے تھے ، لوگ روزگار کے لیے پریشان ہیں۔
ایک ادھیڑعمرشخص نے کہاکہ جب تک امن نہیں ہوتا ترقی نہیں ہوسکتی۔ایک نوجوان نے کہاکہ عمران خان آجائے گا توکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔عمران خان صرف جنڈولہ تک آرہا ہے وہ خاص جنوبی وزیرستان میں نہیں آرہا۔علاقے میں ہاتھ سے فٹبال بنانے والے کارخانے کے مزدوروں نے کہاکہ اور کوئی کام نہیں ہے اس لیے ہم فٹبال بنانے کا کام کرتے ہیں اور ہرماہ دوسے تین ہزار کمالیتے ہیں۔کیڈٹ کالج کے طلبا سے گفتگو میں پتہ چلا کہ جو لوگ باوسائل ہیں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں جبکہ غریب والدین کی اولاد تعلیم کے حصول میں ناکام ہے۔