اتنا غرور اچھا نہیں
جب خاتون غریب بچے کو کھانا دلانے کیلئے اندر لے گئیں تو اسٹاف ممبر نے اس بچے کو دھکا دیتے کو ریسٹورنٹ سے باہر نکال دیا۔
جب انسان دولت اور طاقت کے نشے میں چور ہوتا ہے تو اپنے سے نیچے طبقے کے لوگوں کے لئے دل میں جذبہ حقارت بھر لیتا ہے۔ دولت اور طاقت کے نشے کا غرور اتنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو از خود وقتی خدا سمجھ بیٹھتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جو چیزیں رب نے اُسے عطا کیں ہیں وہ اس سے اسی طرح واپس بھی لے سکتا ہے۔
مال، دولت، طاقت کسی کی میراث نہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ انعام ہے۔ جس کا ناجائز استعمال اسی قدر پستی میں لے جاتا ہے جتنی اونچی اڑان کوئی بھی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد اُڑرہا ہوتا ہے اور اکڑ اکڑ کر خدا کی مخلوق سے بات کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔
خدا تعالی نے حسن سلوک کے حوالے سے کئی مواقعوں پر بڑے سخت احکامات صادر فرمائے ہیں۔ غرباء، مساکین اور یتیموں کے ساتھ خاص طور پر شفقت کرنے والے لوگوں کو خدا تعالی کی طرف سے انعامات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ان اعمال پرعمل کرنے سے ہم اپنے معاشرے میں اخلاقی برائیوں کو دور کر کے مساوات کا معاشرہ باآسانی قائم کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی ایسے بچے اور لوگ دکھائی دیں گے جو ہوٹلوں، سڑکوں یا دیگر مقامات پر ہماری موجودگی کے وقت ہم سے اللہ کے نام پر سوال کرکے کھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اُس وقت ہماری طاقت اور مال کا نشہ انہیں دھتکارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کبھی ہم ایسے لوگوں کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں تو کبھی دھکے دے کر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان دونوں طریقوں سے بھی وہ نہ جائے تو پھر ہم اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں، جس کے بعد مجبوراً وہ شخص وہاں سے چلا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مانگنا اب ایک کاروبار بن گیا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کسی کو دھتکاریں۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم سوچتے ہی نہیں کہ اِس طرح کرنے سے اُس شخص کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اور اس کے دل میں اس عمل کے بعد اٹھنے والی بد دعاؤں کو کون روک سکتا ہے؟
کسی بھی شخص کی مدد کرنے کے حوالے سے شریعت نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے جس کے مطابق ہم کسی بھی شخص کو اس کی فریاد پر دھتکارنے کے اہل نہیں بلکہ شریعت کے مطابق اگر کوئی شخص عمدہ لباس اور اچھی سواری میں سوار ہوکر آپ کے پاس بھیک مانگنے کے لئے آئے تو آپ اُسے دھتکار نہیں سکتے بلکہ اُس سے نرم لہجے میں بات کریں۔ اگر کسی بھی غریب، نادار اور لاچار شخص کی مدد کرنی ہے تو اس طرح کرنے کا حکم آیا ہے کہ؛
مطلب یہ کہ اتنی خفیہ مدد کی جائے کہ اس شخص کی معاشرے میں سفید پوشی برقرار رہے۔ لیکن کسی ایسے شخص کی ہرگز مدد کرنے کی ممانعت بھی ہے کہ جو چاک و چوبند، صحت و تندرست ہو۔
فوٹو؛ فائل
آپ کسی اچھے ریسٹورنٹ یا محفل میں جائیں اور وہاں کسی ایسے مجبور شخص کی آمد ہوجائے تو وہاں کام کرنے والا اسٹاف آپ کو برا نہ لگنے کے باعث ایسے لوگوں کو اندر گھسنے نہیں دیتا۔ پھر معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر آپ اسکواندرآنے کی اجازت دے دیں تو اسٹاف ممبر آپ کی اجازت کے باوجود اُس شخص کے ساتھ غیر مہذب برتاؤ رکھتا ہے۔ خاص طور پر کسی ریسٹورنٹ میں آپ مانگنے والے بچے کو اگر اپنی ٹیبل پر بیٹھا کر کھانے کی اجازت دے بھی دیں تو ہوٹل کا اسٹاف اپنا غصہ اُس کے ساتھ ساتھ آپ پر بھی اتار دیتا ہے ۔
پڑوسی ملک بھارت کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ جب ایک خاتون غریب بچے کو اپنے ساتھ دنیا کے نامور ریسٹورنٹ میں کھانا دلانے کے لئے اندر لے گئیں تو اسٹاف کے ایک ممبر نے اس بچے کو دھکا دیتے کو ریسٹورنٹ سے باہر نکال دیا۔ بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس خبر کا خوب چرچا ہوا، درد مند لوگوں نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں لائیک اور شیئر کیا جس کے بعد متعلقین نے اُس ریسٹورنٹ کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے پونے میں واقع اس کی برانچ کو مکمل طور پر بند کر دیا۔
مجھے متعلقین کے اس فیصلے سے بے حد خوشی ہوئی۔ اس طرح کے اقدامات کی ہمارے معاشرے کو بھی سخت ضرورت ہے تاکہ کسی کو یہ حق نہیں ہو کہ وہ کسی کی بھی عزت کو سرعام اچھالے۔ کیونکہ دنیا میں اب بھی چند نیک لوگ موجود ہیں جو نہ صرف غربیوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے میں بھی کوئی حقارت محسوس نہیں کرتے۔ اقبال نے ایک شعر میں ان لوگوں کے کردار کو بُن دیا ہے۔
فوٹو؛ فائل
ہمارے موجودہ معاشرے میں مسائل کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سے نچلے طبقے کے مجبور لوگوں کی مدد نہیں کرتے، جس کے باعث معاشرے میں جرائم جنم لیتے ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ ایسے تمام مجبور، بے کس اور مظلوم لوگوں کی صرف مدد ہی نہیں بلکہ ہر ممکنہ فورم پر ان کی آواز بننے کی کوشش کریں گے۔ صرف ایک منٹ کے لئے سوچیں کہ اگر ان کی جگہ ہمارا کوئی اپناعزیز ہوتا تو کیا ہمارا برتاو یہی ہوتا؟ وقت نکال کر سوچیں اور خود فیصلہ کیجئے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مال، دولت، طاقت کسی کی میراث نہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ انعام ہے۔ جس کا ناجائز استعمال اسی قدر پستی میں لے جاتا ہے جتنی اونچی اڑان کوئی بھی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد اُڑرہا ہوتا ہے اور اکڑ اکڑ کر خدا کی مخلوق سے بات کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے۔
خدا تعالی نے حسن سلوک کے حوالے سے کئی مواقعوں پر بڑے سخت احکامات صادر فرمائے ہیں۔ غرباء، مساکین اور یتیموں کے ساتھ خاص طور پر شفقت کرنے والے لوگوں کو خدا تعالی کی طرف سے انعامات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ان اعمال پرعمل کرنے سے ہم اپنے معاشرے میں اخلاقی برائیوں کو دور کر کے مساوات کا معاشرہ باآسانی قائم کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی ایسے بچے اور لوگ دکھائی دیں گے جو ہوٹلوں، سڑکوں یا دیگر مقامات پر ہماری موجودگی کے وقت ہم سے اللہ کے نام پر سوال کرکے کھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اُس وقت ہماری طاقت اور مال کا نشہ انہیں دھتکارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کبھی ہم ایسے لوگوں کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں تو کبھی دھکے دے کر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان دونوں طریقوں سے بھی وہ نہ جائے تو پھر ہم اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں، جس کے بعد مجبوراً وہ شخص وہاں سے چلا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مانگنا اب ایک کاروبار بن گیا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کسی کو دھتکاریں۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم سوچتے ہی نہیں کہ اِس طرح کرنے سے اُس شخص کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اور اس کے دل میں اس عمل کے بعد اٹھنے والی بد دعاؤں کو کون روک سکتا ہے؟
کسی بھی شخص کی مدد کرنے کے حوالے سے شریعت نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے جس کے مطابق ہم کسی بھی شخص کو اس کی فریاد پر دھتکارنے کے اہل نہیں بلکہ شریعت کے مطابق اگر کوئی شخص عمدہ لباس اور اچھی سواری میں سوار ہوکر آپ کے پاس بھیک مانگنے کے لئے آئے تو آپ اُسے دھتکار نہیں سکتے بلکہ اُس سے نرم لہجے میں بات کریں۔ اگر کسی بھی غریب، نادار اور لاچار شخص کی مدد کرنی ہے تو اس طرح کرنے کا حکم آیا ہے کہ؛
'' اگر سیدھے ہاتھ سے اُس کی مدد کی جائے تو الٹا ہاتھ اس سے مکمل لاعلم رہے''
مطلب یہ کہ اتنی خفیہ مدد کی جائے کہ اس شخص کی معاشرے میں سفید پوشی برقرار رہے۔ لیکن کسی ایسے شخص کی ہرگز مدد کرنے کی ممانعت بھی ہے کہ جو چاک و چوبند، صحت و تندرست ہو۔
فوٹو؛ فائل
آپ کسی اچھے ریسٹورنٹ یا محفل میں جائیں اور وہاں کسی ایسے مجبور شخص کی آمد ہوجائے تو وہاں کام کرنے والا اسٹاف آپ کو برا نہ لگنے کے باعث ایسے لوگوں کو اندر گھسنے نہیں دیتا۔ پھر معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر آپ اسکواندرآنے کی اجازت دے دیں تو اسٹاف ممبر آپ کی اجازت کے باوجود اُس شخص کے ساتھ غیر مہذب برتاؤ رکھتا ہے۔ خاص طور پر کسی ریسٹورنٹ میں آپ مانگنے والے بچے کو اگر اپنی ٹیبل پر بیٹھا کر کھانے کی اجازت دے بھی دیں تو ہوٹل کا اسٹاف اپنا غصہ اُس کے ساتھ ساتھ آپ پر بھی اتار دیتا ہے ۔
پڑوسی ملک بھارت کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ جب ایک خاتون غریب بچے کو اپنے ساتھ دنیا کے نامور ریسٹورنٹ میں کھانا دلانے کے لئے اندر لے گئیں تو اسٹاف کے ایک ممبر نے اس بچے کو دھکا دیتے کو ریسٹورنٹ سے باہر نکال دیا۔ بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس خبر کا خوب چرچا ہوا، درد مند لوگوں نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں لائیک اور شیئر کیا جس کے بعد متعلقین نے اُس ریسٹورنٹ کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے پونے میں واقع اس کی برانچ کو مکمل طور پر بند کر دیا۔
مجھے متعلقین کے اس فیصلے سے بے حد خوشی ہوئی۔ اس طرح کے اقدامات کی ہمارے معاشرے کو بھی سخت ضرورت ہے تاکہ کسی کو یہ حق نہیں ہو کہ وہ کسی کی بھی عزت کو سرعام اچھالے۔ کیونکہ دنیا میں اب بھی چند نیک لوگ موجود ہیں جو نہ صرف غربیوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے میں بھی کوئی حقارت محسوس نہیں کرتے۔ اقبال نے ایک شعر میں ان لوگوں کے کردار کو بُن دیا ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
فوٹو؛ فائل
ہمارے موجودہ معاشرے میں مسائل کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سے نچلے طبقے کے مجبور لوگوں کی مدد نہیں کرتے، جس کے باعث معاشرے میں جرائم جنم لیتے ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ ایسے تمام مجبور، بے کس اور مظلوم لوگوں کی صرف مدد ہی نہیں بلکہ ہر ممکنہ فورم پر ان کی آواز بننے کی کوشش کریں گے۔ صرف ایک منٹ کے لئے سوچیں کہ اگر ان کی جگہ ہمارا کوئی اپناعزیز ہوتا تو کیا ہمارا برتاو یہی ہوتا؟ وقت نکال کر سوچیں اور خود فیصلہ کیجئے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔