نظم ’’امن خواب نہ رہے‘‘

لحد سے اپنے پیر پر، چل کے کون آسکا، گزر گئے جو پل انہیں، کہاں کوئی بُلا سکا۔

لحد سے اپنے پیر پر، چل کے کون آسکا، گزر گئے جو پل انہیں، کہاں کوئی بُلا سکا۔ فوٹو رائٹرز

وہ صبح بدترین تھی!
کانپ اٹھا تھا آسماں
لرز گئی زمین تھی
وہ صبح بدترین تھی!

درسگاہ میں ہر طرف
گولیوں کی گونج میں
وحشیوں کا رقص تھا
بکھر رہے تھے سارے رنگ
مَر رہی تھی آرزو
علم و فن کی جستجو
وہ صبح بدترین تھی!

مائیں صبر کیا کریں؟
کیوں نہ باپ رو پڑیں؟
قرارِ جاں نہیں رہا
جگر کا خون ہو گیا
گودیاں اجڑ گئیں
نظر کا نور چھن گیا
ترنگ کوئی نہیں رہی
دل میں زندگی کی اب
ذرا امنگ نہیں رہی

درد نہ تھمے گا یہ
زخم نہ بھرے گا یہ
پَل میں سب بدل گیا
شوخیاں، شرارتیں
لاڈ، پیار، وہ ضدیں

قلم، کتاب، کاپیاں
موتی جیسے حرف وہ
سبق پرانا اور نیا
کچھ بھی تو نہیں بچا

لحد سے اپنے پیر پر
چل کے کون آسکا
گزر گئے جو پل انہیں
کہاں کوئی بُلا سکا

کر رہے ہیں یاد ہم
منا رہے ہیں اُن کا غم
اب نہیں جو ہم قدم
ہتھیلیاں جڑی ہوئی
ہیں گردنیں جھکی ہوئی
خدا سے التجائیں ہیں
بس اب یہی دعائیں ہیں
کسی کا خون نہ بہے
امن خواب نہ رہے
بند ہو یہ قتلِ عام
چار سو ہو روشنی
جگمگائیں صبح و شام

(نوٹ؛ آج سانحہ پشاور کو 40 دن مکمل ہوگئے ہیں)




نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story