مصر کی خاتونِ اوّل کی روایت پسندی
اور ’’زنانِ مصر‘‘ کے شُتر غمزے
مصر کے نئے منتخب صدر محمد مرسی صدارتی حلف اٹھا چکے ہیں۔ آنے والے دن ظاہر ہے ان پر ایسے آسان نہ ہوں گے، برس ہا برس کا بگاڑ ان کے لیے ایک بہت بڑی مبارزت ہے۔ فی الحال اس کی بھی کچھ خبر نہیں کہ نئے حکم راں مصر میں اسلام کے کون سے پہلے پر زور دیں گے۔ مصری معاشرت دو متضاد کیفیات کی حامل ہے، ایک طبقہ ''مغربی آزاد روی'' کا دل دادہ ہے، تو دوسرا اسلامی اورعرب اقدار کا طرف دار۔ مؤخر الذکر طبقہ غالباً غالب ہے وگرنہ اخوان المسلمون تحریک کا سیاسی شعبہ حالیہ انتخابات نہ جیت پاتا۔ صدر مرسی بہرحال اسلامی رواداری کا تاثر دیتے ہیں۔
یہ سب معاملات اپنی جگہ لیکن ''زنانِ مصر'' نے اپنے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر لیا ہے۔ ہمارا اشارہ صدر محمد مرسی کی زوجہ محترمہ کی طرف ہے، جو ایک قدامت پسند خاتون ہیں، اتنی قدامت پسند کہ اپنے جیون ساتھی کا نام بھی لینے سے گریز کرتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ سختی سے منع کرتی ہیں کہ انھیں ''خاتونِ اول'' لکھا اور پکارا نہ جائے۔
ان کا نام نجلاء علی محمود ہے۔ مصر میں مغربی خواتین کی طرح شوہر کے نام کا لاحقہ لگانے کا رواج خاصا مقبول ہے۔ تاہم مسلمان مذہب پسندوں میں یہ روایت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ ایسی مصری خواتین اس خوف سے شوہر کا نام اپنے نام کا حصہ نہیں بناتیں کہ تعارف کے موقع پر یہ اضافی نام بھی ساتھ بتانا پڑتا ہے، جو ان کی روایات کے مطابق معیوب ہے، شوہر کا نام لینا اس طبقے میں قابل تعریف نہیں گردانا جاتا۔ لہٰذا محترمہ نجلاء کے نام کے ساتھ آج بھی ان کے والد کا نام علی محمود آتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بڑے صاحب زادے احمد کے حوالے سے امِ احمد پکاری جاتی ہیں، جو عربوں کے ہاں ایک قدیم سماجی و عائیلی روایت ہے۔ محترمہ نجلاء ہمہ وقت عبا میں ملبوس اور سر ڈھانپے رہتی ہیں اور اس پر ایک پوشاک (گائون) ہوتی ہے، جو ان کے گھٹنوں سے نیچے تک جاتی ہے۔ وہ انٹرویو دینے تصاویر بنوانے اور خبروں میں آنے سے گریز کرتی ہیں۔ صدر محمد مرسی کی انتخابی مہم میں وہ اکثر جلسے جلوسوں میں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ تاہم انھوں نے ایک مرتبہ بھی خطاب نہیں کیا۔ ایک بار ایک جلسے کے دوران ایک رسالے کے فوٹو گرافر نے ان سے تصویر بنانے کی اجازت مانگی، تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک شرط پر تصویر بنانے کی اجازت دیں گی اور وہ یہ کہ تصویر میں انھیں تھوڑی نوجوان اور تھوڑی سی دبلی دکھایا جائے۔ اس طرح انھوں نے تصویر ساز کو ٹال دیا۔
محترمہ کی اس سادگی نے ''زنانِ مصر'' کو ایک اضطراری سی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔ ان سے قبل مصر میں جتنی خواتین اول آئیں، تقریباً سبھی الٹرا ماڈرن تھیں۔ مثال کے طور پر سابق مصری آمر حسنی مبارک کی اہلیہ سوزین کبھی مصر کے تہذیبی لباس میں نہیں دیکھی گئیں۔ ان سے پہلے انور السادات کی اہلیہ جیہان اور ان سے پہلے جمال عبدالناصر کی بیگم طاحیہ اور ان سے بھی پہلے شاہی خاندانوں کی خواتین اپنی وضع قطع مغربی رکھتی رہی ہیں، اور یہ ہی خواتین مصر کی اشرافیہ اور نام نہاد مغربی طرز پر پڑھے لکھے طبقے کی عورتوں کے لیے ''رول ماڈل'' بنتی رہی ہیں۔ لیکن منظر نامہ یکایک تبدیل ہو چکا ہے اور انتخابی پانسہ اخوان المسلمون یا یوں کہیے کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے حق میں پڑا ہے، تو مصر کے طبقۂ نسواں میں ایک پریشانی سی پیدا ہو چلی ہے، بل کہ یوں ہے کہ اس نے اپنے ایک نئی تشویش گھڑ لی ہے۔ وہ یہ کہ وہ نیا رول ماڈل یعنی نجلاء کو قبول کرنے پر، خود کو آمادہ نہیں کر پا رہیں اور اپنے حق میں ایک کے بعد ایک کم زور استدلال کرتی چلی جا رہی ہیں۔
محترمہ نجلاء علی محمود، قاہرہ کے قریب عین شمس نامی ایک گائوں میں 1962 میں پیدا ہوئیں، جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ عین شمس، قاہرہ کی مضافاتی بستی ہے۔ مصر کیا اور اس کی خوش حالی کیا، اس کے شہروں میں بھی بھوک ننگ کے منظر عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی سے اس کے مضافاتی علاقوں کا اندازہ لگا لیجے۔ ظاہر ہے، قصبات و دیہات میں غربت کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ نجلاء نے بہرحال تمام تر ناداری کے باوجود ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کر ہی لی۔ ابھی 17 برس ہی کی تھیں کہ اپنے کزن محمد مرسی سے بیاہ دی گئیں۔ وہ کبھی کالج کا منہ نہیں دیکھ پائیں۔ مرسی ان سے عمر میں گیارہ برس بڑے ہیں اور ان کا بھی تعلق اپنی اہلیہ کی طرح ایک غریب گھرانے ہی سے ہے۔
ان کے گائوں کا نام عدویٰ ہے، جو مصری صوبے شرقیہ میں واقع ہے۔ ابھی ان کی شادی کو تین ہی دن گزرے تھے کہ مرسی قاہرہ یونی ورسٹی سے انجنیئرنگ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کے لیے یونی آف سدرن کیلی فورنیا (امریکا) روانہ ہوگئے۔ ادھر محترمہ نجلاء ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد انگریزی پڑھنے کے لیے قاہرہ چلی آئیں۔ ڈیڑھ سال یہاں گزارنے کے بعد میاں نے ان کا بندوبست بھی کرلیا اور یوں وہ اپنے پیا کا ساتھ دینے لاس اینجلس روانہ ہوگئیں۔ وہاں ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا سو انھوں نے مسلم اسٹوڈنٹ ہائوس میں رضاکاری شروع کر دی۔ یہ رضاکاری یہ تھی کہ وہ ان خواتین کے لیے مترجم کے فرائض ادا کرتی تھیں، جو اسلام میں دل چسپی لیتی تھیں۔ لاس اینجلس میں قیام ہی کے دوران دونوں میاں بیوی اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے اور اس میں شامل ہوگئے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے اخوان المسلمون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب میاں بیوی نے اخوان المسلمون میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو انھیں بتایا گیا کہ وہ عجلت کا مظاہرہ نہ کریں، بل کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کی منزل دور بھی بہت ہے اور اس کی جانب جانے والا راستہ بھی خاصا دشوار اور خاردار ہے، صرف یہ ہی نہیں، بل کہ ان کے شوہر سے کہا گیا کہ وہ تنظیم میں شامل ہونے سے قبل اپنی اہلیہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں اور ان کا اعتماد حاصل کریں۔ تنظیم کے لاس اینجلس کے قائدین نے محمد مرسی پر واضح کر دیا تھا کہ وہ ارکان کی تعداد یا ہندسے بڑھانے سے زیادہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کے خاندانوں کی اکائی سلامت رہے اور محض اس وجہ سے بکھر نہ جائیں کہ شوہر تنظیم کا رکن ہے اور زوجہ اس پر ناخوش ہے یا خاتون کی رکنیت پر میاں چیں بہ جبیں ہے۔ وہ کہتی ہیں،''اخوان المسلمون کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھتی۔''
دونوں کے پانچ بچے ہیں، جن میں سے بڑے دو امریکا ہی میں پیدا ہوئے۔ سو وہ امریکی شہریت کے حامل ہیں۔ محمد مرسی اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کر چکے تو واپس مصر جانے کو تیار ہو گئے، لیکن نجلاء نے واپسی میں پس و پیش کیا۔ محمد مرسی چاہتے تھے کہ بچوں کی بنیادی تربیت ان کے اپنے ہی وطن میں ہونی چاہیے، سو چار و ناچار خاندان کو 1985 میں واپس آنا پڑا۔
مصر آ کر مرسی جامعہ زقازیق (Zagazig University) میں پڑھانے لگے۔ جو ان کے آبائی صوبے شرقیہ میں واقع ہے۔ ادھر ان کی تنظیمی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ دوسری جانب نجلاء نے بھی نوجوان خواتین کو عائلی زندگی کے بارے میں تعلیم دینا شروع کر دی۔ وہ لڑکیوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں کہ قدرت نے مرد کو قیادت کے لیے پیداکیا ہے، جب کہ خواتین کو ان کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔
تنخواہ کم اور کنبہ بڑا ہونے کے باعث محمد مرسی کو بھی دیگر مصریوں کی طرح ملک سے باہر سفر کرنا پڑے۔ وہ لیبیا یونی ورسٹی میں 1988 سے 1992 تک انجنیئرنگ پڑھاتے رہے۔ اس طرح انھوں نے اتنی رقم جمع کر لی کہ شہر زقازیق میں ایک اپارٹمنٹ خرید سکیں اور مٹسوبشی لانسر میڈان (گاڑی) کی ڈائون پے منٹ کر سکیں۔
اخوان المسلمون کو حسنی مبارک آمریت نے غیر قانونی دے رکھا تھا، اس میں شمولیت ہی کارے دارد تھی، چہ جائے کہ کوئی اس میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ سو مرسی اور نجلاء پر وقتاً فوقتاً فوج کے پروردہ حسنی مبارک کی آفات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ مرسی جیل میں ہوتے تھے تو پیچھے نجلاء ہی خاندان کو سنبھالے رکھتی تھیں۔ ایک گفت گو کے دوران نجلاء 2006 کا وہ دن یاد کرتے ہوئے مسکرا دیں۔ جب مرسی احتجاجی تحریک میں شمولیت کے لیے اپنی اہلیہ سے رخصت ہونے لگے تو ایک طرح سے تلقین کی کہ وہ کمر کسے رکھیں، ممکن ہے اس تحریک سے زندہ واپسی نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کی اگلی ملاقات کسی جیل میں ہو۔ اور یہ سچ ہے کہ سات ماہ تک انھیں اپنے شوہر کی کوئی خبر نہ ملی، کیوں کہ اس سارے عرصے کے دوران وہ زیرحراست رہے۔ شوہر ہی نہیں ان کا بڑا بیٹا احمد بھی متعدد بار گرفتار ہوا۔ اس سے چھوٹا اُسامہ گذشتہ برس گرفتاری اور آمرانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تیسرا بیٹا عمر بھی سرکاری غنڈوں کے تشدد کا نشانہ بنا۔ احمد آج کل گھر کی معاشی گاڑی کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب میں بہ طور یورولوجسٹ ملازمت کر رہا ہے۔
مصر میں پدرسری نظام کی جڑیں باقی عرب معاشروں کی طرح خاصی گہری ہیں اور خاص طور پر چھوٹے شہروں اور مذہبی گھرانوں میں اس روایت کا احترام زیادہ کیا جاتا ہے۔ جیسے کوئی خاتون اپنے میاں کا نام لینے سے گریز کرتی ہے، اسی طرح مرد عام محفلوں میں اپنی مستورات کا ذکر کرنا اور ان کا نام لینا معیوب سمجھتے ہیں، لیکن محمد مرسی اپنی بعض عادات میں مصریوں سے مختلف ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ سے خاصے متاثر ہیں اور کھلے عام محفلوں حتیٰ کہ بعض اوقات جلسوں میں بھی اپنی اہلیہ کے حق میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ یہ لامحالہ ان بے بہا قربانیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے جو محترمہ نجلاء اپنے شوہر کو ایک کام یاب قائد بنانے کے لیے دیتی چلی آرہی ہیں۔ انھوں نے ہر گرم و سرد میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا اور ان کا حوصلہ کبھی گرنے نہیں دیا۔ محمد مرسی کئی بار اپنے انٹرویوز کے دوران فخریہ انداز میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ نجلاء ان کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل ہیں۔
نجلاء بتاتی ہیں کہ مرسی ایک مثالی شوہر ہیں۔ وہ متعدد امور نمٹانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی بیگم کے لیے کھانا بھی تیار کردیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''مجھے ان کی کوئی ایسی بات معلوم نہیں جسے میں ناپسندیدہ کہہ سکوں۔'' نجلاء اعتراف کرتی ہیں کہ کبھی کبھی کسی بات پر دونوں میں لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے، لیکن ناراضی کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران وہ اکثر اپنے شوہر کے ساتھ جلسوں جلوسوں میں شرکت کرتی رہیں، تاہم شاذ ہی ایسا ہوا کہ انھوں نے کوئی ''بھاشن'' دیا ہو۔ امریکی ابلاغی ادارے VOA کو انتخابی مہم کے دوران دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بہت متوازن اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، اور یہ بات میں اس لیے نہیں کر رہی کہ وہ میرے شوہر ہیں، بل کہ یہ ایک حقیقت ہے، جسے دوسرے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں، یہ ہی ان کا حقیقی مزاج ہے۔ وہ سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور بہت تعقل پسند ہیں۔ ہماری شادی کو اکتیس بتیس برس ہو چکے ہیں۔ ان کی حسِ مزاح بھی بہت اعلیٰ درجے کی ہے، بل کہ میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ باقاعدہ ایک ظریف ہیں، جب وقت سنجیدگی کا متقاضی ہوتا ہے، تو وہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور موقع اجازت دے تو ہم سب کو خوب ہنساتے ہیں۔
محترمہ نے مصر کی خاتون اول کہلانے سے انکار کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب (صدر مرسی) مصر کے خادم ہیں اور میں ان کی اہلیہ ہوں اور بس، یہ کافی ہے۔ لیکن مصر کے مغرب پسند طبقے کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اوپر سے ان کا لباس بھی از حد روایتی ہے۔ وہ ایک صدر کی اہلیہ ہونے کے ناتے جدید دنیا میں کیسے اپنے فرائض نباہیں گی؟ قصر صدارت میں سو قسم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، جن میں غیر ملکی مرد و زن شریک ہوتے ہیں ان تقریبات میں نجلاء کیا کریں گی؟ یہ اور ایسے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور مصر کی ماڈ کلاس خود کو خواہ مخوا کی تشویش میں مبتلا کیے چلی جا رہی ہے۔ حالاںکہ آنے والے دنوں میں مصر کو ان سے کہیں زیادہ مشکل سوالات کا سامنا رہے گا، جن میں سب سے بڑا اور تشویش انگیز سوال یہ ہے کہ صدر مرسی فوج سے کیسے نمٹیں گے،
کیوں کہ یہ طویل عرصے سے ایک منہ زور اور اڑیل گھوڑے کی طرح مصریوں کو درپیش ہے، بل کہ غلط نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ مصریوں کے درپے ہے۔ اپنے مربی حسنی مبارک کے کوچ کر جانے کے باوجود فوج کی من مانی میں فرق نہیں آیا۔ پہلے تو اس نے خوب زور مارا کہ مرسی کی بجائے اپنے پروردہ احمد شفیق کو انتخابات جتوا دیے جائیں، لیکن لاکھوں جعلی ووٹ بھگتوانے اور پوری سرکاری مشینری جھونکنے کے باوجود اس کا منصوبہ ناکام رہا، تو چار و ناچار محمد مرسی کو یوں قبول کیا گیا کہ خود کو آئین سے ماورا قرار دلوا لیا۔ اب مرسی نہ تو فوج کے چیف کمانڈر تسلیم کیے جائیں گے اور نہ ہی پارلیمان ملک کی خارجہ پالیسی طے کر پائے گی۔ فوج کی مالی بدعنوانیوں اور اللے تللوں کے آگے سیاسی حکومت کوئی بند باندھنے کی بھی مجاز نہ ہو گی۔ خاتون اول، خاتونِ اول ہیں کہ نہیں؟
وہ جدید دور کے ساتھ کیسے چل پائیں گی؟ ان کا ملبوس اور ان کا ''پتی ورتا'' ہونا جیسے سوالات پر توانائیاں ضایع کرنے کی عیاشی کے متحمل کم از کم مصری تو نہیں ہو سکتے۔ اپنی صدارت کے پہلے ہی دن اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا مبارک باد کا پیغام سننے سے انکار کرکے صدر محمد مرسی نے انھیں ایک ان کہا پیغام دے دیا ہے۔ یہ پیغام اسرائیل کو مصریوں کی اکثریت کے منتخب صدر کا پیغام ہے۔ اس باب میں صدر مرسی نے امریکا کی سفارش بھی مسترد کر دی اور اس پر بھی واضح کر دیا کہ مصری فوج کی موجودی میں بھی وہ واشنگٹن کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک سکتے ہیں۔ ایسے میں محترمہ نجلاء حکومتی امور میں اپنے میاں کا ہاتھ کیسے بٹائیں گی؟ جیسے سوالات پر متشوش ہونا راکھ ہوتے روم پر بانسری بجانے کے مترادف ہو گا۔
یہ سب معاملات اپنی جگہ لیکن ''زنانِ مصر'' نے اپنے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کر لیا ہے۔ ہمارا اشارہ صدر محمد مرسی کی زوجہ محترمہ کی طرف ہے، جو ایک قدامت پسند خاتون ہیں، اتنی قدامت پسند کہ اپنے جیون ساتھی کا نام بھی لینے سے گریز کرتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ سختی سے منع کرتی ہیں کہ انھیں ''خاتونِ اول'' لکھا اور پکارا نہ جائے۔
ان کا نام نجلاء علی محمود ہے۔ مصر میں مغربی خواتین کی طرح شوہر کے نام کا لاحقہ لگانے کا رواج خاصا مقبول ہے۔ تاہم مسلمان مذہب پسندوں میں یہ روایت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ ایسی مصری خواتین اس خوف سے شوہر کا نام اپنے نام کا حصہ نہیں بناتیں کہ تعارف کے موقع پر یہ اضافی نام بھی ساتھ بتانا پڑتا ہے، جو ان کی روایات کے مطابق معیوب ہے، شوہر کا نام لینا اس طبقے میں قابل تعریف نہیں گردانا جاتا۔ لہٰذا محترمہ نجلاء کے نام کے ساتھ آج بھی ان کے والد کا نام علی محمود آتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بڑے صاحب زادے احمد کے حوالے سے امِ احمد پکاری جاتی ہیں، جو عربوں کے ہاں ایک قدیم سماجی و عائیلی روایت ہے۔ محترمہ نجلاء ہمہ وقت عبا میں ملبوس اور سر ڈھانپے رہتی ہیں اور اس پر ایک پوشاک (گائون) ہوتی ہے، جو ان کے گھٹنوں سے نیچے تک جاتی ہے۔ وہ انٹرویو دینے تصاویر بنوانے اور خبروں میں آنے سے گریز کرتی ہیں۔ صدر محمد مرسی کی انتخابی مہم میں وہ اکثر جلسے جلوسوں میں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ تاہم انھوں نے ایک مرتبہ بھی خطاب نہیں کیا۔ ایک بار ایک جلسے کے دوران ایک رسالے کے فوٹو گرافر نے ان سے تصویر بنانے کی اجازت مانگی، تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ایک شرط پر تصویر بنانے کی اجازت دیں گی اور وہ یہ کہ تصویر میں انھیں تھوڑی نوجوان اور تھوڑی سی دبلی دکھایا جائے۔ اس طرح انھوں نے تصویر ساز کو ٹال دیا۔
محترمہ کی اس سادگی نے ''زنانِ مصر'' کو ایک اضطراری سی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔ ان سے قبل مصر میں جتنی خواتین اول آئیں، تقریباً سبھی الٹرا ماڈرن تھیں۔ مثال کے طور پر سابق مصری آمر حسنی مبارک کی اہلیہ سوزین کبھی مصر کے تہذیبی لباس میں نہیں دیکھی گئیں۔ ان سے پہلے انور السادات کی اہلیہ جیہان اور ان سے پہلے جمال عبدالناصر کی بیگم طاحیہ اور ان سے بھی پہلے شاہی خاندانوں کی خواتین اپنی وضع قطع مغربی رکھتی رہی ہیں، اور یہ ہی خواتین مصر کی اشرافیہ اور نام نہاد مغربی طرز پر پڑھے لکھے طبقے کی عورتوں کے لیے ''رول ماڈل'' بنتی رہی ہیں۔ لیکن منظر نامہ یکایک تبدیل ہو چکا ہے اور انتخابی پانسہ اخوان المسلمون یا یوں کہیے کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے حق میں پڑا ہے، تو مصر کے طبقۂ نسواں میں ایک پریشانی سی پیدا ہو چلی ہے، بل کہ یوں ہے کہ اس نے اپنے ایک نئی تشویش گھڑ لی ہے۔ وہ یہ کہ وہ نیا رول ماڈل یعنی نجلاء کو قبول کرنے پر، خود کو آمادہ نہیں کر پا رہیں اور اپنے حق میں ایک کے بعد ایک کم زور استدلال کرتی چلی جا رہی ہیں۔
محترمہ نجلاء علی محمود، قاہرہ کے قریب عین شمس نامی ایک گائوں میں 1962 میں پیدا ہوئیں، جہاں انھوں نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ عین شمس، قاہرہ کی مضافاتی بستی ہے۔ مصر کیا اور اس کی خوش حالی کیا، اس کے شہروں میں بھی بھوک ننگ کے منظر عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی سے اس کے مضافاتی علاقوں کا اندازہ لگا لیجے۔ ظاہر ہے، قصبات و دیہات میں غربت کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ نجلاء نے بہرحال تمام تر ناداری کے باوجود ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کر ہی لی۔ ابھی 17 برس ہی کی تھیں کہ اپنے کزن محمد مرسی سے بیاہ دی گئیں۔ وہ کبھی کالج کا منہ نہیں دیکھ پائیں۔ مرسی ان سے عمر میں گیارہ برس بڑے ہیں اور ان کا بھی تعلق اپنی اہلیہ کی طرح ایک غریب گھرانے ہی سے ہے۔
ان کے گائوں کا نام عدویٰ ہے، جو مصری صوبے شرقیہ میں واقع ہے۔ ابھی ان کی شادی کو تین ہی دن گزرے تھے کہ مرسی قاہرہ یونی ورسٹی سے انجنیئرنگ میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کے لیے یونی آف سدرن کیلی فورنیا (امریکا) روانہ ہوگئے۔ ادھر محترمہ نجلاء ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد انگریزی پڑھنے کے لیے قاہرہ چلی آئیں۔ ڈیڑھ سال یہاں گزارنے کے بعد میاں نے ان کا بندوبست بھی کرلیا اور یوں وہ اپنے پیا کا ساتھ دینے لاس اینجلس روانہ ہوگئیں۔ وہاں ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا سو انھوں نے مسلم اسٹوڈنٹ ہائوس میں رضاکاری شروع کر دی۔ یہ رضاکاری یہ تھی کہ وہ ان خواتین کے لیے مترجم کے فرائض ادا کرتی تھیں، جو اسلام میں دل چسپی لیتی تھیں۔ لاس اینجلس میں قیام ہی کے دوران دونوں میاں بیوی اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے اور اس میں شامل ہوگئے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے اخوان المسلمون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب میاں بیوی نے اخوان المسلمون میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو انھیں بتایا گیا کہ وہ عجلت کا مظاہرہ نہ کریں، بل کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کی منزل دور بھی بہت ہے اور اس کی جانب جانے والا راستہ بھی خاصا دشوار اور خاردار ہے، صرف یہ ہی نہیں، بل کہ ان کے شوہر سے کہا گیا کہ وہ تنظیم میں شامل ہونے سے قبل اپنی اہلیہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں اور ان کا اعتماد حاصل کریں۔ تنظیم کے لاس اینجلس کے قائدین نے محمد مرسی پر واضح کر دیا تھا کہ وہ ارکان کی تعداد یا ہندسے بڑھانے سے زیادہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کے خاندانوں کی اکائی سلامت رہے اور محض اس وجہ سے بکھر نہ جائیں کہ شوہر تنظیم کا رکن ہے اور زوجہ اس پر ناخوش ہے یا خاتون کی رکنیت پر میاں چیں بہ جبیں ہے۔ وہ کہتی ہیں،''اخوان المسلمون کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھتی۔''
دونوں کے پانچ بچے ہیں، جن میں سے بڑے دو امریکا ہی میں پیدا ہوئے۔ سو وہ امریکی شہریت کے حامل ہیں۔ محمد مرسی اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کر چکے تو واپس مصر جانے کو تیار ہو گئے، لیکن نجلاء نے واپسی میں پس و پیش کیا۔ محمد مرسی چاہتے تھے کہ بچوں کی بنیادی تربیت ان کے اپنے ہی وطن میں ہونی چاہیے، سو چار و ناچار خاندان کو 1985 میں واپس آنا پڑا۔
مصر آ کر مرسی جامعہ زقازیق (Zagazig University) میں پڑھانے لگے۔ جو ان کے آبائی صوبے شرقیہ میں واقع ہے۔ ادھر ان کی تنظیمی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ دوسری جانب نجلاء نے بھی نوجوان خواتین کو عائلی زندگی کے بارے میں تعلیم دینا شروع کر دی۔ وہ لڑکیوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں کہ قدرت نے مرد کو قیادت کے لیے پیداکیا ہے، جب کہ خواتین کو ان کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔
تنخواہ کم اور کنبہ بڑا ہونے کے باعث محمد مرسی کو بھی دیگر مصریوں کی طرح ملک سے باہر سفر کرنا پڑے۔ وہ لیبیا یونی ورسٹی میں 1988 سے 1992 تک انجنیئرنگ پڑھاتے رہے۔ اس طرح انھوں نے اتنی رقم جمع کر لی کہ شہر زقازیق میں ایک اپارٹمنٹ خرید سکیں اور مٹسوبشی لانسر میڈان (گاڑی) کی ڈائون پے منٹ کر سکیں۔
اخوان المسلمون کو حسنی مبارک آمریت نے غیر قانونی دے رکھا تھا، اس میں شمولیت ہی کارے دارد تھی، چہ جائے کہ کوئی اس میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ سو مرسی اور نجلاء پر وقتاً فوقتاً فوج کے پروردہ حسنی مبارک کی آفات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ مرسی جیل میں ہوتے تھے تو پیچھے نجلاء ہی خاندان کو سنبھالے رکھتی تھیں۔ ایک گفت گو کے دوران نجلاء 2006 کا وہ دن یاد کرتے ہوئے مسکرا دیں۔ جب مرسی احتجاجی تحریک میں شمولیت کے لیے اپنی اہلیہ سے رخصت ہونے لگے تو ایک طرح سے تلقین کی کہ وہ کمر کسے رکھیں، ممکن ہے اس تحریک سے زندہ واپسی نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کی اگلی ملاقات کسی جیل میں ہو۔ اور یہ سچ ہے کہ سات ماہ تک انھیں اپنے شوہر کی کوئی خبر نہ ملی، کیوں کہ اس سارے عرصے کے دوران وہ زیرحراست رہے۔ شوہر ہی نہیں ان کا بڑا بیٹا احمد بھی متعدد بار گرفتار ہوا۔ اس سے چھوٹا اُسامہ گذشتہ برس گرفتاری اور آمرانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تیسرا بیٹا عمر بھی سرکاری غنڈوں کے تشدد کا نشانہ بنا۔ احمد آج کل گھر کی معاشی گاڑی کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب میں بہ طور یورولوجسٹ ملازمت کر رہا ہے۔
مصر میں پدرسری نظام کی جڑیں باقی عرب معاشروں کی طرح خاصی گہری ہیں اور خاص طور پر چھوٹے شہروں اور مذہبی گھرانوں میں اس روایت کا احترام زیادہ کیا جاتا ہے۔ جیسے کوئی خاتون اپنے میاں کا نام لینے سے گریز کرتی ہے، اسی طرح مرد عام محفلوں میں اپنی مستورات کا ذکر کرنا اور ان کا نام لینا معیوب سمجھتے ہیں، لیکن محمد مرسی اپنی بعض عادات میں مصریوں سے مختلف ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ سے خاصے متاثر ہیں اور کھلے عام محفلوں حتیٰ کہ بعض اوقات جلسوں میں بھی اپنی اہلیہ کے حق میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں۔ یہ لامحالہ ان بے بہا قربانیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے جو محترمہ نجلاء اپنے شوہر کو ایک کام یاب قائد بنانے کے لیے دیتی چلی آرہی ہیں۔ انھوں نے ہر گرم و سرد میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا اور ان کا حوصلہ کبھی گرنے نہیں دیا۔ محمد مرسی کئی بار اپنے انٹرویوز کے دوران فخریہ انداز میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ نجلاء ان کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل ہیں۔
نجلاء بتاتی ہیں کہ مرسی ایک مثالی شوہر ہیں۔ وہ متعدد امور نمٹانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی بیگم کے لیے کھانا بھی تیار کردیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''مجھے ان کی کوئی ایسی بات معلوم نہیں جسے میں ناپسندیدہ کہہ سکوں۔'' نجلاء اعتراف کرتی ہیں کہ کبھی کبھی کسی بات پر دونوں میں لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے، لیکن ناراضی کا دورانیہ بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران وہ اکثر اپنے شوہر کے ساتھ جلسوں جلوسوں میں شرکت کرتی رہیں، تاہم شاذ ہی ایسا ہوا کہ انھوں نے کوئی ''بھاشن'' دیا ہو۔ امریکی ابلاغی ادارے VOA کو انتخابی مہم کے دوران دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بہت متوازن اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، اور یہ بات میں اس لیے نہیں کر رہی کہ وہ میرے شوہر ہیں، بل کہ یہ ایک حقیقت ہے، جسے دوسرے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں، یہ ہی ان کا حقیقی مزاج ہے۔ وہ سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور بہت تعقل پسند ہیں۔ ہماری شادی کو اکتیس بتیس برس ہو چکے ہیں۔ ان کی حسِ مزاح بھی بہت اعلیٰ درجے کی ہے، بل کہ میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ باقاعدہ ایک ظریف ہیں، جب وقت سنجیدگی کا متقاضی ہوتا ہے، تو وہ سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور موقع اجازت دے تو ہم سب کو خوب ہنساتے ہیں۔
محترمہ نے مصر کی خاتون اول کہلانے سے انکار کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب (صدر مرسی) مصر کے خادم ہیں اور میں ان کی اہلیہ ہوں اور بس، یہ کافی ہے۔ لیکن مصر کے مغرب پسند طبقے کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اوپر سے ان کا لباس بھی از حد روایتی ہے۔ وہ ایک صدر کی اہلیہ ہونے کے ناتے جدید دنیا میں کیسے اپنے فرائض نباہیں گی؟ قصر صدارت میں سو قسم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، جن میں غیر ملکی مرد و زن شریک ہوتے ہیں ان تقریبات میں نجلاء کیا کریں گی؟ یہ اور ایسے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور مصر کی ماڈ کلاس خود کو خواہ مخوا کی تشویش میں مبتلا کیے چلی جا رہی ہے۔ حالاںکہ آنے والے دنوں میں مصر کو ان سے کہیں زیادہ مشکل سوالات کا سامنا رہے گا، جن میں سب سے بڑا اور تشویش انگیز سوال یہ ہے کہ صدر مرسی فوج سے کیسے نمٹیں گے،
کیوں کہ یہ طویل عرصے سے ایک منہ زور اور اڑیل گھوڑے کی طرح مصریوں کو درپیش ہے، بل کہ غلط نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ مصریوں کے درپے ہے۔ اپنے مربی حسنی مبارک کے کوچ کر جانے کے باوجود فوج کی من مانی میں فرق نہیں آیا۔ پہلے تو اس نے خوب زور مارا کہ مرسی کی بجائے اپنے پروردہ احمد شفیق کو انتخابات جتوا دیے جائیں، لیکن لاکھوں جعلی ووٹ بھگتوانے اور پوری سرکاری مشینری جھونکنے کے باوجود اس کا منصوبہ ناکام رہا، تو چار و ناچار محمد مرسی کو یوں قبول کیا گیا کہ خود کو آئین سے ماورا قرار دلوا لیا۔ اب مرسی نہ تو فوج کے چیف کمانڈر تسلیم کیے جائیں گے اور نہ ہی پارلیمان ملک کی خارجہ پالیسی طے کر پائے گی۔ فوج کی مالی بدعنوانیوں اور اللے تللوں کے آگے سیاسی حکومت کوئی بند باندھنے کی بھی مجاز نہ ہو گی۔ خاتون اول، خاتونِ اول ہیں کہ نہیں؟
وہ جدید دور کے ساتھ کیسے چل پائیں گی؟ ان کا ملبوس اور ان کا ''پتی ورتا'' ہونا جیسے سوالات پر توانائیاں ضایع کرنے کی عیاشی کے متحمل کم از کم مصری تو نہیں ہو سکتے۔ اپنی صدارت کے پہلے ہی دن اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا مبارک باد کا پیغام سننے سے انکار کرکے صدر محمد مرسی نے انھیں ایک ان کہا پیغام دے دیا ہے۔ یہ پیغام اسرائیل کو مصریوں کی اکثریت کے منتخب صدر کا پیغام ہے۔ اس باب میں صدر مرسی نے امریکا کی سفارش بھی مسترد کر دی اور اس پر بھی واضح کر دیا کہ مصری فوج کی موجودی میں بھی وہ واشنگٹن کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک سکتے ہیں۔ ایسے میں محترمہ نجلاء حکومتی امور میں اپنے میاں کا ہاتھ کیسے بٹائیں گی؟ جیسے سوالات پر متشوش ہونا راکھ ہوتے روم پر بانسری بجانے کے مترادف ہو گا۔