میڈیا کی ترجیحات
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا حکومت اور اپوزیشن کی ہر کمزوری کو جارحانہ انداز میں اجاگر کررہاہے.
HYDERABAD:
جدید دنیا میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ میڈیا اب اپنی اس روایتی پوزیشن سے نکل کر حقیقی معنوں میں ریاست کا چوتھا ستون بن گیا ہے۔ پسماندہ ملکوں میں بھی میڈیا بتدریج طاقت ور ہوتا جارہاہے۔
پاکستان میں 2007 سے پہلے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا حال ''ہر چند کہ ہیں نہیں ہیں'' جیسا تھا لیکن سابق فوجی آمر نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ الیکٹرانک میڈیا حکومتوں کے لیے سخت مشکلات پیدا کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے، الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے لیے نئے نئے چینلوں کے قیام کے لیے کھلی آزادی فراہم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک میڈیا ملک کا چوتھا طاقت ور ستون بن گیا۔ آج میڈیا کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ حکومتیں اس سے لرزہ براندام رہتی ہیں اور بڑے بڑے طرم خان حکمرانوں کی میڈیا کے نام پر ٹانگیں کانپنے لگ جاتی ہیں ۔ میڈیا کا روایتی کردار عوام تک اطلاعات (خبروں) کی رسائی ہے لیکن اب میڈیا نیوز کے احاطے سے نکل کر ویوز کی سرحدوں میں جارحانہ طریقوں سے داخل ہوگیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اپنی اس ناقابل تسخیر طاقت کا استعمال کس طرح کررہاہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میڈیا کی ترجیحات پر نظر ڈالنا ہوگا۔ اس حوالے سے اگر ہم الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اس کی پہلی ترجیح رائج الوقت سیاست نظر آتی ہے۔ ہر چینل کے ٹاک شوز میڈیا کی جان ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے ٹاک شوز سیاست کے مچھلی بازار بنے ہوئے ہیں۔
جہاں کے مہمانان گرامی کا سارا وقت، سارا زور بیان، ساری صلاحیتیں فریق مخالف پر کیچڑ اچھالنے اور الزام اور جوابی الزامات پر صرف ہوجاتا ہے، میڈیا کا یہ سب سے بڑا فورم ساس بہو کے جھگڑوں میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ چونکہ الیکٹرانک میڈیا کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہوگئی ہے اس لیے ٹاک شو عملاً عوام کے ذہنوں میں خدشات اور کنفیوژن پیدا کرنے اور سیاست سے بدظن کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا حکومت اور اپوزیشن کی ہر کمزوری کو جارحانہ انداز میں اجاگر کررہاہے جس کے نتیجے میں ان طبقات کی اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور اپنی کمزوریاں دور کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے تمام پروگرام مروجہ سیاست کے گرد ہی گھومتے ہیں جس کی دھجیاں میڈیا اڑا رہا ہے اور اس حقیقت سے میڈیا عوام کو آگاہ کررہاہے کہ موجودہ نظام ملک و ملت کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی مثبت ذمے داری ادا کرنے کا اہل نہیں ہے۔
جب یہ بات طے ہے کہ موجودہ نظام موجودہ طرز سیاست نہ ملک و ملت کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتا ہے نہ عوام کے مسائل حل کرنے کے قابل ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی نظام کے رکھوالوں اور پیروکاروں کو ہر ٹاک شو کا مرکزی کردار کیوں بنا رہا ہے؟ اگر حکومت کی کمزوریوں، خامیوں کا جائزہ لینا ہو تو ٹاک شوز میں ایسے غیر جانبدار مبصرین کو مدعو کرنا چاہیے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں سے کسی کے حامی نہ ہوں اور حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی کا غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن ایسے ''غیر جانبدار تجزیہ کار'' بھی بد قسمتی سے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں اور ایسے مبصر، ایسے تجزیہ کار آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتے ہیں جو اس پورے کرپٹ سسٹم کی جگہ عوام کے مفادات کے مطابق ایک بہتر نظام کو متعارف کرانے کے حق میں ہیں۔
موجودہ نظام سے عوام کی بیزاری اور نفرت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب طاہر القادری اور عمران خان چہروں کی تبدیلی کے بجائے نظام کی تبدیلی کے نعروں کے ساتھ باہر نکلے تو عوام ان کے پیچھے چل پڑا۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے اس تحریک کی بھرپور کوریج اور حوصلہ افزائی کی۔ لیکن بد قسمتی کی بات یہ رہی کہ طاہر القادری اور عمران خان نے نظام کی تبدیلی کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے۔
انھیں پس پشت ڈال دیا اور یا تو خالی خولی انقلاب کی باتیں کرتے رہے یا پھر اپنے مرکزی مطالبات نان ایشوز کو بناتے رہے مثلاً نواز شریف کے استعفیٰ اور 2013 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو ان اکابرین نے پہلی ترجیح بنالیا حالانکہ انقلاب یا نئے پاکستان سے محض نواز شریف کا استعفیٰ یا دھاندلی کی تحقیق کا کوئی ربط نہیں بنتا۔ اگرچہ میڈیا نے ان مطالبات کی خوب پبلسٹی کی لیکن چونکہ یہ مطالبات عوام کے مفادات اور ملک کے بہتر مستقبل سے ہم آہنگ نہ تھے اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ یہ بے اثر اور بے معنی ہوتے گئے اور آخر کار قادری اور عمران کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور اس غلطی یا حماقت کے نتیجے میں عوام کی بے پناہ اجتماعی طاقت رائیگاں گئی اور عوام میں ایک مایوسی پھیل گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ قادری اور عمران یا تو انقلاب اور نئے پاکستان کے معنوں ہی سے ناواقف ہیں یا پھر عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اگرچہ میڈیا یا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا کردار مثبت رہا ہے لیکن اگر ٹاک شوز میں سیاسی بروکروں اور حقائق سے نابلد تجزیہ کاروں کو بلانے کے بجائے انقلاب اور نئے پاکستان کا مطلب جاننے والوں کو آگے رکھا جاتا تو وہ تحریک کی خامیوں اور کمزوریوں کو اجاگر کرتے اور قادری اور عمران اپنی تحریکوں سے مخلص ہوتے تو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو درست کرلیتے یا پھر عوام میں ایکسپوز ہوجاتے۔
اس طرح عوام کی بے پناہ اجتماعی طاقت کا یوں زیاں نہ ہوتا۔ اس نقصان کی ذمے داری ہمارے میڈیا پر بھی اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی تبدیلیوں کے اصل لوازمات سے نا آشنا رہا اور سطحی تجزیہ کاروں کے بے بہرہ تجزیوں سے عوام کو کنفیوژ کرتا رہا۔
ایسے ملکوں میں جہاں حکمران اور اپوزیشن ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہوں اور بنیادی تبدیلیاں لانے والی طاقتیں موجود نہ ہوں یا بہت کمزور ہوں میڈیا پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نیوز کے ساتھ مثبت ویوز عوام تک پہنچائے۔ 2007 سے آج تک میڈیا کی ترجیحات عموماً کرنٹ پا لیٹکس رہی ہے۔ میڈیا حکمرانوں اور اپوزیشن کی کمزوریوں اور غلط کاریوں کو بے باکی کے ساتھ اجاگر کرتا رہا ہے لیکن اس ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ 67 سالہ استحصالی اور لوٹ مار کے سیٹ اپ کو توڑا جائے اور اس کے لیے ان عوامل کی نشان دہی ضروری ہے جو اس استحصالی سیٹ اپ کی حامی ہیں اور ان عوامل اور اقدامات کی نشان دہی ضروری ہے جو بڑی تبدیلیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ مثلاً ہماری اپوزیشن جو نام سے تو حکومت کی ولن بنی رہتی ہے لیکن حقیقت میں حکومت کی سب سے بڑی رکھوالی ہوتی ہے۔
اس کی حقیقت سے عوام کو واقف کرانا میڈیا میں بیٹھے ان اکابرین کا اصلی چہرہ عوام کو دکھانا جو حکومت کا بہت بڑا سہارا بنے ہوئے ہیں اور تبدیلیوں کے لوازمات کی نشان دہی مثلاً ہماری سیاسی اور جمہوری پیش رفت میں نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرنا، جمہوریت کو عوامی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات اور بلدیاتی انتخابات کو اولین ترجیح بنانا، جمہوریت کے نام پر ہمارے ملک میں جو خاندانی سیاست رائج ہے اس کو ٹارگٹ کرنا، اعلیٰ سطحی اربوں کی کرپشن کے خلاف رائے عامہ بیدار کرنا، ہمارے قانون اور انصاف کے امتیازی کارکردگی کو ایکسپوز کرنا، اگر میڈیا ان مسائل کو اپنی اولین ترجیح بنائے اور اپنے ٹاک شوز میں ان قومی مسائل کا ادراک رکھنے والوں کو آگے لائے تو میڈیا نہ صرف اپنی طاقت کا مثبت استعمال کرسکے گا بلکہ 67 سالہ لوٹ مار کے کلچر کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔