ہماری یونیورسٹیاں رینکنگ میں نیچے کیوں
تعلیم اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں،
حالیہ دنوں میں ایک امریکی ریسرچ ایجنسی کی طرف سے جاری کی گئی تحقیق میں دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور یہ بات ہم سب کے لیے انتہائی حیران کن ہے کہ ان 500 یونیورسٹیوں میں سے صرف ایک یونیورسٹی پاکستان کی ہے اور وہ ہے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی جس کا نمبر 496 ہے جب کہ ٹاپ ایشیائی یونیورسٹیوں میں یہ 89ویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست کے مطابق 5بھارتی یونیورسٹیاں ٹاپ 500 اداروں میں شامل ہیں۔
جن میں یونیورسٹی آف دہلی کا نمبر 316، انڈین انسٹیٹیوٹ سائنس بنگلور 323ویں نمبر پر، انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس ممبئی 405ویں نمبر پر جب کہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپور 484 ویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں 4ایرانی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں جن میں یونیورسٹی آف تہران 360 ویں نمبر پر، شریف انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی تہران 377ویں نمبر پر، اصفہان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور امیر کابر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی تہران دونوں 472 ویں نمبر پر ہیں، جو سعودی یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہیں ان میں کنگ سعود یونیورسٹی آف ریاض ،کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی آف جدہ اور کنگ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم دہران سب 473ویں نمبر پر ہیں۔
اگرچہ یہ تقابل دنیا کے کئی اور ملکوں کی یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ ہمیں حقیقت پسندی کے زیادہ قریب رکھتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کی نوجوان آبادی (15سے 29 سال کی عمر) کے لحاظ سے دنیا میں 95 ویں نمبر پر آتا ہے لہٰذا ان حقائق کی روشنی میں ہماری یونیورسٹیوں کی تنزلی پوری قوم کے لیے بالعموم اور ہمارے حکمرانوں کے لیے بالخصوص لمحہ فکریہ ہے، ملک کی آبادی میں کثیر تعداد میں نوجوانوں کی شمولیت پوری قوم کے لیے ایک بہترین اثاثہ ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس اثاثے کو صحیح طرح سے استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تعلیم اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں، کیوں کہ ہمارے حکمران ہمیشہ اپنی حکومتوں کو طول دینے میں مصروف رہے ہیں اور اس اہم شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے، ورلڈ فیکٹ بک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خواندگی (Literacy) کی شرح صرف 60 فی صد کے قریب ہے جب کہ نیپال میں یہ شرح 66 فی صد، سری لنکا میں 91.2 فی صد ، ایران میں 85 فی صد، جب کہ بھارت میں 73.8 فی صد ہے مالدیپ میں خواندگی 99 فی صد ہے، خطے میں صرف بھوٹان 52 فی صد اور بنگلہ دیش میں یہ شرح 59.8 فی صد کے ساتھ ہم سے نیچے ہیں۔ اس تمام افسوسناک صورت حال کے بارے میں ایک طویل بحث اور تجزیہ کیا جاسکتا ہے جس کو کسی اور وقت کے لیے موقوف کرتے ہیں۔ فی الحال ہماری بحث یونیورسٹیوں کے گرتے ہوئے معیار پر مرکوز ہے۔
اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے ہونہار طالب علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں جس سے ہماری ملکی یونیورسٹیوں پر ان کے عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ ان میں سے کئی طالب علم دیار غیر میں ہی اچھے مستقبل کی تلاش میں وہیں رہ جاتے ہیں اور اس طرح ہمارا ملک ان کی خدمات سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک سے کثیر زر مبادلہ ان کی تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے بھیجنا پڑتا ہے جس سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر پر یقینا بوجھ پڑتا ہے۔ اس طریقے سے بہت ساری بیرون یونیورسٹیوں نے اپنے ایکسٹرنل (External) پروگرامز بھی ملک میں شروع کررکھے ہیں جن میں ہر گزرتے روز کے ساتھ داخلوں اور رجسٹریشن میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے جو کہ ایک بار پھر ہمارے تعلیمی اداروں پر طلبا کے عدم اعتماد کا مظہر ہے، جہاں بھی دیکھیے غیر ملکی اداروں سے منسلک کالجوں اور یونیورسٹیوں اور حتیٰ کہ پیشہ ورانہ اکاؤنٹنگ کورسز میں بھی باہرکے اداروں کی ترقی صاف نظر آتی ہے۔
جس سے ہمارے قومی تعلیمی اداروں کی حیثیت بوجوہ اور بھی کمزور ہوتی جارہی ہے، دو سب سے بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز جن میں یونیورسٹی آف پنجاب اور کراچی یونیورسٹی شامل ہیں ہرگزرتے روز کے ساتھ اپنی افادیت کھوتی نظر آرہی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ایشیائی یونیورسٹیوں میں 244 ویںجب کہ پنجاب یونیورسٹی 248 ویں نمبر پر ہیں۔ جب کہ عالمی معیار کی یونیورسٹیوں میں ان اداروں کا قابل ذکر وجود ہی کہیں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم نمونے کے طور پر ان دو درسگاہوں کی حالت زار کا تجزیہ کرلیں تو آنکھیں کھول دینے کے لیے حقائق کافی ہوں گے۔
جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، ان میں قابل ذکر کوالیفائیڈ اساتذہ کی شدید کمی ، ریسرچ اور تحقیق کے لیے مناسب فنڈز اور وسائل کا مہیا نہ ہونا، لائبریری اور ہوسٹل کی سہولیات کے لیے مناسب رقم کا نہ ہونا، سلیبس کا بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر ان تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے طلبا ونگ جوکہ ان یونیورسٹیوں کی کارکردگی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے جب کہ دوسری طرف پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا تذکرہ کریں تو وہاں بھی صورت حال ناگفتہ بہ ہے کیوں کہ زیادہ تر اداروں کا کام صرف پیسے بنانا اور کاروبار کرنا ہے اور ان کا تعلیم کے مقصد سے کوسوں دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
اگر ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اگر اس مسئلے کو اپنے ٹاک شوز اور خبروں کا موضوع بنائیں تو یقینا ان یونیورسٹیوں کی حالت زار کو بہتر بنایاجاسکتا ہے اور ارباب اختیار کے کانوں پر جوں بھی رینگ سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں کی زوال پذیر کیفیت کا کون ذمے دار ہے؟ شاید کوئی بھی یہ ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں جب تک تعلیم ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔