مغرب کا اسلام کیخلاف متعصبانہ رویہ

مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متعصب رویہ، ہرزہ سرائی اور الزام تراشی آج کوئی نئی بات نہیں


[email protected]

مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متعصب رویہ، ہرزہ سرائی اور الزام تراشی آج کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ماضی کے مختلف ادوار میں بھی مغرب کا وطیرہ اور طرز عمل رہا ہے، گویا یہ افسانہ ہے بڑا پرانا! مغرب کی نظر میں اسلام اور مسلمان ہر دور میں بنیاد پرست، انتہا پسند، تنگ نظر اور دہشت گرد ہی رہے ہیں۔

حالانکہ دین اسلام اپنے نام کی مناسبت سے امن و سلامتی کا خواہاں اور آرزو مند ہے، ظہور اسلام سے تاحال پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا کبھی رونما نہیں ہوا جس کے سبب دنیا دین اسلام کو ایک انتہا پسند اور تنگ نظر مذہب کے طور پر ثابت کرسکے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام نے ہمیشہ بحیثیت امن پسند دین کے انتہا پسندی اور دہشت گردی و ناانصافی نیز ظلم و ستم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کیونکہ اسلام فساد کو قطعی برداشت نہیں کرتا اور اسے قتل سے بھی زیادہ شدید چیز اور ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔

لہٰذا انسانی جان کی عزت و حرمت کی ہی خاطر وہ فساد کا خاتمہ اور امن و امان کا فروغ چاہتا ہے۔ کیونکہ دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ایک بے گناہ انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو گویا تمام انسانوں کی جان بچانے کا عمل قرار دیتا ہے۔ لہٰذا انسانی جان کی حرمت آپ کو جتنی اس مذہب میں دکھائی دے گی دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آئے گی۔

ذرا سوچیے اور تصور کی آنکھ سے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل کے حالات کا نظارہ کیجیے، انتہا پسندی اور دہشت گردی کس قدر عروج پر تھی، حق تلفی و ناانصافی کس قدر عام تھی، انسانی جان کی حرمت ناپید ہوچکی تھی، قتل و غارت گری، ظلم و بربریت اور درندگی و حیوانیت کا دور دورہ تھا، انسانیت کے گلے میں غلامی کا طوق پڑا تھا غرض وہ کون سے عیب تھے جو اس معاشرے میں موجود نہ تھے۔ یہی تو وہ حالات تھے کہ جس کے سدباب اور اصلاح کی غرض سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحکم اللہ تعالیٰ تشریف لائے اور اس پرآشوب دنیا کو گل و گلزار بنا گئے۔ بھلا ایسا عظیم دین اور اس کے پیروکار خود دنیا کی تباہی و بربادی کا سبب اور ذمے دار کس طرح ہوسکتے ہیں؟ اسلام تو مساوات انسانی، احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا دین ہے اور حقوق، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔

یہ بات اور بھی زیادہ قابل افسوس ہے کہ دین اسلام کی مخالفت ہمیشہ اس کے عظیم اور ناقابل تردید نیز حیات جاودانی بخشنے والے نادر اصولوں کے سبب ہی نہیں بلکہ ہادی اعظم محسن انسانیت، رحمۃ اللعالمینؐ کی بے مثال و لازوال شخصیت سے عداوت کی بدولت بھی کی جاتی رہی ہے حالانکہ آپ ﷺ امن و سلامتی کے پیامبر ہیں اور آپ ﷺ نے جو انقلاب عظیم برپا فرمایا، وہ یقینا کسی دوسرے مذہب یا مذہبی رہنما کو آج تک نصیب نہ ہوسکا، آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ میں کوئی ایک پہلو بھی ایسا اختلاف کا نہیں ملتا جسے تنقید کا نشانہ بنانا تو دور کی بات ہے اس کے متعلق سوچا بھی جائے یہی وہ عظیم حقائق ہیں کہ جن پر باضمیر انسان ایمان لے آئے جب کہ بے ضمیر افراد بلاجواز طاغوتی قوتوں کے آلہ کار بنے اور راہ حق میں انھوں نے ہمیشہ کانٹے بچھائے اور روڑے اٹکائے۔

یہاں تک کہ ان کے مظالم، سازشیں جب حد سے بڑھ گئیں تب پھر بحکم الٰہی عمل کا ردعمل شروع ہوا اور اسلامی تعلیمات اور عظیم و حیات بخش اصولوں پر عمل پیرا ہوکر باطل کی سرکوبی اور حق کی بالادستی کے لیے قدم اٹھائے گئے، ان ہی حالات، تناظر اور پس منظر میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں امن و سلامتی کا پیغمبر ہوں اور میں جنگ کا پیغمبر ہوں یعنی یہ کہ آپ ﷺ حق کی راہ پر چلنے والوں کے لیے امن و سلامتی کے پیغمبر جب کہ باطل پرستوں کے لیے جنگ کے پیغمبر کے طور پر تشریف لائے۔

ماضی کی طرح آج بھی جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف واویلا اور پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سارا یورپ و مغرب عصر جدید کی صلیبی جنگ کی ابتدا کرچکا ہے، جس کا اقرار سابق صدر بش بھی ماضی قریب میں کرچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی 9 صلیبی جنگیں ہوئیں اس کی ابتدا میں بھی عیسائیوں نے ہی کردار ادا کیا تھا جو 1097ء سے شروع ہوکر 1291ء تک جاری رہی، یعنی دو سو سال تک یہ جنگیں ہوتی رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پوپ اربن ثانی نے 26 نومبر 1095ء کو مشرقی فرانس میں ایک تقریر کے دوران مسلمانوں کے خلاف ہرزہ رسائی کرتے ہوئے عیسائیوں کو جنگ پر اکسایا اور کہا کہ مسلمانوں کو یروشلم سے نکال دو جو ان کے خلاف جنگ میں حصہ لے گا اس کے سارے گناہ معاف کیے جائیں گے اور وہی جنت کا حقدار ہوگا۔

فلسطین کی سرزمین عیسائیوں کے لیے مقدس ہے، حالانکہ ساتویں صدی عیسویں سے یہ علاقہ مسلمانوں کی دسترس میں تھا اور عیسائی باشندوں کو ساری شہری مراعات بھی حاصل تھیں اور وہ باہم ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوکر برسوں سے رہ رہے تھے لیکن پوپ نے اشتعال انگیز تقریر کرکے ان میں تعصب و جارحیت پسندی کی تخم ریزی کردی پھر اس طرح صلیبی جنگوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، مگر ہر بار اللہ کی نصرت مسلمانوں کے ساتھ شامل حال رہی اور عیسائی دنیا کو ہر مرتبہ ذلت کے ساتھ ہزیمت اٹھانی پڑی۔

آج پھر وہی تاریخ کا باب کھلا نظر آرہا ہے مگر انداز مختلف ہے پہلے ڈنڈے، لاٹھی، تیر، تلواریں اور گھوڑے وغیرہ چلتے تھے اور اب گولی، گولے اور بارود کے دھماکے ہوتے ہیں اور ٹیکنالوجی سے بھرپور تیز رفتار جنگی طیارے اس تباہی و بربادی میں برق رفتار کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور اب بش کے بعد اوباما، رچرڈ شیردل کا کردار ادا کرتے ہوئے مسلمان ممالک کو دہشت گرد گردانتے ہوئے ان کے داخلی و خارجی معاملات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان کی زمینوں کو لالہ زار بنا رکھا ہے۔ اس پر اکتفا نہیں بلکہ شام اور ایران میں بھی صلیبی جنگوں کے متعین دستے ناسور کو چاٹنے کی گھات میں ہیں اور کشمیر و فلسطین و لبنان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بہرحال یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ عالم اسلام سلطان جیسی قیادت سے محرومی کے باوجود اپنے دامن میں ایسے گوہر نایاب رکھتا ہے جن کی بدولت مسلم امہ کا سر جرم ضعیفی کے باوجود، شجاعت مومن کی بدولت فخر سے بلند ہونے کے لیے کافی ہے، اور وہ سر کٹانا تو گوارہ کرسکتے ہیں لیکن اسے باطل طاغوتی قوتوں کے سامنے جھکانا اپنی ذلت کا سبب اور پوری امہ کی ناموس کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور ان کے سامنے شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے افضل و بہتر ہے، پس اگر عالم اسلام و مسلم امہ کی قیادت کا مسئلہ حل ہوجائے اور مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلیں تو یقینا پھر وہ دن دور نہیں کہ جب پورے عالم پر دوبارہ اسلام و مسلمانوں کی حکمرانی کا سورج طلوع ہو۔

آج مغرب یا یورپ کی جانب سے اسلام یا مسلمانوں پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو بے بنیاد الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی قطعی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ درحقیقت مسلمانوں کا ہر عمل، ردعمل ہے اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کے گھناؤنے اور قابل اعتراض و ظلم سے بھرپور عزائم و اعمال کا آج کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین اور جہاں جہاں مظلوم مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔

حالانکہ ایسے اقدامات فطری و قدرتی ہونے کے باوجود مشکل ہیں تاہم ناممکن تو نہیں ہیں؟ بہرحال اس کے بغیر پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کا تصور محال نظر آتا ہے اب بھی وقت ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کا جو خطرہ پیدا ہوچکا ہے اسے ٹالا جائے۔ بین التہذیبی و بین الثقافتی تقارب و ہم آہنگی کے امکانات کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا جائے۔ نا صرف امن بلکہ دائمی امن کے قیام کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ کیونکہ یہی پرامن بقائے باہمی کا بنیادی اور دائمی تقاضا ہے۔ بصورت دیگر عالمی امن کا تصور نا صرف محال بلکہ خواب پریشان کے سوا کچھ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں