ادھر بھی نظر کیجئے

مختلف نظامِ حکومت کے بارے میں واجبی سی بھی معلومات رکھنے والا شخص اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے


محمد جمال صدیقی January 27, 2015

یہ14 اگست1973ء کے بعد اور جولائی 1977ء سے پہلے کے درمیانی عرصے کا ذکر ہے۔ 1973ء کے متفقہ آئین کا نفاذ ہو چکا تھا۔ پارلیمانی نظامِ حکومت کے تحت صدرذوالفقارعلی بھٹو، وزیراعظم بھٹو بن چکے تھے۔ صدارت کا منصب کھاریاں سے تعلق رکھنے والے فضل الٰہی چوہدری سنبھال چکے تھے، جو پاکستان کے پانچویں صدر تھے اور ان کا عرصۂ صدارت14اگست1973ء تا 16 ستمبر1978ء رہا۔

مختلف نظامِ حکومت کے بارے میں واجبی سی بھی معلومات رکھنے والا شخص اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ پاکستان میں رائج پارلیمانی نظام میں صدر ملک کا سربراہ ہوتا ہے مگر تمام اختیار و اقتدار کا منبع وزیر اعظم ہوتا ہے اور صدر کی حیثیت ایک شوپیس سے زیادہ نہیں ہوتی مگر اسے کیا کہیے کہ تنقید برائے تنقید کے شوقین اور بھٹو مخالف جذبات رکھنے والے حضرات نے ان تمام حقائق سے آگہی کے باوجود فضل الٰہی چوہدری کو اُس تمام دور میں مذاق اور طنز کا نشانہ بنائے رکھا اور اس حوالے سے ایک لطیفہ گھڑ کر اس کی خوب خوب تشہیر کی گئی۔لطیفہ کچھ یوں تھا:

''اسلام آباد میں واقع ایوان صدر سے روزانہ رات کو چادر اوڑھے ایک شخص نمودار ہوتا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ ہوتا جس پر'' صدر کو رہا کرو'' کے الفاظ درج ہوتے۔ وہ شخص تھوڑی دیر یہ پلے کارڈ ہاتھ میں اٹھا کر خاموشی سے احتجاج کرتا اور پھر چپکے سے غائب ہو جاتا۔ لوگ اس شخص کو روزانہ احتجاج کرتے دیکھتے مگر کوئی بھی اس شخص کا چہرہ دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔بالآخر اِس راز سے پردہ اُس دن اٹھا جب ایک شخص نے قریب جاکر اُس احتجاج کرنے والے کی چادراچانک کھینچ لی۔ چادر ہٹتے ہی وہاں موجود تمام لوگوں کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ چادر کے اندر سے برآمد ہونے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ صدر فضل الٰہی چوہدری خود تھے۔''

اُس دورکے اختتام کے بعد سے ماضی قریب تک دو مواقعے ایسے آئے جب صدر کو لامحدود اختیارات حاصل رہے۔ پہلی مرتبہ ضیاء اور دوسری مرتبہ مشرف دور میں، کیونکہ ان دونوں ادوار میں جمہوریت کو پویلین کی راہ دکھائی گئی، پارلیمانی نظام کو بے وقعت کرنے کے لیے وزیراعظم کے اختیارات محدود اور صدر کو تمام تر طاقت اور اختیارات کے کیل کانٹوں سے لیس کر دیا گیا اور انھی ہتھیاروں میں سے ایک58 ٹو۔بی کے ہتھیار نے دو منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا۔

58ٹو۔بی کے خاتمے کے بعد صدر کی حیثیت وہی ہو گئی جو پارلیمانی نظام میں ہوا کرتی ہے۔ رہی سہی کسر صدر زرداری کے دور میں پوری ہو گئی جب انھوں نے صدر کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود مختلف ترامیم کے ذریعے خود کو حاصل تمام تراختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمنٹ کو واپس کر دیے۔ مخالفین لاکھ انکار کریں مگر بلاشبہ یہ سابق صدر آصف زرداری کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

بہرحال بات ہو رہی تھی پارلیمانی نظام میں صدر کے منصب کی۔موجودہ صدر مملکت نے وفاقی و صوبائی وزارتوں کی جانب سے ایوان صدر کے احکامات کی عدم تعمیل پر وزیراعظم سے شکوہ کیا جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام وفاقی و صوبائی وزارتوں کو ایک سرکلر کے ذریعے حکم دیا گیا کہ صدر کے احکامات کی فوری تعمیل کی جائے ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔ رولز آف بزنس کے تحت صدر ملک کا سربراہ ہونے کے ناتے ہر وزارت، ڈویژن و صوبائی اداروں کو قانون کے مطابق احکامات صادر کر سکتا ہے۔

موجودہ صدر ممنون حسین نے پاکستان کے12ویں صدر کی حیثیت سے 9ستمبر2013ء کو اپنا منصب سنبھالا۔ وہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت جب ان کے خاندان نے آگرہ سے (جو صدر صاحب کی جنم بھومی ہے)، سے پاکستان ہجرت کی تو ممنون صاحب کی عمر محض ساڑھے آٹھ سال تھی۔مسلم لیگ سے ان کی وابستگی کافی پرانی یعنی1967ء سے ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلم لیگ نواز کا دُور دُور تک نام ونشاں بھی نہ تھا۔

بہرحال مسلم لیگ نوازکی ملکی سیاست میں آمد کے بعد ممنون صاحب، نواز لیگ میں شامل ہوگئے۔ نواز لیگ میں قائم مقام صدرکے علاوہ وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور پھر سندھ کے گورنر کے منصب تک جا پہنچے۔صدر مملکت کے عہدے کے لیے نواز شریف کی نظرِ انتخاب ممنون صاحب پر پڑنے کی غالباً سب سے بڑی وجہ ان کے پائے استقامت میں لغزش کا نہ ہونا رہاکیونکہ جس دور میں نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے ستارے گردش میں تھے یا کرکٹ کی زبان میں یہ کہا جائے کہ ان پر بیڈ پیچ آیا ہوا تھا، ممنون حسین نے اعجاز الحق ، شیخ رشید اور اسی قبیل کے دوسروں کی طرح ابن الوقتی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے۔

جیساکہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مشرف کے دورِ حکومت کے اختتام کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام کی مکمل بحالی سے صدر کے اختیارات محدود ہو گئے اورموجودہ دور میں بھی صدرِ پاکستان کا ایک رسمی سا کردار ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ملک کے صدر کی حیثیت سے یقیناً ان کا نام لکھا جائے گا مگر تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے انھیں کوئی ایسا کام کرنا پڑے گا جس کا بھلے قانون سازی سے کوئی تعلق نہ ہو مگر وہ عوامی فلاح وبہبود کے پیمانے پر پورا اترتا ہو۔ممنون صاحب کراچی سے تعلق رکھتے ہیں جو اس وقت ایک مسائلستان کا روپ دھار چکا ہے اور بلدیاتی انتخابات کے نہ ہونے سے عوامی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے بعد ٹریفک کا بے ہنگم نظام، سرکلر ریلوے کا دوبارہ اجرا، ماس ٹرانزٹ کی تکمیل، ٹینکر مافیا کے ہاتھوں میٹھے پانی سے عوام کی محرومی، لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور... انگنت مسائل کراچی کے عوام سے جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ان تمام مسائل کے حل کے لیے بے پناہ وسائل اورایک لمبا عرصہ درکار ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان تمام مسائل کا حل کسی ایک پارٹی یا جماعت کے بس کی بات نہیں... لیکن اگر ممنون صاحب ان مسائل میں سے ایک، دو گمبھیر مسائل کو ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنے صوابدیدی اختیارات اور صوابدیدی فنڈ کے ذریعے وفاقی اداروں یا گورنر جو صدر کا نمایندہ ہوتا ہے، کے ذریعے حل کرنے کا بیڑہ اٹھا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی کے عوام اپنی زندگی میںکوئی مثبت تبدیلی محسوس نہ کریں۔اگر صدر صاحب اس طرف توجہ دیتے ہیں تو یقیناً وزیراعظم کی طرف سے بھی اس کا مثبت ہی جواب ملے گا کیونکہ اس طرح کراچی میں مسلم لیگ نواز کی ساکھ اور ووٹ بینک میںبھی اضافہ ہی ہوگا اور کراچی کے عوام حقیقی معنوں میں صدر ممنون کے ممنون ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں