طالب علم تحریک اور این ایس ایف پاکستان
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قائم ہونے کے ساتھ ہی جاگیرداروں اور وڈیروں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا
کسی بھی معاشرے کی قلبِ ماہیت میں نوجوانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے محنت کش طبقات کے عظیم راہ نما اور استاد کامریڈ ماؤزے تُنگ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا:
"The World is yours as well as ours, but in the last analysis it is yours. you young people full of vigor and vitality are in the bloom of life, like the sun of eight or nine in the morning. Our hope is placed on you. the world belongs to you.
پاکستان میں ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے بائیں بازو کی تحریک میں نوجوانوں نے ہر دور میں نہ صرف متحرک اور پُرجوش کردار ادا کیا، بلکہ اعلیٰ شعور اور بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ طویل جدوجہد اور شان دار قربانیوں سے عبارت ہے۔ این ایس ایف نے طلبا و طالبات کے فوری مسائل کے حل، مطالبات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تشکیلِ نو میں نوجوانوں کے بہترین کردار کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا تاریخی کردار نہایت ذمے داری کے ساتھ ادا کیا۔ اس کے ساتھ طالب علم تنظیم کی حیثیت سے شخصیت سازی کا فریضہ بھی اطمینان بخش طور پر انجام دیا، جس کے ثبوت کے طور پر آج قومی زندگی کے ہر شعبے میں این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے استفادہ کرنے والے افراد نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔
انگریز نے برصغیر میں ایسا نظام تعلیم متعارف کرایا جو صرف ان کے خدمتگار پیدا کرتا تھا۔ اس کے باوجود مقامی نوجوانوں نے پورے دور غلامی میں نجات کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طالبعلموں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی مفاہمانہ، سیاست کی بجائے کھل کر آزادی کی تحریک حمایت جاری رکھی۔
قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947 میں کراچی میں ایک تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ
"Our education should not only reflect our history and culture but also pay due heed to progressive thought and economic and scientific progress."ـ
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قائم ہونے کے ساتھ ہی جاگیرداروں اور وڈیروں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستانی عوام کو اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ لہٰذا نظامِ تعلیم کو جدید سائنسی اور ترقی پسند بنیادوں پر استوار کرنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور جدید نو آبادیاتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان میں فرسودہ نو آبادیاتی نظام تعلیم کو برقرار رکھا گیا۔ طالب علموں میں ترقی اور تبدیلی کی خواہش موجود رہی جس کے تحت انھوں نے روز اول سے ہی اپنی صلاحیتوں اور حالات کے مطابق اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنا شروع کیا۔
ترقی پسند طلبا نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی۔ کراچی میں ڈی ایس ایف 1950 میں قائم ہوئی۔ ڈاکٹر سرور اس کے پہلے صدر تھے۔ طالبعلم تحریک کے ابتدائی دور میں ڈاؤ میڈیکل کالج نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈی ایس ایف نے بہتر تعلیمی سہولتوں کے حصول کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا ۔اچھے کلاس رومز، لائبریریوں، لباریٹریوں، فیسوں میں کمی اور درسی کتب کی فراہمی کے مطالبات شامل تھے۔ 1952 تک طالب علم تحریک کے لیے فضا تیار ہوگئی تھی۔ 6،7 اور8 جنوری 1953 کو طالبعلموں نے اپنے مطالبات کے حق میں کراچی کی سڑکوں پر مارچ کیا اور جلوس نکالے۔ قومی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے ان سرگرمیوں کو اچھی جگہ دی۔
8 جنوری تحریک کے مطالبات :
7 جنوری 1953 کو وزیر تعلیم کی قیام گاہ پر زبردست مظاہرہ کرنے کے بعد ساڑھے 3بجے دوپہر طلباء کی مجلس عمل نے مندرجہ ذیل مطالبات وزیر تعلیم کے سامنے پیش کیے۔
1۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کی ایم بی بی ایس کی ڈگری تسلیم کی جائے۔
2۔ چھ ماہ کی یک مشت فیس جمع کرنے کے بجائے ایک ماہ کی فیس لی جائے۔
3۔ فیسوں میں 33 فیصد کمی کی جائے۔
4۔ تعلیم ادارے بڑھائے جائیں۔
5۔ اقامت گاہوںمیں اضافہ کیا جائے۔
6۔ اردو کالج اور اسلامیہ کالج میں رات کی کلاسوں کو بند کرنے کا حکم واپس لیا جائے۔
7۔ غریب اور مستحق طلبہ کو حکومت وظیفے اورمالی امداد دے۔
8۔ دستور میں ملک کے نوجوانوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔
9۔ فری اسکالرشپ پانے والے طالبعلموں سے یونیورسٹی کے امتحانات کی فیس نہ لی جائے۔
10۔ بورڈ اور یونیورسٹی کے عام امتحانات کے بعد ضمنی امتحانات کا طریقہ رائج کیا جائے۔
9 جنوری1953 کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر خواجہ ناظم الدین اور وزیرِ داخلہ مشتاق احمد گورمانی کے سامنے طلباء کی مجلس عمل نے مزید مطالبات پیش کیے جو دراصل 7 اور8 جنوری کے ہنگامی حالات سے پیدا ہوئے تھے۔
1۔کراچی کی انتظامیہ اپنی غلطیوں کی غیر مشروط طور پر معافی مانگے۔
2۔ شہر سے پولیس اور فوج کا پہرہ فوری طور پر اٹھا لیا جائے۔
3۔ طلبا کے پُر امن مظاہروں پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی عام تحقیقات کرائی جائے اور تحقیقاتی کمیٹی میں طلبا کے نمایندے بھی شامل کیے جائیں۔
4۔ تعلیم کی وزارت دوسری وزارتوں سے فوری طور پر الگ کردی جائے۔
5۔ تمام قیدکیے ہوئے طالب علموں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
6۔ شہیدوں کی لاشیں ان کے ورثا کے سپرد کی جائیں۔
7۔ شہدا کے عزیزوں اور زخم کھا کر بے کار ہونے والوں کو خوں بہا اور معاوضہ دیا جائے۔
8۔ چیف کمشنر کراچی مسٹر نقوی کے بیان کی مذمت کی جائے اور اسے واپس لیا جائے۔
9۔ طلبا کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔
اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین نے طالب علم رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلایا۔ وزیرِ تعلیم فضل الرحمن اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران بھی مذاکرات کے موقعے پر موجود تھے۔ مذاکرات کا افتتاح اس تاثر کے ساتھ ہوا کہ حکومت طالبعلموں کے مطالبات کو تسلیم کرتی ہے اور طالب علم رہنما خوشی کے ساتھ واپس ہوئے۔ لیکن اگلے روز کے اخبارات میں حکومت نے اس تاثر کو غلط قرار دے دیا۔ جس کے بعد طالب علموں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ حکمرانوں کے جھوٹ نے نوجوانوں کو بے قابو کردیا اور اس وقت کے دارالحکومت کراچی کی سڑکیں بپھرے ہوئے احتجاجی طالب علموں سے بھر گئیں۔ شہر کے پررونق علاقے صدر میں ایک وزیر کی گاڑی سمیت سرکاری املاک کو آگ لگانے اور توڑ پھوڑ کے واقعات ہوئے۔
پولیس نے اشتعال میں آکر طلبا پر آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ غصے سے بپھرے ہوئے ہجوم نے شراب کی دکانیں لوٹ لیں اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ جس کے ردعمل میں پولیس نے پیراڈائز سنیما صدر کے سامنے طالب علمو ںکے ایک گروپ پر گولی چلادی۔ زخمی طالبعلموں کی مدد کرنے والا ایک اسکاؤٹ'' نین سُکھ لعل'' موقعے پر ہلاک ہوگیا۔ واقعے میں مجموعی طور پر26 طلبا شہید ہوئے۔
حکومت کی اس بے رحمانہ کارروائی پر عوام بھی طیش میں آئے اور بڑیٰ تعداد میں عام شہری احتجاج میں شریک ہوئے۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، ٹریڈ یونینوں یہانتک کہ جماعتِ اسلامی نے بھی حکومتی ظلم کی مذمت کی۔ حکومت نے طلبا سے امن واپس لانے میں تعاون کرنے کی اپیل کی جس پر طلبا کے قائدین نے فراخدلی اور قومی جذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ لیکن حکومت نے اس خیر سگالی کا مثبت جواب دینے کے بجائے ڈی ایس ایف پر پابندی عائد کردی۔ اس کے ترجمان اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کو بند کردیا گیا۔ اور طالبعلم رہنماؤں کوجیل بھیج دیا۔ 8 جنوری پاکستان کی طالبعلم تحریک میں یومِ شہدا کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔8 جنوری تحریک کے شہید
1۔ حیدر علی بوہرا، عمر21 سال (شادی شدہ) طالب علم سال اول سائنس۔
2۔ غلام ربانی عمر12سال طالب علم ہائی اسکول
3۔ رفیق دادا عمر12 سال
4۔ سنکھ لال عمر15 سال طالب علم، بی وی ایس پارسی ہائی اسکول
5۔ ایک بنگالی طالب علم
6۔ ایک نو عمر جس کو پہچانا نہ جاسکا جس کے سینے اور پیٹ پر چار گولیاں لگیں
7۔ حفیظ اللہ اسکول کا طالب علم
دوسرے شہید
8۔ وہرا...ولیکا ملز
9۔ عبدالستار... سائیکل رکشہ والا
10۔ ایک پٹھان... جو اپنے چچا سے ملنے آیا تھا۔
11۔ نعمت اللہ... عمر23سال الفنسٹن ڈرائی کلیننگ کا ملازم
یہ شہید تو وہ ہیں جن کا پتہ چل سکا۔ باقی بعض ایسے لوگ بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جن کا نام پتہ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ بے شمار طلبا و غیر طلبا گولیوں ، لاٹھیوں اور آنسو گیس کے بموں سے زخمی بھی ہوئے۔
(جاری ہے)
"The World is yours as well as ours, but in the last analysis it is yours. you young people full of vigor and vitality are in the bloom of life, like the sun of eight or nine in the morning. Our hope is placed on you. the world belongs to you.
پاکستان میں ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے بائیں بازو کی تحریک میں نوجوانوں نے ہر دور میں نہ صرف متحرک اور پُرجوش کردار ادا کیا، بلکہ اعلیٰ شعور اور بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ طویل جدوجہد اور شان دار قربانیوں سے عبارت ہے۔ این ایس ایف نے طلبا و طالبات کے فوری مسائل کے حل، مطالبات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تشکیلِ نو میں نوجوانوں کے بہترین کردار کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا تاریخی کردار نہایت ذمے داری کے ساتھ ادا کیا۔ اس کے ساتھ طالب علم تنظیم کی حیثیت سے شخصیت سازی کا فریضہ بھی اطمینان بخش طور پر انجام دیا، جس کے ثبوت کے طور پر آج قومی زندگی کے ہر شعبے میں این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے استفادہ کرنے والے افراد نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔
انگریز نے برصغیر میں ایسا نظام تعلیم متعارف کرایا جو صرف ان کے خدمتگار پیدا کرتا تھا۔ اس کے باوجود مقامی نوجوانوں نے پورے دور غلامی میں نجات کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طالبعلموں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی مفاہمانہ، سیاست کی بجائے کھل کر آزادی کی تحریک حمایت جاری رکھی۔
قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947 میں کراچی میں ایک تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ
"Our education should not only reflect our history and culture but also pay due heed to progressive thought and economic and scientific progress."ـ
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قائم ہونے کے ساتھ ہی جاگیرداروں اور وڈیروں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستانی عوام کو اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ لہٰذا نظامِ تعلیم کو جدید سائنسی اور ترقی پسند بنیادوں پر استوار کرنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور جدید نو آبادیاتی ریاست کی حیثیت سے پاکستان میں فرسودہ نو آبادیاتی نظام تعلیم کو برقرار رکھا گیا۔ طالب علموں میں ترقی اور تبدیلی کی خواہش موجود رہی جس کے تحت انھوں نے روز اول سے ہی اپنی صلاحیتوں اور حالات کے مطابق اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنا شروع کیا۔
ترقی پسند طلبا نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی۔ کراچی میں ڈی ایس ایف 1950 میں قائم ہوئی۔ ڈاکٹر سرور اس کے پہلے صدر تھے۔ طالبعلم تحریک کے ابتدائی دور میں ڈاؤ میڈیکل کالج نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈی ایس ایف نے بہتر تعلیمی سہولتوں کے حصول کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا ۔اچھے کلاس رومز، لائبریریوں، لباریٹریوں، فیسوں میں کمی اور درسی کتب کی فراہمی کے مطالبات شامل تھے۔ 1952 تک طالب علم تحریک کے لیے فضا تیار ہوگئی تھی۔ 6،7 اور8 جنوری 1953 کو طالبعلموں نے اپنے مطالبات کے حق میں کراچی کی سڑکوں پر مارچ کیا اور جلوس نکالے۔ قومی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے ان سرگرمیوں کو اچھی جگہ دی۔
8 جنوری تحریک کے مطالبات :
7 جنوری 1953 کو وزیر تعلیم کی قیام گاہ پر زبردست مظاہرہ کرنے کے بعد ساڑھے 3بجے دوپہر طلباء کی مجلس عمل نے مندرجہ ذیل مطالبات وزیر تعلیم کے سامنے پیش کیے۔
1۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کی ایم بی بی ایس کی ڈگری تسلیم کی جائے۔
2۔ چھ ماہ کی یک مشت فیس جمع کرنے کے بجائے ایک ماہ کی فیس لی جائے۔
3۔ فیسوں میں 33 فیصد کمی کی جائے۔
4۔ تعلیم ادارے بڑھائے جائیں۔
5۔ اقامت گاہوںمیں اضافہ کیا جائے۔
6۔ اردو کالج اور اسلامیہ کالج میں رات کی کلاسوں کو بند کرنے کا حکم واپس لیا جائے۔
7۔ غریب اور مستحق طلبہ کو حکومت وظیفے اورمالی امداد دے۔
8۔ دستور میں ملک کے نوجوانوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔
9۔ فری اسکالرشپ پانے والے طالبعلموں سے یونیورسٹی کے امتحانات کی فیس نہ لی جائے۔
10۔ بورڈ اور یونیورسٹی کے عام امتحانات کے بعد ضمنی امتحانات کا طریقہ رائج کیا جائے۔
9 جنوری1953 کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر خواجہ ناظم الدین اور وزیرِ داخلہ مشتاق احمد گورمانی کے سامنے طلباء کی مجلس عمل نے مزید مطالبات پیش کیے جو دراصل 7 اور8 جنوری کے ہنگامی حالات سے پیدا ہوئے تھے۔
1۔کراچی کی انتظامیہ اپنی غلطیوں کی غیر مشروط طور پر معافی مانگے۔
2۔ شہر سے پولیس اور فوج کا پہرہ فوری طور پر اٹھا لیا جائے۔
3۔ طلبا کے پُر امن مظاہروں پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی عام تحقیقات کرائی جائے اور تحقیقاتی کمیٹی میں طلبا کے نمایندے بھی شامل کیے جائیں۔
4۔ تعلیم کی وزارت دوسری وزارتوں سے فوری طور پر الگ کردی جائے۔
5۔ تمام قیدکیے ہوئے طالب علموں کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
6۔ شہیدوں کی لاشیں ان کے ورثا کے سپرد کی جائیں۔
7۔ شہدا کے عزیزوں اور زخم کھا کر بے کار ہونے والوں کو خوں بہا اور معاوضہ دیا جائے۔
8۔ چیف کمشنر کراچی مسٹر نقوی کے بیان کی مذمت کی جائے اور اسے واپس لیا جائے۔
9۔ طلبا کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔
اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین نے طالب علم رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلایا۔ وزیرِ تعلیم فضل الرحمن اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران بھی مذاکرات کے موقعے پر موجود تھے۔ مذاکرات کا افتتاح اس تاثر کے ساتھ ہوا کہ حکومت طالبعلموں کے مطالبات کو تسلیم کرتی ہے اور طالب علم رہنما خوشی کے ساتھ واپس ہوئے۔ لیکن اگلے روز کے اخبارات میں حکومت نے اس تاثر کو غلط قرار دے دیا۔ جس کے بعد طالب علموں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ حکمرانوں کے جھوٹ نے نوجوانوں کو بے قابو کردیا اور اس وقت کے دارالحکومت کراچی کی سڑکیں بپھرے ہوئے احتجاجی طالب علموں سے بھر گئیں۔ شہر کے پررونق علاقے صدر میں ایک وزیر کی گاڑی سمیت سرکاری املاک کو آگ لگانے اور توڑ پھوڑ کے واقعات ہوئے۔
پولیس نے اشتعال میں آکر طلبا پر آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ غصے سے بپھرے ہوئے ہجوم نے شراب کی دکانیں لوٹ لیں اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ جس کے ردعمل میں پولیس نے پیراڈائز سنیما صدر کے سامنے طالب علمو ںکے ایک گروپ پر گولی چلادی۔ زخمی طالبعلموں کی مدد کرنے والا ایک اسکاؤٹ'' نین سُکھ لعل'' موقعے پر ہلاک ہوگیا۔ واقعے میں مجموعی طور پر26 طلبا شہید ہوئے۔
حکومت کی اس بے رحمانہ کارروائی پر عوام بھی طیش میں آئے اور بڑیٰ تعداد میں عام شہری احتجاج میں شریک ہوئے۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، ٹریڈ یونینوں یہانتک کہ جماعتِ اسلامی نے بھی حکومتی ظلم کی مذمت کی۔ حکومت نے طلبا سے امن واپس لانے میں تعاون کرنے کی اپیل کی جس پر طلبا کے قائدین نے فراخدلی اور قومی جذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ لیکن حکومت نے اس خیر سگالی کا مثبت جواب دینے کے بجائے ڈی ایس ایف پر پابندی عائد کردی۔ اس کے ترجمان اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کو بند کردیا گیا۔ اور طالبعلم رہنماؤں کوجیل بھیج دیا۔ 8 جنوری پاکستان کی طالبعلم تحریک میں یومِ شہدا کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔8 جنوری تحریک کے شہید
1۔ حیدر علی بوہرا، عمر21 سال (شادی شدہ) طالب علم سال اول سائنس۔
2۔ غلام ربانی عمر12سال طالب علم ہائی اسکول
3۔ رفیق دادا عمر12 سال
4۔ سنکھ لال عمر15 سال طالب علم، بی وی ایس پارسی ہائی اسکول
5۔ ایک بنگالی طالب علم
6۔ ایک نو عمر جس کو پہچانا نہ جاسکا جس کے سینے اور پیٹ پر چار گولیاں لگیں
7۔ حفیظ اللہ اسکول کا طالب علم
دوسرے شہید
8۔ وہرا...ولیکا ملز
9۔ عبدالستار... سائیکل رکشہ والا
10۔ ایک پٹھان... جو اپنے چچا سے ملنے آیا تھا۔
11۔ نعمت اللہ... عمر23سال الفنسٹن ڈرائی کلیننگ کا ملازم
یہ شہید تو وہ ہیں جن کا پتہ چل سکا۔ باقی بعض ایسے لوگ بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جن کا نام پتہ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ بے شمار طلبا و غیر طلبا گولیوں ، لاٹھیوں اور آنسو گیس کے بموں سے زخمی بھی ہوئے۔
(جاری ہے)