کیا جنسی زیادتی کے واقعات پر طنز و مزاح مناسب ہے

سماجی برائیوں کو گھٹیا انداز میں محض دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے استعمال کرنا صرف غلط ہی نہیں بلکہ قابلِ مذمت ہے۔


نور پامیری January 27, 2015
سماجی برائیوں کو سیاسی طور پر گھٹیا انداز میں محض دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرنا صرف غلط ہی نہیں بلکہ قابلِ مذمت ہے۔ فوٹو رائٹرز

سوال یہ نہیں کہ ہندوستان 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے طور پر کیوں مناتا ہے یا پھر امریکی صدر اوباما پاکستان کیوں نہیں آئے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ اوباما کی آمد اور بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہم میں سے بہت سارے لوگوں کی حساسیت اور انسانیت کہاں گھاس چرنے چلی گئی؟

ہندوستان کے یوم جمہوریہ (ری پبلک ڈے) کے موقع پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ہیش ٹیگ ''ٹرینڈ '' کررہا تھا، جس میں ہندوستان کو ری پبلک ڈے کے بجائے ''ریپ پبلک ڈے'' کی طنزاً مبارکبادیں دی جارہی تھیں اور بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کو سیاسی مقاصد کے لئے اچھالا جا رہا تھا۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ ٹوئٹر ٹرینڈ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ جنسی زیادتی جیسے ہولناک اور انسان سوز جرم کے بارے میں طنز اور مذاق کرکے یہ ٹرینڈ بنانے والے افراد اس معاملے کی گھمبیرتا اور حساسیت سے نابلدی کا ثبوت دے رہے ہیں اور شاید بغیر سوچے سمجھے اس اہم سماجی مسئلے کو معمولی بنا کر پیش کررہے ہیں۔

یہاں میں اِس بات سے انکاری نہیں کہ آئے روز ہندوستان میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے دلخراش واقعات رونما ہورہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے ممالک میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں نہیں ہورہی ہیں؟ اور اگر یہ سماجی ناسور ہر ملک میں موجود ہیں تو پھر اس انتہائی حساس معاملے پر طنز و مزاح کیوں؟ ہیش ٹیگ دیکھ کر مجھے سخت کوفت محسوس ہورہی تھی کیونکہ میرے خیال میں انسانی سماجی برائیوں کو سیاسی طور پر گھٹیا انداز میں محض دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرنا صرف غلط ہی نہیں بلکہ قابلِ مذمت ہے۔



فوٹو؛ اے ایف پی

پھر مجھے خیال آیا کہ اس ٹوئٹر ٹرینڈ اور موضوع کے بارے انٹرنیٹ پر مزید پڑھوں تاکہ حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ گوگل نے مجھے ایک ایسے فیس بک پیج پر پہنچا دیا جہاں ہندو نام رکھنے والے کچھ خواتین و حضرات نے سال 2013 میں ریپ پبلک ڈے کی اصطلاح استعمال کی تھی اور لوگوں کو یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کرنے کی صلاح دی تھی۔ یہ فیس بک پیج دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ نہ تو یہ اصطلاح نئی ہے اور نہ ہی یوم جمہوریہ منانے کی مخالفت۔ پیج بنانے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ جس آئین کی شان بڑھانے اور قصیدے گانے کے لئے یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے وہ آئین ملک میں خواتین کو ان کا مقام دلانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس لئے طمطراق سے یومِ جمہوریہ منانے کا مقصد فوت ہوچکاہے۔ اس پیج کو جوائن کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اس کے بنانے والوں نے ایک الگ زاویہ دکھا کر ری پبلک ڈے منانے اور ترقی کے حوالے سے ڈینگیاں مارنے والوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ضرور کردیا۔

اس حوالے سے مزید پڑھنے کے لئے دوبارہ انٹرنیٹ کا رخ کیا اور پڑھتے پڑھتے ایک اور لنک پر پہنچا، جہاں بھارتی وزارتِ داخلہ کے ذیلی ادارے (نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو) نے اعداد وشمار کے حوالے سے کہا ہے کہ صرف سال 2013 میں 33,707 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ تجزیہ کاروں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس حساب سے بھارت میں ہر 22 منٹ میں ایک عورت جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہے۔ جنسی درندگی کے شکار زیادہ افراد کی عمر 16 سے 18 سال ہے جبکہ 18 سے 30 سال تک کی خواتین بھی بڑی تعداد میں جنسی درندوں کا شکار بن جاتی ہیں ۔

انڈیا ٹوڈے نامی اخبار نے جولائی 2014 کے ایک رپورٹ نے این سی آرڈی کے مہیا کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر کہا ہے کہ بھارت میں ہر روز 93 خواتین ریپ کا شکار ہوجاتی ہیں اور یہ کہ سال 2012 کی نسبت 2013 میں ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد 24,923 سے بڑھ کر 33,707 ہوگئی ہے۔ اسی ادارے نے تخمینہ لگایا ہے کہ سال 2010 سے اب تک ریپ واقعات کی شرح میں سات اعشاریہ ایک فیصداضافہ ہوا ہے۔



فوٹو؛ آئی بی این

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت اس گھناونے فعل کی بیخ کنی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قوانین، بلکہ بہت سخت قوانین بنے ہیں اور بہت ساروں کو سزائیں بھی مل رہی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود جرائم میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ لیکن اس گھمبیر صورتحال میں امید کی ایک کرن یہ ہے کہ بھارت کے مختلف شہروں میں ریپ کے واقعات کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے اور وہاں کی سول سوسائٹی نے حکومت اور ریاست کو اس حوالے سے موثر کردار ادا کرنے پر مجبورکرنے کی کوشش کی۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان اپنی ایک ارب سے زیادہ آبادی کے باوجود ریپ کے ہولناک جرائم کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر نہیں ہے۔ نسبتاً کم آبادی رکھنے والے ممالک، مثلاً امریکہ، سویڈن، ساؤتھ افریقہ اور دیگر میں انڈیا کی نسبت زیادہ خواتین ہر سال جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اور حقائق انتہائی تکلیف دہ ہیں، کیونکہ ان کے پیچھے ہمارے جیسے ہزاروں انسانوں کی ان گنت کربناک کہانیاں چھپی ہیں۔ اسی لئے دانشمندی اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ اس تکلیف دہ سماجی برائی کے حوالے سے کوئی بھی بیان جاری کرنے یا رائے کا اظہار کرنے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم صرف اعداد و شمار کا ذکر نہیں کررہے بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کے بارے میں بات کررہے ہیں جو جنسی درندوں کے ہاتھوں اذیت اُٹھاتے ہیں اور بعض اوقات تشدد کی وجہ سے موت کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔

یہ افسوسناک امر ہے کہ ہمارا رویہ مجموعی طور پر ایسا ہے کہ ہم لوگوں پر طنز تو کرتے ہیں لیکن نہ خود اپنی حرکتوں سے باز آتے ہیں اور نہ عملی طور پر ریپ کے شکار فرد کی کسی طور مدد کرتے ہیں۔ میری رائے میں ہمارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں ریپ کے واقعات کی نشاندہی کرنے اور ان پر طنز کرنے کے بجائے ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے ممالک اور معاشروں میں اصلاح احوال کی سعی کرنی چاہیئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے