نقصان امریکا کو ہی ہوگا
اوبامہ کا دورہ بھارت مکمل تجارتی دورہ ہے، اس سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
امریکی صدر باراک اوباما کا دورۂ ہندوستان کچھ پاکستانی چینلز پر اس طرح دکھایا گیا کہ گمان ہوتا تھا کہ امریکی صدر ہندوستان کی بجائے پاکستان آئے ہوئے ہیں، ایک دفعہ تو ایسا لگا کہ شاید غلطی سے میں نے کوئی ہندوستانی نیوز چینل لگا لیا ہو مگر تھوری ہی دیر میں میرا گمان غلط ثابت ہوگیا۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر امریکی صدر بھارت کے بجائے دورہ پاکستان پر تشریف لاتے تو کیا بھارتی میڈیا بھی اس قسم کی'اندھا دھند' کوریج کرتا؟ شاید بالکل نہیں! تو پاکستانی میڈیا کیوں ہر معاملے میں 'پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ' کی طرح گھس جاتا ہے؟
پاکستانی، اپنے میڈیا کے بارے میں 'پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ' کے مصداق ہیں لیکن میڈیا نے بھی 'جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے' کا محاورہ اَزبر کیا ہوا ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں، میڈیا بھی شاید 'جمہوریت' کی طرح آہستہ آہستہ اپنی ڈگر پر آ ہی جائے۔
امریکی صدر کے دورۂ ہندوستان اور دونوں ملکوں کے مابین سول نیوکلئیرٹیکنالوجی کے معاہدے کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ روس سے تو پاکستان کے تعلقات پہلے ہی خراب ہیں لیکن اب شاید پاکستان کے ہاتھ سے امریکہ بھی نکل گیا ہے اور وہ بین الاقوامی طور پر تنہا رہ گیا ہے کیونکہ پاکستان کی سفارتکاری تو پہلے ہی بہت کمزور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میری رائے اس سے مختلف ہے!
پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان پہلے بھی سول نیوکلئرٹیکنالوجی معاہدہ ہوا تھا مگر امریکی کانگریس نے اسے مسترد کردیا تھا، اوباما پہلے بھی ہندوستان میں 'ڈانس 'تک کرکے واپس گئے تھے لیکن پاکستان سے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا، امریکہ کی نظر دراصل ہندوستان کے فارن کرنسی ریزرو 300 بلین ڈالرز پر ہے اور یہ دورہ اسی لئے ہے اور مودی، اوباما سے 'جپھیاں' ڈال رہے ہیں، انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کردے رہے ہیں صرف اسلئے کہ دنیا اور بالخصوص پاکستان کو یہ باور کراسکیں کہ امریکہ سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔
رہی بات سول نیوکلئرٹیکنالوجی کی تو اس کے پیچھے بھی دراصل یہی بات ہے کہ ہندوستان نے ٹیکنالوجی ہر صورت لینی ہے تو امریکہ کیوں یہ نادر موقع اپنے ہاتھ سے جانے دے گا کہ ہندوستان کسی اور سے یہ ٹیکنالوجی خریدے اور وہ فارن کرنسی ریزرو ہاتھ سے جائیں؟ اس لیئے یہ ایک مکمل تجارتی دورہ ہے، اس سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
لیکن دوسری طرف اگر لوگوں کا یہ خیال مان بھی لیا جائے کہ امریکی صدر کے دورہ بھارت سے پاکستان الگ ہوگیا ہے تو اُن لوگوں سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ خطے میں دو طاقتور ممالک اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہیں جن کو لوگ چین اور روس کے نام سے جانتے ہیں۔
اب پاک چین تعلقات سے کون واقف نہیں؟ ہمارا ایسا دوست جس نے ہر سطح پر کُھل کر ہماری مددوحمایت کی ہے۔ ابھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین کے دورے پر ہیں اور جلد ہی چینی وزیرِ اعظم بھی پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاکستان نے صرف چین کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر ایک واضح پالیسی اپنا رکھی ہے جو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے کتنے برادرانہ تعلقات ہیں چین سے لیکن باقی تمام ممالک کے بارے میں جان بوجھ کرسفارتی سطح پر ایک غیرواضح پالیسی اپنائی ہوئی ہے تاکہ کوئی اصل بات تک نہ پہنچ سکے اور اسی لئے یہ کچھ غلط اندازے قائم کئے گئے ہیں کہ پاکستان ڈپلومیسی میں کمزور ہے حالانکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔
رہ گئی روس کی بات تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2014میں وزیر دفاع ایڈمرل چِرکوف جو روسی نیوی کے سربراہ بھی ہیں نے براستہ کراچی، پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا اور وزیرِ دفاع اور پاکستانی ملٹری قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ دورہ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق نہایت کامیاب رہا۔ ظاہر ہے کچھ معاہدات بھی ہوئے ہونگے جو منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔ یہ دورہ پاک روس تعلقات میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
7 دسمبر2014 کو امریکہ نے TTP کمانڈر لطیف اللہ محسود کوافغان انٹیلی جنس سے لے کر پاکستان کے حوالے کیاجو کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر چھاپہ مار کر پاک افغان بارڈر سے پکڑا گیا تھا، اس کو افغان انٹیلی جنس اپنے ساتھ کابل لے جا رہی تھی اور اب امریکہ نے ملّا فضل اللہ کو بھی زندہ یا مردہ پاکستان کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ سب باتیں ایک اچھے پاک امریکہ تعلق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
جون 2014 جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 26ویں اجلاس میں پاکستان کی طرف سے سفیرجناب ضمیر اکرم نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس کی امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مخالفت کی جبکہ چین، روس، ایران، سعودی عرب، ترکی اور بیشتر یورپی ممالک سمیت 120ملکوں نے پاکستانی مؤقف کی حمایت کی اور وہ قرارداد منظور ہوگئی اور یہ پاکستانی بہترین سفارتکاری کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔
پاکستانی سفارتکار انتہائی قابل اور بین الاقوامی سطح پر اپنا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر نہیں بلکہ حکومتی اور سیاسی سطح پر بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فارن ڈپلومیسی اپنا فرض نہایت احسن انداز میں ادا کررہی ہے مگرڈیموکریسی کچھ نہیں کرپارہی۔ اس کو بہت زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے،لہٰذا یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ جائے گا۔
آخر میں ایک پھر یہ بات کہنا چاہوں گا کیونکہ پہلے بھی یہ باتیں کہیں اور لکھی جاچکی ہیں کہ اگر امریکا نے اپنے قبلہ کا رُخ بھارت کی طرف کرلیا تو اِس کا نقصان صرف امریکا کو ہی ہوگا کیونکہ اِس طرح وہ اپنے باقی تمام راستے بند کرلیگا ۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ دوستی نہ تو پاکستان برداشت کریگا، نہ چین اور نہ ہی روس۔ اور خطے کے تین بڑے اسٹیک ہولڈرز سے ناراضگی بہرحال کم از کم امریکا کے لیے تو بہت نقصان کا سبب بنے گی اور مجھے اُمید ہے کہ امریکا ایسا کرتے ہوئے دس بار نہیں سو بار سوچے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر امریکی صدر بھارت کے بجائے دورہ پاکستان پر تشریف لاتے تو کیا بھارتی میڈیا بھی اس قسم کی'اندھا دھند' کوریج کرتا؟ شاید بالکل نہیں! تو پاکستانی میڈیا کیوں ہر معاملے میں 'پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ' کی طرح گھس جاتا ہے؟
پاکستانی، اپنے میڈیا کے بارے میں 'پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ' کے مصداق ہیں لیکن میڈیا نے بھی 'جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے' کا محاورہ اَزبر کیا ہوا ہے۔ چلیں کوئی بات نہیں، میڈیا بھی شاید 'جمہوریت' کی طرح آہستہ آہستہ اپنی ڈگر پر آ ہی جائے۔
امریکی صدر کے دورۂ ہندوستان اور دونوں ملکوں کے مابین سول نیوکلئیرٹیکنالوجی کے معاہدے کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ روس سے تو پاکستان کے تعلقات پہلے ہی خراب ہیں لیکن اب شاید پاکستان کے ہاتھ سے امریکہ بھی نکل گیا ہے اور وہ بین الاقوامی طور پر تنہا رہ گیا ہے کیونکہ پاکستان کی سفارتکاری تو پہلے ہی بہت کمزور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میری رائے اس سے مختلف ہے!
پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان پہلے بھی سول نیوکلئرٹیکنالوجی معاہدہ ہوا تھا مگر امریکی کانگریس نے اسے مسترد کردیا تھا، اوباما پہلے بھی ہندوستان میں 'ڈانس 'تک کرکے واپس گئے تھے لیکن پاکستان سے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا، امریکہ کی نظر دراصل ہندوستان کے فارن کرنسی ریزرو 300 بلین ڈالرز پر ہے اور یہ دورہ اسی لئے ہے اور مودی، اوباما سے 'جپھیاں' ڈال رہے ہیں، انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کردے رہے ہیں صرف اسلئے کہ دنیا اور بالخصوص پاکستان کو یہ باور کراسکیں کہ امریکہ سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔
رہی بات سول نیوکلئرٹیکنالوجی کی تو اس کے پیچھے بھی دراصل یہی بات ہے کہ ہندوستان نے ٹیکنالوجی ہر صورت لینی ہے تو امریکہ کیوں یہ نادر موقع اپنے ہاتھ سے جانے دے گا کہ ہندوستان کسی اور سے یہ ٹیکنالوجی خریدے اور وہ فارن کرنسی ریزرو ہاتھ سے جائیں؟ اس لیئے یہ ایک مکمل تجارتی دورہ ہے، اس سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
لیکن دوسری طرف اگر لوگوں کا یہ خیال مان بھی لیا جائے کہ امریکی صدر کے دورہ بھارت سے پاکستان الگ ہوگیا ہے تو اُن لوگوں سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ خطے میں دو طاقتور ممالک اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہیں جن کو لوگ چین اور روس کے نام سے جانتے ہیں۔
اب پاک چین تعلقات سے کون واقف نہیں؟ ہمارا ایسا دوست جس نے ہر سطح پر کُھل کر ہماری مددوحمایت کی ہے۔ ابھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین کے دورے پر ہیں اور جلد ہی چینی وزیرِ اعظم بھی پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاکستان نے صرف چین کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر ایک واضح پالیسی اپنا رکھی ہے جو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے کتنے برادرانہ تعلقات ہیں چین سے لیکن باقی تمام ممالک کے بارے میں جان بوجھ کرسفارتی سطح پر ایک غیرواضح پالیسی اپنائی ہوئی ہے تاکہ کوئی اصل بات تک نہ پہنچ سکے اور اسی لئے یہ کچھ غلط اندازے قائم کئے گئے ہیں کہ پاکستان ڈپلومیسی میں کمزور ہے حالانکہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔
رہ گئی روس کی بات تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2014میں وزیر دفاع ایڈمرل چِرکوف جو روسی نیوی کے سربراہ بھی ہیں نے براستہ کراچی، پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا اور وزیرِ دفاع اور پاکستانی ملٹری قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ دورہ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق نہایت کامیاب رہا۔ ظاہر ہے کچھ معاہدات بھی ہوئے ہونگے جو منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔ یہ دورہ پاک روس تعلقات میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
7 دسمبر2014 کو امریکہ نے TTP کمانڈر لطیف اللہ محسود کوافغان انٹیلی جنس سے لے کر پاکستان کے حوالے کیاجو کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاع پر چھاپہ مار کر پاک افغان بارڈر سے پکڑا گیا تھا، اس کو افغان انٹیلی جنس اپنے ساتھ کابل لے جا رہی تھی اور اب امریکہ نے ملّا فضل اللہ کو بھی زندہ یا مردہ پاکستان کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ سب باتیں ایک اچھے پاک امریکہ تعلق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
جون 2014 جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 26ویں اجلاس میں پاکستان کی طرف سے سفیرجناب ضمیر اکرم نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس کی امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مخالفت کی جبکہ چین، روس، ایران، سعودی عرب، ترکی اور بیشتر یورپی ممالک سمیت 120ملکوں نے پاکستانی مؤقف کی حمایت کی اور وہ قرارداد منظور ہوگئی اور یہ پاکستانی بہترین سفارتکاری کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔
پاکستانی سفارتکار انتہائی قابل اور بین الاقوامی سطح پر اپنا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر نہیں بلکہ حکومتی اور سیاسی سطح پر بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فارن ڈپلومیسی اپنا فرض نہایت احسن انداز میں ادا کررہی ہے مگرڈیموکریسی کچھ نہیں کرپارہی۔ اس کو بہت زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے،لہٰذا یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہا رہ جائے گا۔
آخر میں ایک پھر یہ بات کہنا چاہوں گا کیونکہ پہلے بھی یہ باتیں کہیں اور لکھی جاچکی ہیں کہ اگر امریکا نے اپنے قبلہ کا رُخ بھارت کی طرف کرلیا تو اِس کا نقصان صرف امریکا کو ہی ہوگا کیونکہ اِس طرح وہ اپنے باقی تمام راستے بند کرلیگا ۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ دوستی نہ تو پاکستان برداشت کریگا، نہ چین اور نہ ہی روس۔ اور خطے کے تین بڑے اسٹیک ہولڈرز سے ناراضگی بہرحال کم از کم امریکا کے لیے تو بہت نقصان کا سبب بنے گی اور مجھے اُمید ہے کہ امریکا ایسا کرتے ہوئے دس بار نہیں سو بار سوچے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔