دہشت گردی اور دینی مدارس کی اصلاح

پاکستان میں دینی مدارس کے پھیلاؤ پر معاشرہ کے ایک طبقہ میں کافی تشویش بھی پائی جاتی ہے۔


سلمان عابد January 27, 2015
[email protected]

پاکستان کی ریاست اور حکومت کے بقول دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ اب ان کی اولین ترجیح ہے ۔ اسے بنیاد بنا کر جو بیس نکاتی ایجنڈا سامنے آیا ہے اس میں ایک اہم نقطہ دینی مدارس کی اصلاح اوران کا احتسابی عمل بھی ہے ۔اس بنیادی نقطے پر ہمیں ریاست، حکومت اور دینی مدارس سے وابستہ قیادت اور مذہبی جماعتوں کے درمیان بداعتمادی نظر آتی ہے ۔

عموماً جب ریاست یا حکومت غیر معمولی اقدامات کی طرف بڑھتی ہے تو اس میں مختلف متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت اور مشترکہ حکمت عملی کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ مذہبی اور دینی مدارس کی قیادت کے بقول ہم دہشت گردی کی جنگ میں یقینا حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑے ہیں ، لیکن دینی مدارس کے معاملے میں ہمیں اعتماد میں لینے کے بجائے تنہا پرواز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس کوشش کا نتیجہ اعتماد سازی کے ماحول میں بداعتمادی کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ایسا معاشرہ جہاں حکمرانی کا بحران ہو، بڑے فیصلے عجلت یا کسی بڑے ردعمل کے نتیجہ میں بغیر ہوم ورک کے کیے جائیں تو اسے خواہشات کے باوجود مسائل حل نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکا ر ہوجاتے ہیں ۔پاکستان کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں جب ہم دہشت گردی سے نمٹنے کی نئی حکمت عملیوں کو ترتیب دے رہے ہیں تو ہمیں اصلاح کا عمل ہر جگہ سے شروع کرنا ہوگا ۔اصلاح کے عمل میں دینی مدارس بھی شامل ہیں او ران مدرسوں کو ہمیں کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بطور فریق اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ غلطی ہم میں نہیں بلکہ دوسرے فریقین میں ہے ۔

پاکستان میں دینی مدارس کے پھیلاؤ پر معاشرہ کے ایک طبقہ میں کافی تشویش بھی پائی جاتی ہے ۔ اس تناظر میں بعض غیر ممالک اور اداروں کی مالیاتی فنڈز کو بھی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ دینی مدارس کا حامی اور دوسرا ان اداروں کو بند کرنے اور تیسرا ان کا حامی ضرور ہے ، لیکن ان میں ریاستی عمل دخل ، نگرانی کا نظام اور کئی معاملات پر بڑی اصلاحات کا قائل ہے۔دینی مدارس کے پھیلاؤ کی ایک وجہ جہاں دینی رجحانات کا عمل دخل ہے ، وہیں تعلیم کے شعبہ میں بری حکمرانی بڑا مسئلہ ہے ۔

لوگوں کو بنیادی تعلیم نہ ملنا خود دینی مدارس کی اہمیت کو بڑھادیتا ہے ۔ معاشرے میں غربت اور ناہمواریاں جنم لے رہی ہیں، اس کے نتیجہ میں لوگ مدارس کا رخ نہ کریں تو وہ کہاں جائیں اور کون ان کو سہارا فراہم کرے گا ۔ اس لیے جو لوگ دینی مدارس پر اپنا غصہ نکالتے ہیں ، انھیں ایک بڑا غصہ ریاست اور حکومت کی بری حکمرانی اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پربھی ظاہر کرنا چاہیے ، جو مدرسوں کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ ایک مسئلہ ان مدرسوں کا تعلیمی نصاب ہے ۔ اس میں ایک وزنی منطق یہ دی جاتی ہے کہ یہ نصاب دینی تعلیم سے زیادہ فرقہ ورانہ مذہبی تعلیم کی طرف مائل کرتا ہے ۔

یہ بات مکمل طور پر غلط نہیںکیونکہ یہاں پچھلی دو دہائیوں میں جس طرح سے فرقہ ورانہ مسائل او راس کے نتیجے میں پرتشدد عمل سامنے آیا ، وہ ریاستی نظام کے خلاف ایک بڑا خطرہ بنا ہے ۔وفاق المدارس کے بقول ان کے مدرسوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ کسی بھی طور پر انتہا پسندی کو تقویت نہیں دیتا۔ یہ منطق مان لی جائے تو پھر یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ معاشرے میں فرقہ ورانہ ذہنیت اور انتہا پسندی کا فروغ کیونکر ہورہا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے بعض مدارس میں بچوں کو بلاوجہ فرقہ وارنہ تعلیم دی جاتی ہے ، مسئلہ اگر نصاب میں نہیں تو پھر تعلیم دینے کے انداز میں ہے او راس کی وجہ وفاق المدارس کی اپنی کمزور اور ناقص نگرانی کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔

ہمارے دینی مدارس کے اکابرین اور مذہبی جماعتوں کو تضاد یا لاتعلقی کی سیاست سے نکل کر انتہا پسندی اور فرقہ ورانہ مسائل کے خاتمہ میں اپنی ذمے داری لینی ہوگی ۔ بالخصوص مساجد کے لاوڈ اسپیکر ز کا جو غلط استعمال ہورہا ہے ا س کو کنٹرول کرنا ہوگا ۔ یہ کام تن تنہا حکومت نہیں کرسکے گی ، اس میں مدارس کی قیادت کو خود آگے بڑھ ایک بڑے کردار کے لیے پیش کرنا ہوگا ۔جہاں تک دینی مدارس کے نصاب میں اصلاح کا تعلق ہے تو اس میں مدارس کی قیادت سمیت جدید مذہبی علمائے کرام سمیت سماجی علوم کے ماہرین کو بھی شامل کریں کہ اس میں کوئی ایسا نصاب تو نہیں جو لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں نفرت پیدا کرے ۔نصاب کو جدید علوم سے آراستہ کرکے اسے ہماری آج کی ضروریات کے تابع کرنا ہوگا۔

دراصل مدارس کے نصاب سے زیادہ جو تقرریں سی ڈی ، وڈیو، پمفلٹ ، بروشرز سمیت دیگر اشاعتی مواو اشاعت، میڈیا اور سوشل میڈیا کی مدد سے سامنے آرہا ہے اس کو مدارس اور مذہبی قیادت کے تعاون کے بغیر کیسے ختم کیا جاسکے گا کیونکہ ریاستی و حکومتی ادارے مذہبی وجہ سے کوئی بڑا اقدام کرنے سے گریز کرتے ہیں، جو عملی طور پر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے ۔

مساجد کے لیے جو علمائے کرام اپنی ذمے داری اٹھاتے ہیں ، ان کی اپنی تربیت سمیت کوڈ آف کنڈکٹ ، مدارس کی رجسٹریشن کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا کوئی فرد مسجد کا کنٹرول نہ سنبھالے جو اپنے ایجنڈے کے تحت خود فرقہ ورانہ اور انتہا پسندی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناکر انتشار کی کیفیت کو پیدا کرتا ہے ۔اسی طرح حکومت، ریاستی اداروں او رایجنسیوں کو بھی ایک ہی حکمت عملی کے تحت تمام مدارس کو ڈیل نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں مدارس کے خلاف جائز شکایات ہیں، پہلے مدارس کی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے ، اگر وہاں سے مطلوبہ نتائج نہیں ملتے تو نیا قدم اٹھایا جائے ۔

اچھی بات ہے کہ وفاق المدارس سمیت بعض مذہبی جماعتوں کی قیادت نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان مسائل پر حکومت سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں ، لیکن کسی کارروائی سے قبل مشاورت ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے خلاف ردعمل کی سیاست نہ جنم لے کیونکہ ٹکراؤ کسی کے مفاد میںنہیں ۔یہ سمجھنا کہ تمام مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں،درست منطق نہیں ،جو بھی قدم اٹھایا جائے اس میں مخاصمت ، دشمنی اور سیاسی تعصب کا پہلو نہیں ہونا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں