خانہ بدوش

یہ تو وہ خانہ بدوش ہیں، جو نسلوں سے ہجرتیں کرتے رہتے ہیں، ایک جگہ پر ٹھہراؤ ان کا وتیرہ نہیں رہا۔


منظور ملاح January 27, 2015

صدیوں سے سفر جاری رکھے ہوئے لوگ، جن کا مستقل گھر نہ ٹھکانہ، در در، راستہ راستہ بھٹکتی ہوئی نسلیں اپنے سفر پر رواں دواں ہیں۔ دوسری جنگ جیسی موتمار لڑائی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی گدھوں اور اونٹوں پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اصل کہاں کے باشندے ہیں، اس کا تو پورا پتہ نہیں البتہ فزیکل اور سوشل اینتھراپالوجی کچھ کچھ بتاتی ہے کہ یہ لوگ ایشیا کے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے دعویدار افریکن بھی ہیں اور ویسے یہ ایسٹ یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ان ہی کی نسل میں ایک اسپینش زبان میں گانے والے سنگر گروپ ''جپسی کنگز'' کی موسیقی کی دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ برصغیر کے صوفی شاعروں بھگت کبیر اور میراں بائی نے بھی انھیں گایا ہے۔ سندھ کے سدا بہار شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے تو ان کے مختلف قبائل پر ان کے کام اور عادات کی بنیاد پر شاعری کی ہے۔ ان میں سامی، جوگی، ہڈوار خاص طور پر شامل ہیں۔ سامی جو مرڈ ھارہ مارکر قسمت کا حال بتاتے تھے اور عورتیں تعویز گنڈے کرتی تھیں، اور بدلے میں آٹا وغیرہ مانگتی تھیں جہالت کی وجہ سے کئی لوگ ان پر اعتماد رکھتے تھے۔

ہڈ وار مرد مردہ اجسام کی ہڈیاں پسلیاں چن کر بیچتے اور ان کا گوشت کھاتے، اس لیے ان کے کپڑوں میں ایسی بدبو موجود رہتی تھی۔ ان کی عورتیں مٹی کے کھلونے بنا کر گھر گھر میں پیسے یا آٹے کے بدلے بیچتیں۔ یہ کھلونے ایسے پائیدار ہوتے کہ کئی دنوں تک بچوں کے ہاتھ میں رہنے کے باوجود بھی محفوظ رہتے۔ جب کہ گیڑو ویس پہنے جوگی، گھر گھر گلی گلی مرلی کی مدھر آواز سے صدا لگاتے، سانپوں کے لہرے دکھاتے اور لوگوں کا دل بہلا کر جاتے، جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ کسی سے زوری کچھ نہیں مانگنا، نہ کسی کی چیز پر آنکھ رکھنا، چوری نہ گلا، اپنا سفر جاری رکھے ہوئے اس لیے یہ ہمیشہ صوفی شعراء کے لیے رومانس کا ذریعہ رہے ہیں۔

زیادہ تر لوگ گدھوں کی سواری کے ذریعے ہجرت کرتے رہتے ہیں، گدھوں پر سامان لدا ہوا، اس کے اوپر دو چار مرغے، کوئی چھوٹا سا بچہ بیٹھا ہوا، مرد لگام سے کھینچتے ہوئے اور عورتیں گدھوں کو پیچھے سے ہانکتی ہوئی، آس پاس کیا ہو رہا ہے، کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا ہو، کوئی پرواہ نہیں، ویسے بھی جو لوگ کسی کے عزیز نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے عزیز بھی صرف ریتیلے ٹیلے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بالے، بڑہے، کبوترے، کوچڑے اور بھی کئی قبائل ان میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ اپنا اصل فن، پیشہ اور روایات ترک کر چکے ہیں۔ وقت کے بہاؤ اور جدید ٹیکنالوجی کی برکات سے اب وہ نہیں رہے جنھیں صوفی شعرا نے گایا ہے۔

یہ تو وہ خانہ بدوش ہیں، جو نسلوں سے ہجرتیں کرتے رہتے ہیں، ایک جگہ پر ٹھہراؤ ان کا وتیرہ نہیں رہا، اب انھوں نے بھی مستقل گھر بسا لیے ہیں لیکن میں ایک اور خانہ بدوش قبائل کی بات کرنا چاہتا ہوں جو فطری طور پر نہ ہی روایتی طور پر خانہ بدوش رہے ہیں اور نہ ہی مستقل ہجرتیں کرتے رہے ہیں بلکہ انگریزوں کی بر صغیر میں حکومت سے پہلے ان میں سے کچھ اپنے علاقے کے حکمران بھی رہے ہیں، خاص طور پر راجاؤں کے دیس راجستھان کے علاقے میں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ محنت کش طبقات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

یہ ہندو مذہب کے لوگ بھیل، کولھی، اوڈ وغیرہ ہیں۔ بھیلوں کی کسی دور میں راجستھان کے پاکستان کے ساتھ لگنے والے علاقے بھیل واڑہ میں حکومت ہوتی تھی۔ ممبئی شہر کے مالک بھی وہاں کے مقامی کولھی ہیں کیوں کہ مم بائی ان کی دیوی ہے۔ اوڈ چکنی مٹی کے گھر اور دیواریں جوڑنے کے بہترین کاریگر تھے آج بھی ایسی تعمیرات آپ کو سندھ کی دیہی علاقوں میں نظر آئیں گی۔ بھیل زمینیں کاشت کرتے ہیں اور کولہی باغات لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔

وقت کے بہاؤ کے ساتھ یہ قبائل اب غربت، ابتر اقتصادی حالت اور مذہبی منافرت کی وجہ سے ادھر ادھر کھسکتے رہتے ہیں۔ دو سال ایک زمیندار کے پاس تو چار سال دوسرے کے، جہاں رہے زمینوں کے ساتھ تنکوں کی جھونپڑیاں یا گھر بنا لیے اور وہیں زمینوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ سندھ کے کئی زمیندار فصلوں کا حساب کتاب دینے کی بجائے شادی غمی کے مواقعے کچھ پیسے یا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ گندم یا آٹا دیتے ہیں۔ باقی فصلوں کی فصل ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں بھی روز کا معمول ہیں۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں ان کے ساتھ کوئی کھانا پینا پسند نہیں کرتا۔

اس لیے یہ لوگ سماجی نفرتوں، غربت کا شکار اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہوئے جہنم کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بڑے تو کیا بچے اور عورتیں بھی نسلوں سے اسی جال میں پھنسی رہتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے مسائل بھی ان کے ساتھ زیادہ رہتے ہیں۔ کبھی کبھار شادی یا مذہبی تہوار کے موقعے پر سردیوں کے موسم میں دھیمی روشنی اور خاموش فضا میں جب اداس سروں کو آلاپتے ہیں تو رات کی تنہا مسافر یہ میٹھی اور مدھر آواز خاموشی سے ٹکرا کر کئی لوگوں کی سماعتوں تک پہنچ کر روح کو خوشگوار یادوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ لوگ عملی ہمدردی کے مستحق ہیں، جن کے لیے اس معاشرے میں محبت کا ٹھکانہ نہیں ملتا۔

اس لیے وقت اور حالت انھیں ایک جگہ مستقل ٹھہرنے نہیں دیتے۔ بلکہ یہ ذلتوں کے مارے لوگ روزانہ کسی نہ کسی اخبار کی ''خبر'' بن جاتے ہیں، ان کی زندگیوں کے ساتھ روز کوئی نہ کوئی کھلواڑ ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ان کے خاندانوں میں سے کچھ لوگ شہروں میں آ کر روزانہ محنت مزدوری کر کے شام کو دو کلو آٹا اور سبزی لے کر اندھیرے میں گھر جاتے ہیں، جہاں اداس آنکھیں انھیں تکتی رہتی ہیں۔ یہ لوگ تعمیرات میں مستریوں کے ساتھ لگے رہتے ہیں یا کسی گھر میں ماہوار تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔

یہی ان کی گزر بسر ہے اور زمینداروں کا ان پر احسان کہ کسی ایک کو مزدوری کرنے کی اجازت دیتے ہیں ورنہ ان کی کیا مجال! اصل میں اب زمیندار جو دو روپے ان کو دیتے تھے وہ بھی بند کر دیے ہیں اور اس کے بدلے ان کے خاندانوں میں سے ایک ایک فرد کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ مزدوری کر کے باقی کے پیٹ بھرے، اپنی جیب سے ٹکا بھی نہیں دینا بلکہ زمینداروں نے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں یہ پرائے پسینے کے پیسے جا کے اڑانے ہیں۔ نیا دور، مظالم کے نئے روپ، انسانیت پیٹھ دیکر ہجرت کر چکی۔ اس لیے ان کے دل بھی مسافر بن چکے ہیں۔ ان کا حال بقول فیض دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے اور ان کی نسلیں صرف اپنے دل کی روشنی پر ہی زندگی گزار رہی ہیں، ورنہ زمانے نے تو انھیں صرف ٹھوکروں پر ہی رکھا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں