چنگیز سے نیکی
حکومت درست وقت پر ٹھیک فیصلے کرنے کا نام ہوتا ہے۔ ذمے داری لینے اور اُس کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کا نام ہوتا ہے۔
اگر خود کو ٹھنڈی جگہ میں برف کے درمیان گھُسا دینے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پورے کا پورا پاکستان موسم کے مزے لے رہا ہے تو وزیر اعظم صاحب کی طرح ہم سب کو بھی ''مری'' چلا جانا چاہیے۔ خطے میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوں اور آپ سکون کی بانسری بجانا چاہتے ہیں تو دل کھول کر اپنے شوق پورے کیجیے لیکن کم از کم اس قوم کے حال پر رحم فرما کر ہم سب کو اپنی دعائوں میں یاد رکھنے کا موقع دیجیے۔
یہاں بجلی غائب ہو کر ہم پر بجلی گرا رہی ہے اور خود بجلی سی پھُرتی دیکھاتے ہوئے غائب ہیں۔ یہاں غبارے سے گیس نکل چکی ہے لیکن شاہ ہیں کہ اپنا شاہنامہ لکھوانے میں مصروف ہیں۔ اس سرزمین پر پٹرول کم پڑ گیا ہے تو اس 20 کروڑ پاکستانیوں کو زرخیز کنواں سمجھ کر اس کا تیل نکالا جا رہا ہے۔ ہم اپنی قسمت پر ماتم کریں یا پھر اپنا سر کہیں جا کر پھوڑیں۔ شاید کہ کچھ تیل نکل آئے اور ہماری مشکل آسان ہو۔
اس سرزمین پر خبروں کی دنیا اتنی سجی رہتی ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کون سا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا ہے اور کون سا ٹائم پاس کرنے کے لیے ہے۔ ہمارے لیے عمران خان کی شادی تازہ ترین ہے یا پاکستان اور افغانستان کے اندر داعش اور طالبان کی لڑائی۔ ہمارے لیے سب سے اہم نازیبا خاکوں کے لیے نکالے جانے والے جلوس ہیں یا پھر اوباما کا استقبال۔ آپ ہی بتا دیں کہ۔ اگر دشمن سر پر آ کر ناچ رہا ہو تو اُس کو شربت پلانا چاہیے؟ اگر اوباما کا شاندار استقبال کر کے مودی ہمیں کچھ بتانا چاہتا تھا تو ہمیں مری میں آرام کرنا چاہیے تھا کہ دو لفظ زبان سے نکالنے چاہیے تھے یا پھر ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف نے عین اُسی وقت چین جا کر ٹھیک کیا ۔۔؟ کم از کم ایک پیغام تو گیا ہے کہ چین ہمارا دوست ہے۔ موجودہ طرز حکمرانی کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر اس حکومت کی پالیسی کیا ہے۔
حکومت درست وقت پر ٹھیک فیصلے کرنے کا نام ہوتا ہے۔ ذمے داری لینے اور اُس کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کا نام ہوتا ہے۔ لیکن تمام تر فیصلوں کو وقتی اور عارضی حل کے طور پر پیش کر کے آگے بڑھنے کا نام صرف اور صرف آنکھ مارنا ہوتا ہے۔ کبھی نہ آپ نے سوچا ہو گا اور نہ سوچنا چاہیے کہ کیوں ایک بحران ٹلتا نہیں تو دوسرا آ جاتا ہے۔ اور ہر بحران کے بعد آپ کو اُس میں سے سازش کی بو آنے لگ جاتی ہے۔ ہر بحران کے پیچھے آپ کو مخصوص لوگ یا ادارے ہی کیوں نظر آتے ہیں۔
زیادہ پرانی تاریخ میں مت الجھیں گزشتہ دو سالوں کی بجائے ایک سال کو ہی لے لیجیے۔ جب طاہر القادری اور عمران خان D چوک پر اپنا پورا زور دکھا رہے تھے تو حکومتی حلقے اسے سازش کا نام دے کر چارپائی ڈھونڈ رہے تھے۔ پھر سانحہ پشاور کے بعد یہ نیا تماشہ شروع ہو گیا۔ سب امن کے لیے متفق ہو گئے۔ عمران خان شادی کر کے عمرے پر چلے گئے۔ پہلے آپ کا رونا یہ تھا کہ دھرنوں کی وجہ سے ہم عوام کی خدمت نہیں کر سکے اور دھرنے سازش کے تحت ہوئے اور ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ مگر جب دھرنے ختم ہو گئے تو آپ نے پٹرول ہی غائب کر دیا۔
پیپلز پارٹی اپنی بری طرز حکمرانی کو ماننے کی بجائے ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ اُن کے خلاف سازش ہو رہی ہے نہ وہ کبھی بتا سکیں کہ کون کھیل رہا ہے اور نہ یہ بتانا چاہتے ہیں کون کھلوا رہا ہے۔ سندھ کی حکومت کو تو اللہ نظر بد سے بچائے کہ اب بھی عوام میں اتنی مشہور ہے کہ اُس کے خلاف بھی سازش ہو رہی ہے۔ یہ تو پھر بھی وفاقی حکومت ہے۔
آپ لطیفہ پر لطیفہ سنتے جائیں گے لیکن ان کے پاس مسئلہ کا حل نہیں ہو گا۔ لیکن نیا مسئلہ کھڑا ہو گا پنجاب کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی نوکری ہے اور وفاق میں تحریک انصاف کے جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔ اب اگر بھائی بھائی کے خلاف ہو تو اس کا ہم کم علم کیا سمجھیں۔ ایک دم پورا ملک اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اور وزارتوں کو اپنے سر میں دماغ نہیں مل رہا تھا۔ جو فورا کہہ دیا گیا دہشت گردی کی وجہ سے قوم اندھیروں میں ڈوب گئی۔ ہم کہتے رہ گئے کہ دہشت گردی کی وجہ سے قوم اندھیروں میں ہے تو یہ اُس وقت مذاق کر رہے تھے۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ اتنی لمبی ٹرانسمیشن لائن کو ہم کیسے محفوظ بنائیں۔ اب دہشت گردی کا معاملہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کیسے ایک ایک گلی کی حفاظت کریں۔ پٹرول کا مسئلہ ہوتا ہے تو بولتے ہیں کہ کیسے ایک ایک بیوروکریٹ کو کنٹرول کریں۔ معاش کا مسئلہ ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کیسے ہم پرانے عذاب اپنے اوپر سے ختم کریں۔ آخر پھر انھیں کرنا کیا ہے؟ ان کے پاس جو مسئلہ کا حل لے کر جائے وہ ہی پھنس جاتا ہے۔ اور مجھے چنگیز خان کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ جب چنگیز خان کے باپ کو زہر دے کر مار دیا گیا تو اُس کے بیٹے کو تباہ کرنے کے لیے دشمن پیدا ہو گئے۔ چنگیز خان کو پکڑ لیا گیا اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کو باندھ دیا گیا۔
ایک رات وہ موقعہ دیکھ کر بھاگا لیکن زیاد ہ نہیں بھاگ سکتا تھا اس لیے پیچھے فوجی آتے دیکھ کر تالاب میں اس طرح چھپا کہ صرف اُس کا سر باہر تھا۔ ایک سپاہی نے اُسے دیکھ لیا لیکن اُس سے نظر بچا کر نکل گیا مگر چنگیز خان نے اُس کا چہرہ اپنے ذہن میں بیٹھا لیا وہ باہر آیا اور چھپتا چھپاتا اُس آدمی کے پاس پہنچا۔ اور اُسے کہا کہ میرے ہاتھوں اور پیروں کو آزاد کر دے ورنہ میں یہاں سب کو بتا دونگا کہ تم نے مجھے دیکھ لیا تھا لیکن پکڑا نہیں۔ اُس شخص کے گلے میں نیکی پھنس گئی۔ اگر وہ اسے نہ آزاد کرتا تو مشکل میں آ جاتا اور اگر شور کرتا تو پھنس جاتا۔ چنگیز نے خود پر احسان کرنے والے کو ہی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ آج کل سعودیہ جانے کے لیے مشرف کے ساتھ ہے۔ باقی آپ خود سمجھ جائیں۔