سندھ حکومت کی غفلت 15 ملین گیلن روزانہ پانی فراہم کرنے کا منصوبہ 2 سال سے التوا کا شکار
سندھ حکومت کی غفلت وبے حسی کے باعث شہر میں 15 ملین گیلن پانی کی روزانہ فراہمی کا اہم منصوبہ دوسال سے التواکا شکار ہے۔
سندھ حکومت کی غفلت وبے حسی کے باعث شہر میں 15 ملین گیلن پانی کی روزانہ فراہمی کا اہم منصوبہ دوسال سے التوا کا شکار ہے۔
شہر میں قلت آب پر قابو پانے کیلئے واٹر بورڈ نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی ہدایت پر ڈملوٹی کے مقام پر انگریزوں کے تعمیر کردہ ڈیڑھ سو سالہ قدیم زیر زمین پانی کی فراہمی کے نظام کی بحالی کیلیے 6کروڑ روپے کا منصوبہ تیار کیا تاہم صوبائی حکومت نے فنڈز دینے سے انکار کردیا ہے، شہر میں بارشیں نہ ہونے سے گڈاپ اور ملیر کے دیہی علاقوں میں خشک سالی آچکی ہے جبکہ حب ڈیم خشک ہونے سے شہر میں 550ملین گیلن پانی کا بحران ہے، ڈملوٹی منصوبے پر اگر عملدرآمد کردیا جائے تو پانی کے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت، ادارہ فراہمی نکاسی آب اور دیگر متعلقہ اداروں کی غفلت کے باعث ڈملوٹی کے مقام پر انگریزوں کا تعمیر کردہ تقریباً ڈیڑھ سو سالہ قدیم فراہمی آب کا نظام تباہ ہوچکا ہے، پولیس اور سیاسی بارسوخ افراد کی سرپرستی میں ریتی بجری مافیا نے یہاں سے ریتی بجری اٹھاکر نہ صرف کروڑوں روپے کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا بلکہ ماحول دشمن اس مجرمانہ کارروائی کی بدولت زیرزمین پانی کا لیول بھی کئی فٹ نیچے گر چکا ہے، ذرائع کے مطابق1970 تک 16 کنوؤں سے 16ملین گیلن روزانہ پانی شہر کو فراہم کیا جاتا تھا، اس وقت صرف 3 کنویں صحیح حالت میں ہیں جبکہ 8 سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں، 5 بند پڑے ہیں اور تقریبا 10کلومیٹر کنڈیوٹ ناکارہ پڑی ہے۔
ریتی بجری مافیا پر قابو پاکر وفاقی وصوبائی حکومت کی مالی معاونت سے نہ صرف اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے بلکہ میٹھے پانی کے قدرتی ذخائر کو استعمال کرکے شہر میں پانی کی قلت میں کمی بھی لائی جاسکتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ کراچی سے 100 کلومیٹر دور ڈملوٹی کے مقام پر آزادی سے قبل فراہمی آب کا نظام 80فیصد تباہ وبرباد ہوچکا ہے، انگریزوں کے دور کی تعمیر کردہ عمارات اورکنویں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ مہنگی ترین مشینیں اور پمپس خستہ حالی کا شکار ہیں اور اس میں بیش قیمت پرزے چوری کرلیے گئے ہیں۔
آزادی سے قبل انگریزوں نے ڈملوٹی سے شہر تک زیر زمین پانی کی فراہمی کیلیے سپرہائی وے سے کینٹ اسٹیشن تک 32کلومیٹر طویل ڈملوٹی کنڈیوٹ تعمیر کی تھی، زیر زمین تعمیر کردہ کنڈیوٹ پختگی کے لحاظ سے اتنی مضبوط ہے کہ آج بھی اس کا 22کلومیٹر حصہ دریائے سندھ کے پانی کی ترسیل کیلیے استعمال ہورہا ہے جبکہ بقیہ 10کلومیٹر حصہ کنوؤں کی بندش کے باعث بیکار پڑا ہے، متعلقہ افسران نے بتایا کہ واٹر بورڈ نے گورنر سندھ کی ہدایت پر دوسال قبل ڈملوٹی واٹر سسٹم کے احیا کیلیے منصوبہ تیار کیا جو گورنر سندھ کے صوابدیدی فنڈز سے تعمیر کیا جاتا۔
یہ منصوبہ دو مراحل میں تعمیر کیا جانا ہے، اس ضمن میں واٹر بورڈ نے اپنے محدود وسائل سے ڈملوٹی کنوؤں کے اطراف چھ بورنگ بھی کیے جن میں 100فٹ پر پانی دستیاب تھا، زیر زمین نکالے جانے والے پانی کو ٹیسٹ بھی کیا جس کے تحت پانی انسانی استعمال کیلیے سو فیصد درست پایا گیا، منصوبے پر عملدرآمد کیلیے نئی مشینوں کی خریداری اور بجلی کا نظام تنصیب کیا جانا ہے، چھ کروڑ روپے کی پی سی ون حکومت سندھ کو بھیجی تھی تاہم صوبائی حکومت نے منطور نہیں کیا۔
شہر میں قلت آب پر قابو پانے کیلئے واٹر بورڈ نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی ہدایت پر ڈملوٹی کے مقام پر انگریزوں کے تعمیر کردہ ڈیڑھ سو سالہ قدیم زیر زمین پانی کی فراہمی کے نظام کی بحالی کیلیے 6کروڑ روپے کا منصوبہ تیار کیا تاہم صوبائی حکومت نے فنڈز دینے سے انکار کردیا ہے، شہر میں بارشیں نہ ہونے سے گڈاپ اور ملیر کے دیہی علاقوں میں خشک سالی آچکی ہے جبکہ حب ڈیم خشک ہونے سے شہر میں 550ملین گیلن پانی کا بحران ہے، ڈملوٹی منصوبے پر اگر عملدرآمد کردیا جائے تو پانی کے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت، ادارہ فراہمی نکاسی آب اور دیگر متعلقہ اداروں کی غفلت کے باعث ڈملوٹی کے مقام پر انگریزوں کا تعمیر کردہ تقریباً ڈیڑھ سو سالہ قدیم فراہمی آب کا نظام تباہ ہوچکا ہے، پولیس اور سیاسی بارسوخ افراد کی سرپرستی میں ریتی بجری مافیا نے یہاں سے ریتی بجری اٹھاکر نہ صرف کروڑوں روپے کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا بلکہ ماحول دشمن اس مجرمانہ کارروائی کی بدولت زیرزمین پانی کا لیول بھی کئی فٹ نیچے گر چکا ہے، ذرائع کے مطابق1970 تک 16 کنوؤں سے 16ملین گیلن روزانہ پانی شہر کو فراہم کیا جاتا تھا، اس وقت صرف 3 کنویں صحیح حالت میں ہیں جبکہ 8 سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں، 5 بند پڑے ہیں اور تقریبا 10کلومیٹر کنڈیوٹ ناکارہ پڑی ہے۔
ریتی بجری مافیا پر قابو پاکر وفاقی وصوبائی حکومت کی مالی معاونت سے نہ صرف اس تاریخی ورثے کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے بلکہ میٹھے پانی کے قدرتی ذخائر کو استعمال کرکے شہر میں پانی کی قلت میں کمی بھی لائی جاسکتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ کراچی سے 100 کلومیٹر دور ڈملوٹی کے مقام پر آزادی سے قبل فراہمی آب کا نظام 80فیصد تباہ وبرباد ہوچکا ہے، انگریزوں کے دور کی تعمیر کردہ عمارات اورکنویں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ مہنگی ترین مشینیں اور پمپس خستہ حالی کا شکار ہیں اور اس میں بیش قیمت پرزے چوری کرلیے گئے ہیں۔
آزادی سے قبل انگریزوں نے ڈملوٹی سے شہر تک زیر زمین پانی کی فراہمی کیلیے سپرہائی وے سے کینٹ اسٹیشن تک 32کلومیٹر طویل ڈملوٹی کنڈیوٹ تعمیر کی تھی، زیر زمین تعمیر کردہ کنڈیوٹ پختگی کے لحاظ سے اتنی مضبوط ہے کہ آج بھی اس کا 22کلومیٹر حصہ دریائے سندھ کے پانی کی ترسیل کیلیے استعمال ہورہا ہے جبکہ بقیہ 10کلومیٹر حصہ کنوؤں کی بندش کے باعث بیکار پڑا ہے، متعلقہ افسران نے بتایا کہ واٹر بورڈ نے گورنر سندھ کی ہدایت پر دوسال قبل ڈملوٹی واٹر سسٹم کے احیا کیلیے منصوبہ تیار کیا جو گورنر سندھ کے صوابدیدی فنڈز سے تعمیر کیا جاتا۔
یہ منصوبہ دو مراحل میں تعمیر کیا جانا ہے، اس ضمن میں واٹر بورڈ نے اپنے محدود وسائل سے ڈملوٹی کنوؤں کے اطراف چھ بورنگ بھی کیے جن میں 100فٹ پر پانی دستیاب تھا، زیر زمین نکالے جانے والے پانی کو ٹیسٹ بھی کیا جس کے تحت پانی انسانی استعمال کیلیے سو فیصد درست پایا گیا، منصوبے پر عملدرآمد کیلیے نئی مشینوں کی خریداری اور بجلی کا نظام تنصیب کیا جانا ہے، چھ کروڑ روپے کی پی سی ون حکومت سندھ کو بھیجی تھی تاہم صوبائی حکومت نے منطور نہیں کیا۔