نیت صاف منزل آسان
میوزیکل شو، ناچ گانا ، ہلڑ بازی، طوفان بدتمیزی۔ آپ کو پتہ ہے امی اس پارٹی کے نام پر کیا کچھ ہونے والا ہے ؟
حسبِ معمول ٹھیک ساڑھے چار بجے ثناء یونیورسٹی سے واپس آئی اور آہستگی سے سلام کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی پہلے تو اسکی والدہ سعدیہ سمجھیں کہ بیٹی پر رات جاگ کر پڑھائی کرنے اور مناسب آرام کئے بغیر یونیورسٹی چلے جانے کا اثر ہے، وہ طبیعت پوچھنے پیچھے پیچھے کمرے میں جاپہنچیں، مگر یہ کیا، ذرا سا پوچھنے پر غضب ہی ہوگیا اور ثناء ہچکیوں سے رونے لگی۔
سعدیہ صرف ثناء کی ماں ہی نہیں دوست بھی تھی۔ سمجھ گئی کہ بیٹی کی حساس طبیعت پر آج پھر کوئی بار آن پڑا ہے۔ ثناء یونیورسٹی سے عصر سے کچھ قبل آتی تھی۔ نماز اور دیگر ضروریات سے فراغت کے بعد چھوٹے بہن بھائی مل کر بیٹھتے، خوب بے تکلفی کی فضا ہوتی، یونیورسٹی، اسکول اور دنیا جہان کی باتیں ہوتیں مگر سعدیہ تربیت کے پہلوئوں کو باتوں باتوں میں واضح کرنا نہ بھولتی۔ اس طرح بچے صحیح اور غلط کا سبق غیر شعوری انداز میں لیتے چلے جاتے۔
سعدیہ کو اپنے اس چھوٹے سے ادارے یعنی ''گھر'' کے کم عمر کارکنوں کی ننھی منھی کامرانیاں بڑی عزیز تھیں اوران ہی سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ اب ثناء کا یہ حال سعدیہ کو بے چین کئے جارہا تھا۔ سعدیہ کے دریافت کرنے پر ثناء پھٹ پڑی۔
آخر امی! آپ کو کیا پڑی تھی مجھے اس یونیورسٹی میں داخلہ دلانے کی؟ اس سے توبہتر تھا کہ میں پرائیوٹ ہی کچھ پڑھ لیتی۔
کیوں کیا ہوگیا؟ کسی نے کوئی بدتمیزی کی ہے کیا؟ سعدیہ کا دل ان گنت خدشات سے بھر گیا تھا۔
امی اچھی خاصی ہماری پڑھائی چل رہی تھی، چوتھا سال کیا شروع ہوا سب ہی کو اپنا دورِ طالب علمی یادگار بنانے کا جوش چڑھا ہے۔الوداعی پارٹی کا ہنگامہ چل پڑا ہے۔
تو؟ سعدیہ نے حیران ہو کر اس بات کی وضاحت مانگی۔
یہ پارٹی ایک تو مخلوط ہوگی، دوسرے عجیب واہیات لباسوں کی بہار، میوزیکل شو، ناچ گانا، ہلڑ بازی، طوفان بدتمیزی کی ریہرسل ہوتی رہتی ہے۔ آپ کو پتہ ہے امی اس پارٹی کے نام پر کیا کچھ ہونے والا ہے؟ اچھے خاصے کسی بڑے ہوٹل میں ہونی ہے۔
تو بیٹا آپ تو نہیں جاتی ہیں نا ایسی جگہوں پر، پھر اتنا کیوں پریشان ہو، آج کل یہ تو ہر تعلیمی ادارے میں ہونے لگا ہے، سعدیہ نے کہا۔
ہاں مگر اس کے لئے ہر طالبعلم سے لمبا چوڑا فنڈ مانگا جارہا ہے، تین دن بعد فنڈ کی آخری تاریخ دے دی گئی ہے۔ میں اس بے ہودگی کے لئے پیسے نہیں دے سکتی امی! میں تو اب یہاں نہیں پڑھ سکتی۔
''اوہ! میں اب سمجھی'' گویا خیر وشر کی تمیزسکھانے میں سعدیہ نے جو محنت کی تھی وہ اب ظاہر ہورہی تھی۔ یہ مقام شکر تھا، وہ بیج جو بچپن سے اپنے بچوں کے دل میں سعدیہ نے بوئے تھے، ایمان کے، اخلاق کے اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق خیر وشر کے معیار کے جوسبق سکھائے تھے، ثناء کے رویے نے ثابت کردیا تھا کہ بیج کی پہلی کونپل پھوٹ گئی ہے۔ اس نے محبت پاش نظروں سے اس نوعمر بیٹی کی پیشانی چوم لی اور دل کی گہرائی سے اس کی استقامت کے لئے دعا کی۔
اس میڈیکل یونیورسٹی میں ثناء کی زیادہ تر دوستی ان ہی لڑکیوں سے تھی جو اس کی ہم مزاج تھیں اور شریف و معقول گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں مگر یہ کوئی اس کا اسلامی اسکول تو تھا نہیں، اس لئے یہاں موجود ہر طرح کے طلبہ و طالبات کے رنگ ڈھنگ اب ان میں سے بہت سوں پر اثر انداز ہوتے جارہے تھے۔ ایسے ماحول میں ثناء کی بے حد فکر مند ماں بیٹی کی فکرونظر کی حفاظت کے لئے بڑی حکمت و خلوص کے ساتھ اسے دینی اقدار سے جوڑنے کی ہرممکن کوشش کرتی رہی۔
ثناء فطرتاََ کم گو اور ڈرپوک سی لڑکی تھی مگر سعدیہ کی حوصلہ افزائی اور دعائوں کے باعث وہ اکثر ساتھیوں کی محفل میں غلط باتوں کے جواب میں صحیح اسلامی اور شرعی بات کا برملا اظہار کر دیتی۔ نتیجتاََ اُسے منفی اور استہزائیہ ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا مگر وہ ہمت نہ ہارتی۔ مگر آج وہ اپنے آپ کو کمزور پارہی تھی کیونکہ اس پر بھی الوداعی پارٹی کے فنڈ اورشرکت کے لئے دباو ڈالا جارہا تھا۔
سعدیہ نے حیران ہوکر پوچھا، تو کیا انتظامیہ کو پارٹی کا علم نہیں؟ میں نے اور تمہارے ابو نے اسی لئے تو تمہیں یہاں داخلہ دلایا تھا کہ یہاں یہ سب خرافات ہونے کی امید نہیں تھی۔ یہاں کا ماحول دیگر اداروں کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ ایسا اچانک کیسے ہوگیا؟
ثناء نے جواباََ کہا امی ایسا اچانک نہیں ہوگیا، شروع سالوں میں تو انتظامیہ اور اساتذہ کا سخت کنٹرول ہوتا ہے، آہستہ آہستہ غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر ان غیر اخلاقی سرگرمیوں کو متعارف کرایا گیا ہے، اب سارا تعلیمی ماحول متاثر ہوگیا ہے۔ اساتذہ نوکری بچانے کے چکر میں ان سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ امی! آپ تو بس اپنے چھوٹے سے گھر کو اسلام کا قلعہ بنانے میں مصروف ہیں، ان بڑے بڑے اداروں کی بنیادیں کون مضبوط کرے گا؟
طالب علم؟ اساتذہ؟ والدین یا حکومت؟
بے یقینی سے بھرے ہوئے ان جملوں نے سعدیہ کی نہ صرف آنکھیں کھول دیں بلکہ دل و دماغ پر پڑے اطمینان کے پردے بھی اچانک اٹھا دیئے۔ سعدیہ نے سوچا ثناء تو بالکل درست کہہ رہی ہے، اپنے چھوٹے سے گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے اور ملک کو بھی تو اسلام کا قلعہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے، ورنہ میں اپنے گھر کا قلعہ کب تک بچا سکوںگی؟ اپنے عزم کو اس نے چند ہی دنوں میں عملی جامہ پہنا ڈالا۔
اُسی شام کو سعدیہ نے ساری صورتحال ثناء کے ابو کے سامنے رکھ دی۔ باہم مشورے سے ایک ایسی بات سامنے آئی کہ جس نے دونوں شوہر بیوی کو متحرک کردیا، وہ یہ کہ اس وقت برائی کے مقابلے کے لئے خیر کو نہیں لایا گیا تو ثناء جیسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں میں یہ منفی سوچ مستحکم ہوجائے گی کہ خیر ہمیشہ کمزور رہنے کے لئے ہے اور شرزیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
پھر عملی طور پر کام کا آغاز کیا گیا۔ اس بہترین تعلیمی ادارے کے منتظمین کو اخلاقی معیار پر لانے اور ایسے پروگراموں کی روک تھام سے متعلق خطوط ای میل کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اہم اخبارات اور ارباب اختیار کو فوری طور پر ای میل کے ذریعہ توجہ دلائی گئی ۔اس عرصے میں ثناء اپنی ساتھیوں میں اس غیر اخلاقی پروگرام کے خلاف ذہنی فضاء بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ اس مہم کے لئے فیس بک پر ایک پیج بنایا اور اس کے ذریعے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی تقریبات پر پابندی کے مطالبے کو پھیلا دیا گیا۔
پھر ''نیت صاف منزل آسان'' کے مصداق ثناء کو اپنے ''مشن'' کی تقویت کے لئے قدرت نے ایک اور موقع فراہم کردیا۔ ان ہی دنوں اس کے بڑے ابو، جو تمام دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے مصروف عمل رہتے ہیں، پاکستان تشریف لائے، ان کی سربراہی میں خاندان کے نوجوان طالبعلموں کے لئے ایک رہنما پروگرام منعقد کیا گیا، جس کا موضوع تھا ''اسلام کی سربلندی کے لئے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے''۔
ثناء نے اس موضوع کو جانا اور اس خاندانی پروگرام میں اپنے بھرپور تعاون کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کی ساتھیوں کو بھی مدعو کرڈالا۔نوجوان طالبعلموں اور ایک رہنما، دانشور، عالم دین کے مابین باہم گفتگو کا یہ پروگرام نوجوانوں کو اپنے اصل مقصد کے لئے پرعزم بنانے کے لحاظ سے نہایت کامیاب رہا۔
اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خلوص کے ساتھ کی گئی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ لہٰذا چند ہی دن بعد یہ خاموش احتجاج رنگ لایا۔ میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ادارے کے تعلیم اور اخلاقی ماحول کو بحال کرنے کے لئے پے درپے اقدامات عمل میں لائے گئے اور اس طرح کے پروگراموں پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کردی گئی۔
دوسرے دن کی بات ہے کہ ثناء نے اخبار پڑھتے ہوئے اس خبر پر امی کی توجہ دلائی کہ ''وزارت تعلیم اپنے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق تمام تعلیمی اداروں میں موسیقی اور ناچ گانے کے پروگراموں پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کررہی ہے''۔ یہ خبر سنتے ہی سعدیہ کادل شکر کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ اسی شام ثناء نے فیس بک اکاونٹ پر مخصوص پیج کھولا تو مسرت آمیز چیخ کے ساتھ ماں کو فتح کا منظر دکھانے کے لئے بلایا، اس پابندی پر بہت سے لائکس اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ خیر نے شر کو شکست دے دی ہے۔
خیر کا یہ کارنامہ اور انجام دینے والی اس چھوٹی سی فوج کے ہر کارکن کا حصہ بہت خوب ہے مگر آج دین و ملت کو درپیش بے شمار محاذ ثناء جیسے ان گنت مستقبل کے مضبوط معماروں اور سعدیہ جیسی مضبوط ماؤں کا انتظار کررہے ہیں۔ خیر کے بیج سے کونپل کا پھوٹ جانا بہترین مستقبل کا ایک پراُمید اعلان ہے۔ ان کونپلوں کولہلہانے اور بہار سے ہمکنار ہونے کے لیے ہر مسلمان کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سعدیہ صرف ثناء کی ماں ہی نہیں دوست بھی تھی۔ سمجھ گئی کہ بیٹی کی حساس طبیعت پر آج پھر کوئی بار آن پڑا ہے۔ ثناء یونیورسٹی سے عصر سے کچھ قبل آتی تھی۔ نماز اور دیگر ضروریات سے فراغت کے بعد چھوٹے بہن بھائی مل کر بیٹھتے، خوب بے تکلفی کی فضا ہوتی، یونیورسٹی، اسکول اور دنیا جہان کی باتیں ہوتیں مگر سعدیہ تربیت کے پہلوئوں کو باتوں باتوں میں واضح کرنا نہ بھولتی۔ اس طرح بچے صحیح اور غلط کا سبق غیر شعوری انداز میں لیتے چلے جاتے۔
سعدیہ کو اپنے اس چھوٹے سے ادارے یعنی ''گھر'' کے کم عمر کارکنوں کی ننھی منھی کامرانیاں بڑی عزیز تھیں اوران ہی سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ اب ثناء کا یہ حال سعدیہ کو بے چین کئے جارہا تھا۔ سعدیہ کے دریافت کرنے پر ثناء پھٹ پڑی۔
آخر امی! آپ کو کیا پڑی تھی مجھے اس یونیورسٹی میں داخلہ دلانے کی؟ اس سے توبہتر تھا کہ میں پرائیوٹ ہی کچھ پڑھ لیتی۔
کیوں کیا ہوگیا؟ کسی نے کوئی بدتمیزی کی ہے کیا؟ سعدیہ کا دل ان گنت خدشات سے بھر گیا تھا۔
امی اچھی خاصی ہماری پڑھائی چل رہی تھی، چوتھا سال کیا شروع ہوا سب ہی کو اپنا دورِ طالب علمی یادگار بنانے کا جوش چڑھا ہے۔الوداعی پارٹی کا ہنگامہ چل پڑا ہے۔
تو؟ سعدیہ نے حیران ہو کر اس بات کی وضاحت مانگی۔
یہ پارٹی ایک تو مخلوط ہوگی، دوسرے عجیب واہیات لباسوں کی بہار، میوزیکل شو، ناچ گانا، ہلڑ بازی، طوفان بدتمیزی کی ریہرسل ہوتی رہتی ہے۔ آپ کو پتہ ہے امی اس پارٹی کے نام پر کیا کچھ ہونے والا ہے؟ اچھے خاصے کسی بڑے ہوٹل میں ہونی ہے۔
تو بیٹا آپ تو نہیں جاتی ہیں نا ایسی جگہوں پر، پھر اتنا کیوں پریشان ہو، آج کل یہ تو ہر تعلیمی ادارے میں ہونے لگا ہے، سعدیہ نے کہا۔
ہاں مگر اس کے لئے ہر طالبعلم سے لمبا چوڑا فنڈ مانگا جارہا ہے، تین دن بعد فنڈ کی آخری تاریخ دے دی گئی ہے۔ میں اس بے ہودگی کے لئے پیسے نہیں دے سکتی امی! میں تو اب یہاں نہیں پڑھ سکتی۔
''اوہ! میں اب سمجھی'' گویا خیر وشر کی تمیزسکھانے میں سعدیہ نے جو محنت کی تھی وہ اب ظاہر ہورہی تھی۔ یہ مقام شکر تھا، وہ بیج جو بچپن سے اپنے بچوں کے دل میں سعدیہ نے بوئے تھے، ایمان کے، اخلاق کے اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق خیر وشر کے معیار کے جوسبق سکھائے تھے، ثناء کے رویے نے ثابت کردیا تھا کہ بیج کی پہلی کونپل پھوٹ گئی ہے۔ اس نے محبت پاش نظروں سے اس نوعمر بیٹی کی پیشانی چوم لی اور دل کی گہرائی سے اس کی استقامت کے لئے دعا کی۔
اس میڈیکل یونیورسٹی میں ثناء کی زیادہ تر دوستی ان ہی لڑکیوں سے تھی جو اس کی ہم مزاج تھیں اور شریف و معقول گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں مگر یہ کوئی اس کا اسلامی اسکول تو تھا نہیں، اس لئے یہاں موجود ہر طرح کے طلبہ و طالبات کے رنگ ڈھنگ اب ان میں سے بہت سوں پر اثر انداز ہوتے جارہے تھے۔ ایسے ماحول میں ثناء کی بے حد فکر مند ماں بیٹی کی فکرونظر کی حفاظت کے لئے بڑی حکمت و خلوص کے ساتھ اسے دینی اقدار سے جوڑنے کی ہرممکن کوشش کرتی رہی۔
ثناء فطرتاََ کم گو اور ڈرپوک سی لڑکی تھی مگر سعدیہ کی حوصلہ افزائی اور دعائوں کے باعث وہ اکثر ساتھیوں کی محفل میں غلط باتوں کے جواب میں صحیح اسلامی اور شرعی بات کا برملا اظہار کر دیتی۔ نتیجتاََ اُسے منفی اور استہزائیہ ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا مگر وہ ہمت نہ ہارتی۔ مگر آج وہ اپنے آپ کو کمزور پارہی تھی کیونکہ اس پر بھی الوداعی پارٹی کے فنڈ اورشرکت کے لئے دباو ڈالا جارہا تھا۔
سعدیہ نے حیران ہوکر پوچھا، تو کیا انتظامیہ کو پارٹی کا علم نہیں؟ میں نے اور تمہارے ابو نے اسی لئے تو تمہیں یہاں داخلہ دلایا تھا کہ یہاں یہ سب خرافات ہونے کی امید نہیں تھی۔ یہاں کا ماحول دیگر اداروں کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ ایسا اچانک کیسے ہوگیا؟
ثناء نے جواباََ کہا امی ایسا اچانک نہیں ہوگیا، شروع سالوں میں تو انتظامیہ اور اساتذہ کا سخت کنٹرول ہوتا ہے، آہستہ آہستہ غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر ان غیر اخلاقی سرگرمیوں کو متعارف کرایا گیا ہے، اب سارا تعلیمی ماحول متاثر ہوگیا ہے۔ اساتذہ نوکری بچانے کے چکر میں ان سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ امی! آپ تو بس اپنے چھوٹے سے گھر کو اسلام کا قلعہ بنانے میں مصروف ہیں، ان بڑے بڑے اداروں کی بنیادیں کون مضبوط کرے گا؟
طالب علم؟ اساتذہ؟ والدین یا حکومت؟
بے یقینی سے بھرے ہوئے ان جملوں نے سعدیہ کی نہ صرف آنکھیں کھول دیں بلکہ دل و دماغ پر پڑے اطمینان کے پردے بھی اچانک اٹھا دیئے۔ سعدیہ نے سوچا ثناء تو بالکل درست کہہ رہی ہے، اپنے چھوٹے سے گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے اور ملک کو بھی تو اسلام کا قلعہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے، ورنہ میں اپنے گھر کا قلعہ کب تک بچا سکوںگی؟ اپنے عزم کو اس نے چند ہی دنوں میں عملی جامہ پہنا ڈالا۔
اُسی شام کو سعدیہ نے ساری صورتحال ثناء کے ابو کے سامنے رکھ دی۔ باہم مشورے سے ایک ایسی بات سامنے آئی کہ جس نے دونوں شوہر بیوی کو متحرک کردیا، وہ یہ کہ اس وقت برائی کے مقابلے کے لئے خیر کو نہیں لایا گیا تو ثناء جیسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں میں یہ منفی سوچ مستحکم ہوجائے گی کہ خیر ہمیشہ کمزور رہنے کے لئے ہے اور شرزیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
پھر عملی طور پر کام کا آغاز کیا گیا۔ اس بہترین تعلیمی ادارے کے منتظمین کو اخلاقی معیار پر لانے اور ایسے پروگراموں کی روک تھام سے متعلق خطوط ای میل کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اہم اخبارات اور ارباب اختیار کو فوری طور پر ای میل کے ذریعہ توجہ دلائی گئی ۔اس عرصے میں ثناء اپنی ساتھیوں میں اس غیر اخلاقی پروگرام کے خلاف ذہنی فضاء بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ اس مہم کے لئے فیس بک پر ایک پیج بنایا اور اس کے ذریعے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی تقریبات پر پابندی کے مطالبے کو پھیلا دیا گیا۔
پھر ''نیت صاف منزل آسان'' کے مصداق ثناء کو اپنے ''مشن'' کی تقویت کے لئے قدرت نے ایک اور موقع فراہم کردیا۔ ان ہی دنوں اس کے بڑے ابو، جو تمام دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے مصروف عمل رہتے ہیں، پاکستان تشریف لائے، ان کی سربراہی میں خاندان کے نوجوان طالبعلموں کے لئے ایک رہنما پروگرام منعقد کیا گیا، جس کا موضوع تھا ''اسلام کی سربلندی کے لئے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے''۔
ثناء نے اس موضوع کو جانا اور اس خاندانی پروگرام میں اپنے بھرپور تعاون کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کی ساتھیوں کو بھی مدعو کرڈالا۔نوجوان طالبعلموں اور ایک رہنما، دانشور، عالم دین کے مابین باہم گفتگو کا یہ پروگرام نوجوانوں کو اپنے اصل مقصد کے لئے پرعزم بنانے کے لحاظ سے نہایت کامیاب رہا۔
اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خلوص کے ساتھ کی گئی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ لہٰذا چند ہی دن بعد یہ خاموش احتجاج رنگ لایا۔ میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ادارے کے تعلیم اور اخلاقی ماحول کو بحال کرنے کے لئے پے درپے اقدامات عمل میں لائے گئے اور اس طرح کے پروگراموں پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کردی گئی۔
دوسرے دن کی بات ہے کہ ثناء نے اخبار پڑھتے ہوئے اس خبر پر امی کی توجہ دلائی کہ ''وزارت تعلیم اپنے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق تمام تعلیمی اداروں میں موسیقی اور ناچ گانے کے پروگراموں پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کررہی ہے''۔ یہ خبر سنتے ہی سعدیہ کادل شکر کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ اسی شام ثناء نے فیس بک اکاونٹ پر مخصوص پیج کھولا تو مسرت آمیز چیخ کے ساتھ ماں کو فتح کا منظر دکھانے کے لئے بلایا، اس پابندی پر بہت سے لائکس اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ خیر نے شر کو شکست دے دی ہے۔
خیر کا یہ کارنامہ اور انجام دینے والی اس چھوٹی سی فوج کے ہر کارکن کا حصہ بہت خوب ہے مگر آج دین و ملت کو درپیش بے شمار محاذ ثناء جیسے ان گنت مستقبل کے مضبوط معماروں اور سعدیہ جیسی مضبوط ماؤں کا انتظار کررہے ہیں۔ خیر کے بیج سے کونپل کا پھوٹ جانا بہترین مستقبل کا ایک پراُمید اعلان ہے۔ ان کونپلوں کولہلہانے اور بہار سے ہمکنار ہونے کے لیے ہر مسلمان کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔