جمہوریت اور ہم
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے کہ دانہ خاک میں مل کے گل گلزار بنتا ہے
جمہوریت کے لیے انگریزی لفظ استعمال ہوتا ہے، جو دراصل یونانی زبان کا جڑواں لفظ ہے جو ڈیمو اورکریٹا سے لیا گیا ہے، ڈیمو کے معنی عوام اور کریٹا کی معنی حکومت کے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی مرضی سے نظام حکومت چلایا جاتا ہے مگر ہر دورِ حکومت میں عوام ذلیل و خوار ہوئی ہے، غربت کا گراف مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے، یہاں سب غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اس پر جمہوریت کا نعرہ ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔
جمہوریت دراصل ہے کیا؟ میرے جیسے عام انسان اسے ایک طریقہء حکومت سمجھتا ہے جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندے اپنی مرضی سے چن سکتی ہے لیکن اُس کی ساکھ کا انحصار عوام کے اُس اعتماد پر ہوتا ہے کہ جو نمائندے وہ منتخب کریں، صرف وہی حکومت کرنے کے حق دار ہوں گے۔
جمہوریت کی کامیابی میں انصاف کا بہت عمل دخل ہے اگر اس نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمہوریت صرف ایک طرزِ حکومت ہی نہیں بلکہ یہ ایک قومی اور انفرادی رویہ بھی ہے جو ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قوم کی طرح گھر بھی ایک اکائی ہوتا ہے، زیادہ ترگھروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیوی شوہر کی محکوم ہے، بچے ماں باپ کی مرضی پر چلتے ہیں، گھر میں اگر کچھ بزرگ ہیں تو وہ کسی آمر کا رول ادا کررہے ہیں اور ان سب باتوں کو ہم اپنی ریت و رواج کی طرح کے کچھ خوبصورت نام دے دیتے ہیں اور ان سے کبھی باہر نہیں نکل پاتے۔
میرامقصد نہ تو کسی کو گمراہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی منفی سوچ کی تعبیر کرنا بلکہ تاریخ کچھ اس طرح کی رہی ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک حاکم و محکوم کے تصور سے باہر نہیں آئے ہیں۔ یہاں مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں اور نہ ہی تنقید برائے تنقید، میں سمجھتی ہوں کہ جس طرح پہاڑ پر چڑھ کر اسکی اُنچائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اسی طرح حکومت میں رہتے ہوئے حالات کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
تصور جمہوریت اِس کے برعکس ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ ہے جس میں حکومتی ارکان مختلف اداروں کی بہتری کی کارکردگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور کسی نااہلی کی صورت میں وہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں یعنی ایک طرح سے حکومت کا کام عوام کو ہر شعبے میں سہولتیں فراہم کرنا ہے، جب کہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے قوانین کی پاس داری اور احترام کریں، بلکہ جہاں کوئی بدعنوانی دیکھیں، اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں لیکن جب ہمارے مزاجوں میں یہ عنصر سرے سے نظر ہی نہیں آتا تو ہم کسی طر ح توقع کریں کہ ہمارا ملک ایک مثالی ، جمہوری اور فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔؎
اپنی آزادی سے لیکر اب تک پاکستان نے گزشتہ تقریباً چھ عشروں میں ایک طویل سفر طے کیا ہے یہ سیاسی سفر بہت مشکل اور آزمائشوں سے پُرسفر ثابت ہوا ہے۔ اِس دوران پاکستان کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابلِ ذکر کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس کو بہت سے مسائل اور بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں پاکستانی عوام آزادی سے قبل خوابوں اور اداروں پر قائم رہے اور ان کو حقیقت کا رُوپ دینے کی کوشش کرتے رہے۔
تاریخ سیاست اور معاشیات کاچولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا ایک سیاسی لیڈر کو کم از کم ان تین علوم کی واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ یہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ملک کے حکمرانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے، ملک کو قرضوں کے ڈھیرمیں دفن کردیا ہے، پاکستانی روپیہ کو دو کوڑی کا کردیا ہے، نا پیٹرول ہے نہ بجلی نہ گیس، اس کے باوجود بل کا گراف بڑھتا جارہا ہے پیٹرول کی شدید قلت نے عوام کو ایک بار پھرعہدِ رفتہ کی طرف دھکیل دیا ہے، اب سائیکل اور تانگے کے زمانے کو ہم دورِ جدید میں پھر سے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ملک تو اب صرف حالات ِ جنگ میں رہنے لگا ہے، ملک کی جڑوں میں گھسی کالی بھیڑیں پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، ملک تو چاروں طرف سے مسائل کا شکار ہے، ٹھیک ہے پاکستانی عوام سخت جان ہے مگر ضروری تو نہیں کہ ہم ان معصوم لوگوں کو اتنا بیوقوف بنادیں کہ اُن کے جسم کا سارا خون ہی نچوڑ ڈالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اُن کے پاس کچھ نہ بچے تو وہ آپ کو ہی چھیر پھاڑ دیں۔
یہاں حالات تو یہ ہیں کہ بچہ بچہ ٹیکس ادا کرتا ہے جو کہ آخری سانسوں تک چلتا رہے گا مگر اُس کے باوجود قرضے کے لیے کشکول ہر وقت تیار رہتے ہیں کوئی ان غریب عوام کو یہ بتائے کہ آخر یہ قرضے خرچ کہاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔؟ سب ان کے جذبات سے کھلیتے ہیں تبدیلی کا خواب دکھا کر ان کی آنکھوں سے خواب ہی نوچ ڈالتے ہیں ہر کوئی آ، آکر ایک تماشہ دکھاتا ہے، ہم پے در پے شکستوں سے دوچار ہیں دہشت گردی، غربت، قلت، بیماریوں کی یلغار، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور افراطِ زر کی وجہ سے روز بروز پریشانیاں بڑھتی چلی جارہی ہے۔
انفرادی طور پر ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں جمہوریت کو پروان چڑھائیں، شاید وقت کے ساتھ ساتھ انتخابات کی بھٹی سے گزرتے گزرتے ہم بھی کسی نہ کسی حد تک اپنے آپ کو جمہوری ملک کہنے کے قابل ہوجائیں گے لیکن ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی غلامانہ اور حاکمانہ ذہنیت سے باہر نکلیں، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا سیکھیں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کریں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک طویل ترین غیر ہموار اور نشیب و فراز کا حامل سفر رہا ہے۔
تحریک پاکستان کہ آرزوؤں اور توقعات کے برخلاف پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع نہیں ہوسکا، ملک کی تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ دستور کے تعطل اور مارشل لاؤں کا شکار رہا ہے چنا نچہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر جمہوریت ہمارے ملک میں کیوں قائم نہیں ہوسکی؟ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ فکر ہے اور طرزِ زندگی کا نام ہے، جن معاشروں میں ایک دوسرے کے خیالات کا احترام اور اختلافات کو برداشت کرنے کا رویہ پایا جاتا ہے درحقیقت وہی معاشرے جمہوری سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ہم جمہوری طرزِ زفکر کو اپنے معاشرے کی سطح پر اختیار کریں۔
دوسری بات یہ کہ جمہوریت کے قیام اور تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک کے سب ادارے اپنے طے شدہ فرائض تک خود کو محدود رکھیں، پارلیمنٹ ایک بااحتیار ادارہ بنے، الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے کام کرے، ملک کی عدلیہ سیاسی اداروں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا بیج یکدم ایک تناور درخت نہیں بن سکتا، لہٰذا جمہوریت کے تجربے کو صبر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ پودا آہستہ آہستہ ہی پروان چڑھتا ہے اور ثمر بار ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور آزادی اسکا بنیادی حق ہے اب اس حق کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ حاکم، محکوم کی بات ختم کریں، مرد عورت سب کو آزاد رہنے اور جینے کا حق ہے، ؎
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی مرضی سے نظام حکومت چلایا جاتا ہے مگر ہر دورِ حکومت میں عوام ذلیل و خوار ہوئی ہے، غربت کا گراف مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے، یہاں سب غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اس پر جمہوریت کا نعرہ ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔
جمہوریت دراصل ہے کیا؟ میرے جیسے عام انسان اسے ایک طریقہء حکومت سمجھتا ہے جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندے اپنی مرضی سے چن سکتی ہے لیکن اُس کی ساکھ کا انحصار عوام کے اُس اعتماد پر ہوتا ہے کہ جو نمائندے وہ منتخب کریں، صرف وہی حکومت کرنے کے حق دار ہوں گے۔
جمہوریت کی کامیابی میں انصاف کا بہت عمل دخل ہے اگر اس نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمہوریت صرف ایک طرزِ حکومت ہی نہیں بلکہ یہ ایک قومی اور انفرادی رویہ بھی ہے جو ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قوم کی طرح گھر بھی ایک اکائی ہوتا ہے، زیادہ ترگھروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیوی شوہر کی محکوم ہے، بچے ماں باپ کی مرضی پر چلتے ہیں، گھر میں اگر کچھ بزرگ ہیں تو وہ کسی آمر کا رول ادا کررہے ہیں اور ان سب باتوں کو ہم اپنی ریت و رواج کی طرح کے کچھ خوبصورت نام دے دیتے ہیں اور ان سے کبھی باہر نہیں نکل پاتے۔
میرامقصد نہ تو کسی کو گمراہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی منفی سوچ کی تعبیر کرنا بلکہ تاریخ کچھ اس طرح کی رہی ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک حاکم و محکوم کے تصور سے باہر نہیں آئے ہیں۔ یہاں مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں اور نہ ہی تنقید برائے تنقید، میں سمجھتی ہوں کہ جس طرح پہاڑ پر چڑھ کر اسکی اُنچائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اسی طرح حکومت میں رہتے ہوئے حالات کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
تصور جمہوریت اِس کے برعکس ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ ہے جس میں حکومتی ارکان مختلف اداروں کی بہتری کی کارکردگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور کسی نااہلی کی صورت میں وہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں یعنی ایک طرح سے حکومت کا کام عوام کو ہر شعبے میں سہولتیں فراہم کرنا ہے، جب کہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے قوانین کی پاس داری اور احترام کریں، بلکہ جہاں کوئی بدعنوانی دیکھیں، اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں لیکن جب ہمارے مزاجوں میں یہ عنصر سرے سے نظر ہی نہیں آتا تو ہم کسی طر ح توقع کریں کہ ہمارا ملک ایک مثالی ، جمہوری اور فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔؎
مکین ہیں، مکان ہیں، ضعیف ہیں، جوان ہیں
کام کچھ نہیں یہاں بیان ہی بیان ہیں
اپنی آزادی سے لیکر اب تک پاکستان نے گزشتہ تقریباً چھ عشروں میں ایک طویل سفر طے کیا ہے یہ سیاسی سفر بہت مشکل اور آزمائشوں سے پُرسفر ثابت ہوا ہے۔ اِس دوران پاکستان کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابلِ ذکر کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس کو بہت سے مسائل اور بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں پاکستانی عوام آزادی سے قبل خوابوں اور اداروں پر قائم رہے اور ان کو حقیقت کا رُوپ دینے کی کوشش کرتے رہے۔
تاریخ سیاست اور معاشیات کاچولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا ایک سیاسی لیڈر کو کم از کم ان تین علوم کی واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ یہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ملک کے حکمرانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے، ملک کو قرضوں کے ڈھیرمیں دفن کردیا ہے، پاکستانی روپیہ کو دو کوڑی کا کردیا ہے، نا پیٹرول ہے نہ بجلی نہ گیس، اس کے باوجود بل کا گراف بڑھتا جارہا ہے پیٹرول کی شدید قلت نے عوام کو ایک بار پھرعہدِ رفتہ کی طرف دھکیل دیا ہے، اب سائیکل اور تانگے کے زمانے کو ہم دورِ جدید میں پھر سے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ملک تو اب صرف حالات ِ جنگ میں رہنے لگا ہے، ملک کی جڑوں میں گھسی کالی بھیڑیں پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، ملک تو چاروں طرف سے مسائل کا شکار ہے، ٹھیک ہے پاکستانی عوام سخت جان ہے مگر ضروری تو نہیں کہ ہم ان معصوم لوگوں کو اتنا بیوقوف بنادیں کہ اُن کے جسم کا سارا خون ہی نچوڑ ڈالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اُن کے پاس کچھ نہ بچے تو وہ آپ کو ہی چھیر پھاڑ دیں۔
یہاں حالات تو یہ ہیں کہ بچہ بچہ ٹیکس ادا کرتا ہے جو کہ آخری سانسوں تک چلتا رہے گا مگر اُس کے باوجود قرضے کے لیے کشکول ہر وقت تیار رہتے ہیں کوئی ان غریب عوام کو یہ بتائے کہ آخر یہ قرضے خرچ کہاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔؟ سب ان کے جذبات سے کھلیتے ہیں تبدیلی کا خواب دکھا کر ان کی آنکھوں سے خواب ہی نوچ ڈالتے ہیں ہر کوئی آ، آکر ایک تماشہ دکھاتا ہے، ہم پے در پے شکستوں سے دوچار ہیں دہشت گردی، غربت، قلت، بیماریوں کی یلغار، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور افراطِ زر کی وجہ سے روز بروز پریشانیاں بڑھتی چلی جارہی ہے۔
انفرادی طور پر ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں جمہوریت کو پروان چڑھائیں، شاید وقت کے ساتھ ساتھ انتخابات کی بھٹی سے گزرتے گزرتے ہم بھی کسی نہ کسی حد تک اپنے آپ کو جمہوری ملک کہنے کے قابل ہوجائیں گے لیکن ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی غلامانہ اور حاکمانہ ذہنیت سے باہر نکلیں، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا سیکھیں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کریں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک طویل ترین غیر ہموار اور نشیب و فراز کا حامل سفر رہا ہے۔
تحریک پاکستان کہ آرزوؤں اور توقعات کے برخلاف پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع نہیں ہوسکا، ملک کی تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ دستور کے تعطل اور مارشل لاؤں کا شکار رہا ہے چنا نچہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر جمہوریت ہمارے ملک میں کیوں قائم نہیں ہوسکی؟ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ فکر ہے اور طرزِ زندگی کا نام ہے، جن معاشروں میں ایک دوسرے کے خیالات کا احترام اور اختلافات کو برداشت کرنے کا رویہ پایا جاتا ہے درحقیقت وہی معاشرے جمہوری سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ہم جمہوری طرزِ زفکر کو اپنے معاشرے کی سطح پر اختیار کریں۔
دوسری بات یہ کہ جمہوریت کے قیام اور تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک کے سب ادارے اپنے طے شدہ فرائض تک خود کو محدود رکھیں، پارلیمنٹ ایک بااحتیار ادارہ بنے، الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے کام کرے، ملک کی عدلیہ سیاسی اداروں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا بیج یکدم ایک تناور درخت نہیں بن سکتا، لہٰذا جمہوریت کے تجربے کو صبر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ پودا آہستہ آہستہ ہی پروان چڑھتا ہے اور ثمر بار ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور آزادی اسکا بنیادی حق ہے اب اس حق کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ حاکم، محکوم کی بات ختم کریں، مرد عورت سب کو آزاد رہنے اور جینے کا حق ہے، ؎
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے کہ دانہ خاک میں مل کے گل گلزار بنتا ہے