’’ گاڈ پارٹیکل‘‘ کا وجود ثابت ہوگیا جہانِ سائنس میں ایک نئے باب کا آغاز
ڈارک میٹر اور بلیک ہولز سمیت کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد ملے گی
خدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کردہ اس بے کراں کائنات کی وسعتوں میں ان گنت راز پوشیدہ ہیں۔ حضرتِ انسان کے فطری تجسس نے اسے مجبور کیا کہ وہ ان اسراروں سے پردہ اٹھانے کی سعی کرے۔ ابن آدم کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارض و سما میں چُھپی حقیقتیں اس پر آشکارا ہونے لگیں۔ فطرت کی کھوج نے جہاں کائنات کے بارے میں انسان کی معلومات کو وسعت دی،
وہیں یہ عمل مختلف علوم کی بنیاد کا سبب بھی بنا۔ ان علوم، بالخصوص سائنسی علوم کے آغاز اور وقت رفتہ کے ساتھ ان میں ہونے والی ترقی نے تسخیرِ کائنات کے عمل کو مہمیز دی اور انسان ارض و سما کے سربستہ رازوں سے واقف ہوتا چلاگیا۔ ان رازوں سے واقفیت دنیاوی اعتبار سے اس کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی اور اس کی زندگی سہل تر ہوتی چلی گئی۔
سطح ارض پر اپنی آمد سے لے کر آج تک، انسان کرۂ ارض اور خلائے بسیط کے بے شمار رازوں سے پردہ اٹھاچکا ہے۔ اس کے باوجود بہت کچھ اس کے دائرۂ علم سے باہر ہے۔ بہرحال اس کا فطری تجسس اسے تحقیق و جستجو میں مصروف رکھے ہوئے ہے، جس کے صلے میں اسرارِ کائنات اس پر کُھلتے چلے جارہے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک انتہائی اہم کام یابی اسے گذشتہ دنوں حاصل ہوئی، اور یہ کام یابی ہے کائنات میں مادّے کی موجودگی کا سبب بننے والے ذرّے یا ''گاڈ پارٹیکل'' کی دریافت! سرکردہ سائنس دانوں کے مطابق یہ کام یابی اتنی ہی اہم ہے، جتنا کہ انسان کا پہلی بار چاند پر قدم رکھنا یا کولمبس کا امریکا دریافت کرنا۔
کائنات اور اس میں چہار سُو پھیلے ہوئے مادّی اجسام کیسے وجود میں آئے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں دہائیوں سے سائنس داں سرگرداں ہیں۔ کائنات کی تخلیق کے بارے میں جاننے کے سلسلے میں ماہرین طبیعیات کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ''اسٹینڈرڈ ماڈل'' کا رُوپ دھار گئیں۔ اسٹینڈرڈ ماڈل ایک ایسا سائنسی نظریہ ہے جو ان تمام ذرّات اور طاقتوں کی وضاحت کرتا ہے، جن سے یہ کائنات مل کر بنی ہے۔ علاوہ ازیں یہ نظریہ مختلف طاقتوں کے درمیان ہونے والے تعاملات کو بھی بیان کرتا ہے۔
''عظیم دھماکے 'بِگ بینگ' کے بعد، جس نے کائنات کو جنم دیا، سیکنڈ کے ایک حصّے میں توانائی کا غیرمرئی میدان یا انرجی فیلڈ بھی وجود میں آگئی۔ توانائی کا یہ میدان پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ ذرّات اس میدان میں سے گزرتے ہوئے کمیت حاصل کرتے ہیں۔ توانائی کا یہ میدان ان ذرّات کو کمیت کے ساتھ ساتھ جسامت اور ہیئت بھی دیتا ہے اور ان ذرّات کو ایٹموں کی تشکیل کے قابل بناتا ہے، وہی ایٹم جن سے اس کائنات کی ہر شے مل کر بنی ہے! ہر توانائی کے میدان کا ایک مخصوص ذرّہ ہوتا ہے، جو اس کے اطراف موجود یا اس میں سے گزرنے والے اجسام سے اس کے تعامل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسی طرح توانائی کے اس میدان کا بھی یقیناً کوئی نہ کوئی ذرّہ ہوگا۔'' یہ وہ مفروضہ ہے، جو 1964ء میں نظریاتی طبیعیات کے برطانوی ماہر پروفیسر پیٹر ویئر ہگز نے پیش کیا تھا، جسے اسٹینڈرڈ ماڈل کا حصہ بنالیا گیا تھا۔ پروفیسر پیٹر ہگز کے نام کی مناسبت سے توانائی کے اس میدان کو ''ہگز فیلڈ'' اور اس کے حکم راں ذرّے کو ''ہگز پارٹیکل'' یا ''ہگز بوسون'' کا نام دیا گیا۔ بوسون انگریزی میں توانائی کی کسی سطح کے لحاظ سے تقسیم شدہ ایٹمی اور نیم ایٹمی ذرّے کو کہتے ہیں۔ اس مفروضے کے مطابق ''ہگز بوسون'' چوں کہ وہ ذرّہ ہے، جو دیگر تمام ذرّات کو کمیت دیتا ہے۔ اس لیے اسے ''گاڈ پارٹیکل'' بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں '' گاڈ پارٹیکل'' وہ ذرّہ ہے، کائنات میں موجود ہر ٹھوس شے اپنے وجود کے لیے جس کی مرہون منّت ہے۔ ہگز کے مفروضے کی رُو سے اگر یہ ذرّہ نہ ہوتا تو دیگر تمام ذرّات خلائے بسیط میں روشنی کی طرح اِدھر سے اُدھر محو سفر ہوتے۔
گاڈ پارٹیکل سے قبل اسٹینڈرڈ ماڈل میں گیارہ ذرّات کی پیش گوئی کی گئی تھی، جو دریافت ہوچکے تھے۔ گویا گاڈ پارٹیکل آخری کڑی تھی، جس کی دریافت کے بعد اسٹینڈرڈ ماڈل کی تکمیل ہوجاتی اور یہ معمّا حل ہوجاتا۔ دراصل یہ ذرّہ ہی کائنات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنیاد تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں یہ ماڈل برقرار نہیں رہ سکتا تھا، کیوں کہ دوسری صورت میں ہر شے روشنی جیسا طرز عمل ظاہر کرتی، خلاء میں تیرتی رہتی اور کسی دوسری شے کے ساتھ تعامل نہ کرپاتی۔ ایٹموں کا کوئی وجود نہ ہوتا، نتیجتاً نہ تو عام مادّہ تخلیق پاتا اور نہ ہی جان دار اشیاء اس کرۂ ارض پر موجود ہوتیں!
پروفیسر ہگز اپنا مفروضہ پیش کرنے کے بعد تحقیق اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے تھے۔ انھیں اس بات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ ان کے پیش کردہ مفروضے کو ان کے ہوتے ہوئے صحیح یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی، کیوں کہ اس مقصد کے لیے ویسے ہی حالات پیدا کیے جانے کی ضرورت تھی، جیسے کہ بگ بینگ کے فوری بعد پیدا ہوئے تھے۔ اور اس وقت دور دور تک ایسے کسی تجربے کے لیے ٹیکنالوجی اور وسائل دست یاب نہیں تھے۔ اور یہ بات تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ ان کی زندگی ہی میں نہ صرف ان کے مفروضے کی بنیاد پر سائنسی تاریخ کا سب سے بڑا تجربہ ہوگا، بلکہ یہ مفروضہ درست بھی ثابت ہوگا۔
سب سے پہلے 1980ء کی دہائی میں ہگز بوسون کی حقیقت جانچنے کے لیے ایک ایسے تجربے کا تصور پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں بگ بینگ جیسے حالات پیدا کیے جاسکیں۔ سائنس داں اس آئیڈیے پر کام کرتے رہے اور بالآخر 1994ء میں یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ (سرن) نے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ چار سال کے بعد اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا۔ آٹھ برس کی مسلسل محنت کے بعد 100 سے زاید ممالک کے 10000سے زیادہ سائنس داں اور انجنیئرز سائنسی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے منہگی مشین تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 27 کلومیٹر لمبی اور 9 ارب ڈالر کی کثیر لاگت سے تیار ہونے والی یہ مشین سویڈن اور فرانس کی سرحد پر زیرزمین575 فٹ کی گہرائی میں بنائی گئی ایک تجربہ گاہ میں نصب کی گئی۔ ذرّات کے ٹکراؤ کے لیے بنائی جانے والی اس مشین (پارٹیکل ایکسلیریٹر) کو لارج ہیڈرن کولائیڈر (ایل ایچ سی) کا نام دیا گیا۔ اس طویل ترین سرنگ نما مشین میں ان گنت آلات کے ساتھ ساتھ 5000 کے لگ بھگ دیوقامت مقناطیس بھی نصب کیے گئے تھے۔ لارج ہیڈرن کولائیڈر میں تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرتی پروٹان کی دو مخالف شعاعوں کو ٹکرایا جانا تھا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بگ بینگ کے فوری بعد جیسے حالات پیدا ہوتے۔
نومبر 2009 ء سے لے کر اپریل 2012ء تک ایل ایچ سی میں مختلف شدت کی پروٹان شعاعیں آپس میں ٹکرا کر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ آخری بار پروٹان شعاعیں رواں برس 5 اپریل کو ٹکرائی گئی تھیں اور 4 جولائی کو سرن کے ڈائریکٹر جنرل رالف ہیور نے سرن کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا،''ایک عام آدمی کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ ہم نے ' گاڈ پارٹیکل' دریافت کرلیا ہے۔''
گاڈ پارٹیکل کا اعلان کرتے ہوئے رالف ہیور کے محتاط لہجہ اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ نودریافت شدہ ذرّے کا طرز عمل ہگز بوسون ہی جیسا ہے، لیکن اس کی کمیت توقع سے نسبتاً کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سے زاید گاڈ پارٹیکلز موجود ہوسکتے ہیں۔ بہرصورت گاڈ پارٹیکل کے وجود کی تصدیق ہوگئی، جس کی پیش گوئی نصف صدی قبل پروفیسر ہگز نے کی تھی۔
پروفیسر ہگز بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یہ اعلان سُن کر وہ آب دیدہ ہوگئے۔ 83 سالہ پروفیسر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید نہیں تھی کہ یہ سب کچھ ان کی زندگی ہی میں ہوگا۔ ہگزبوسون کی موجودگی کے اعلان کو انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے یادگار اور قیمتی لمحہ قرار دیا۔
سائنس دانوں نے گاڈ پارٹیکل کی دریافت کو انقلابی اور جہانِ سائنس میں ایک نئے باب کا آغاز قرار دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر ہگز کے ہم عصر، ہم پیشہ، ہم وطن عالمی شہرت یافتہ سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے ایک بار 100ڈالر کی شرط لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ گاڈ پارٹیکل کبھی تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔ رالف ہیور کے اعلان کے بعد ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم نتیجہ ہے اور اس دریافت پر پیٹر ہگز کو نوبیل پرائز ملنا چاہیے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گاڈ پارٹیکل کا وجود ثابت ہونے کے بعد سائنس بالخصوص طبیعیات میں ایک نئے باب کی ابتدا ہوگئی ہے۔ انھیں امید ہے کہ اس کام یابی سے ڈارک میٹر اور بلیک ہولز سمیت کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔
وہیں یہ عمل مختلف علوم کی بنیاد کا سبب بھی بنا۔ ان علوم، بالخصوص سائنسی علوم کے آغاز اور وقت رفتہ کے ساتھ ان میں ہونے والی ترقی نے تسخیرِ کائنات کے عمل کو مہمیز دی اور انسان ارض و سما کے سربستہ رازوں سے واقف ہوتا چلاگیا۔ ان رازوں سے واقفیت دنیاوی اعتبار سے اس کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی اور اس کی زندگی سہل تر ہوتی چلی گئی۔
سطح ارض پر اپنی آمد سے لے کر آج تک، انسان کرۂ ارض اور خلائے بسیط کے بے شمار رازوں سے پردہ اٹھاچکا ہے۔ اس کے باوجود بہت کچھ اس کے دائرۂ علم سے باہر ہے۔ بہرحال اس کا فطری تجسس اسے تحقیق و جستجو میں مصروف رکھے ہوئے ہے، جس کے صلے میں اسرارِ کائنات اس پر کُھلتے چلے جارہے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک انتہائی اہم کام یابی اسے گذشتہ دنوں حاصل ہوئی، اور یہ کام یابی ہے کائنات میں مادّے کی موجودگی کا سبب بننے والے ذرّے یا ''گاڈ پارٹیکل'' کی دریافت! سرکردہ سائنس دانوں کے مطابق یہ کام یابی اتنی ہی اہم ہے، جتنا کہ انسان کا پہلی بار چاند پر قدم رکھنا یا کولمبس کا امریکا دریافت کرنا۔
کائنات اور اس میں چہار سُو پھیلے ہوئے مادّی اجسام کیسے وجود میں آئے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں دہائیوں سے سائنس داں سرگرداں ہیں۔ کائنات کی تخلیق کے بارے میں جاننے کے سلسلے میں ماہرین طبیعیات کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ''اسٹینڈرڈ ماڈل'' کا رُوپ دھار گئیں۔ اسٹینڈرڈ ماڈل ایک ایسا سائنسی نظریہ ہے جو ان تمام ذرّات اور طاقتوں کی وضاحت کرتا ہے، جن سے یہ کائنات مل کر بنی ہے۔ علاوہ ازیں یہ نظریہ مختلف طاقتوں کے درمیان ہونے والے تعاملات کو بھی بیان کرتا ہے۔
''عظیم دھماکے 'بِگ بینگ' کے بعد، جس نے کائنات کو جنم دیا، سیکنڈ کے ایک حصّے میں توانائی کا غیرمرئی میدان یا انرجی فیلڈ بھی وجود میں آگئی۔ توانائی کا یہ میدان پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ ذرّات اس میدان میں سے گزرتے ہوئے کمیت حاصل کرتے ہیں۔ توانائی کا یہ میدان ان ذرّات کو کمیت کے ساتھ ساتھ جسامت اور ہیئت بھی دیتا ہے اور ان ذرّات کو ایٹموں کی تشکیل کے قابل بناتا ہے، وہی ایٹم جن سے اس کائنات کی ہر شے مل کر بنی ہے! ہر توانائی کے میدان کا ایک مخصوص ذرّہ ہوتا ہے، جو اس کے اطراف موجود یا اس میں سے گزرنے والے اجسام سے اس کے تعامل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسی طرح توانائی کے اس میدان کا بھی یقیناً کوئی نہ کوئی ذرّہ ہوگا۔'' یہ وہ مفروضہ ہے، جو 1964ء میں نظریاتی طبیعیات کے برطانوی ماہر پروفیسر پیٹر ویئر ہگز نے پیش کیا تھا، جسے اسٹینڈرڈ ماڈل کا حصہ بنالیا گیا تھا۔ پروفیسر پیٹر ہگز کے نام کی مناسبت سے توانائی کے اس میدان کو ''ہگز فیلڈ'' اور اس کے حکم راں ذرّے کو ''ہگز پارٹیکل'' یا ''ہگز بوسون'' کا نام دیا گیا۔ بوسون انگریزی میں توانائی کی کسی سطح کے لحاظ سے تقسیم شدہ ایٹمی اور نیم ایٹمی ذرّے کو کہتے ہیں۔ اس مفروضے کے مطابق ''ہگز بوسون'' چوں کہ وہ ذرّہ ہے، جو دیگر تمام ذرّات کو کمیت دیتا ہے۔ اس لیے اسے ''گاڈ پارٹیکل'' بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں '' گاڈ پارٹیکل'' وہ ذرّہ ہے، کائنات میں موجود ہر ٹھوس شے اپنے وجود کے لیے جس کی مرہون منّت ہے۔ ہگز کے مفروضے کی رُو سے اگر یہ ذرّہ نہ ہوتا تو دیگر تمام ذرّات خلائے بسیط میں روشنی کی طرح اِدھر سے اُدھر محو سفر ہوتے۔
گاڈ پارٹیکل سے قبل اسٹینڈرڈ ماڈل میں گیارہ ذرّات کی پیش گوئی کی گئی تھی، جو دریافت ہوچکے تھے۔ گویا گاڈ پارٹیکل آخری کڑی تھی، جس کی دریافت کے بعد اسٹینڈرڈ ماڈل کی تکمیل ہوجاتی اور یہ معمّا حل ہوجاتا۔ دراصل یہ ذرّہ ہی کائنات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنیاد تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں یہ ماڈل برقرار نہیں رہ سکتا تھا، کیوں کہ دوسری صورت میں ہر شے روشنی جیسا طرز عمل ظاہر کرتی، خلاء میں تیرتی رہتی اور کسی دوسری شے کے ساتھ تعامل نہ کرپاتی۔ ایٹموں کا کوئی وجود نہ ہوتا، نتیجتاً نہ تو عام مادّہ تخلیق پاتا اور نہ ہی جان دار اشیاء اس کرۂ ارض پر موجود ہوتیں!
پروفیسر ہگز اپنا مفروضہ پیش کرنے کے بعد تحقیق اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے تھے۔ انھیں اس بات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ ان کے پیش کردہ مفروضے کو ان کے ہوتے ہوئے صحیح یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی، کیوں کہ اس مقصد کے لیے ویسے ہی حالات پیدا کیے جانے کی ضرورت تھی، جیسے کہ بگ بینگ کے فوری بعد پیدا ہوئے تھے۔ اور اس وقت دور دور تک ایسے کسی تجربے کے لیے ٹیکنالوجی اور وسائل دست یاب نہیں تھے۔ اور یہ بات تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ ان کی زندگی ہی میں نہ صرف ان کے مفروضے کی بنیاد پر سائنسی تاریخ کا سب سے بڑا تجربہ ہوگا، بلکہ یہ مفروضہ درست بھی ثابت ہوگا۔
سب سے پہلے 1980ء کی دہائی میں ہگز بوسون کی حقیقت جانچنے کے لیے ایک ایسے تجربے کا تصور پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں بگ بینگ جیسے حالات پیدا کیے جاسکیں۔ سائنس داں اس آئیڈیے پر کام کرتے رہے اور بالآخر 1994ء میں یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ (سرن) نے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ چار سال کے بعد اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا۔ آٹھ برس کی مسلسل محنت کے بعد 100 سے زاید ممالک کے 10000سے زیادہ سائنس داں اور انجنیئرز سائنسی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے منہگی مشین تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 27 کلومیٹر لمبی اور 9 ارب ڈالر کی کثیر لاگت سے تیار ہونے والی یہ مشین سویڈن اور فرانس کی سرحد پر زیرزمین575 فٹ کی گہرائی میں بنائی گئی ایک تجربہ گاہ میں نصب کی گئی۔ ذرّات کے ٹکراؤ کے لیے بنائی جانے والی اس مشین (پارٹیکل ایکسلیریٹر) کو لارج ہیڈرن کولائیڈر (ایل ایچ سی) کا نام دیا گیا۔ اس طویل ترین سرنگ نما مشین میں ان گنت آلات کے ساتھ ساتھ 5000 کے لگ بھگ دیوقامت مقناطیس بھی نصب کیے گئے تھے۔ لارج ہیڈرن کولائیڈر میں تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرتی پروٹان کی دو مخالف شعاعوں کو ٹکرایا جانا تھا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بگ بینگ کے فوری بعد جیسے حالات پیدا ہوتے۔
نومبر 2009 ء سے لے کر اپریل 2012ء تک ایل ایچ سی میں مختلف شدت کی پروٹان شعاعیں آپس میں ٹکرا کر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ آخری بار پروٹان شعاعیں رواں برس 5 اپریل کو ٹکرائی گئی تھیں اور 4 جولائی کو سرن کے ڈائریکٹر جنرل رالف ہیور نے سرن کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا،''ایک عام آدمی کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ ہم نے ' گاڈ پارٹیکل' دریافت کرلیا ہے۔''
گاڈ پارٹیکل کا اعلان کرتے ہوئے رالف ہیور کے محتاط لہجہ اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ نودریافت شدہ ذرّے کا طرز عمل ہگز بوسون ہی جیسا ہے، لیکن اس کی کمیت توقع سے نسبتاً کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سے زاید گاڈ پارٹیکلز موجود ہوسکتے ہیں۔ بہرصورت گاڈ پارٹیکل کے وجود کی تصدیق ہوگئی، جس کی پیش گوئی نصف صدی قبل پروفیسر ہگز نے کی تھی۔
پروفیسر ہگز بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یہ اعلان سُن کر وہ آب دیدہ ہوگئے۔ 83 سالہ پروفیسر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید نہیں تھی کہ یہ سب کچھ ان کی زندگی ہی میں ہوگا۔ ہگزبوسون کی موجودگی کے اعلان کو انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے یادگار اور قیمتی لمحہ قرار دیا۔
سائنس دانوں نے گاڈ پارٹیکل کی دریافت کو انقلابی اور جہانِ سائنس میں ایک نئے باب کا آغاز قرار دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر ہگز کے ہم عصر، ہم پیشہ، ہم وطن عالمی شہرت یافتہ سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے ایک بار 100ڈالر کی شرط لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ گاڈ پارٹیکل کبھی تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔ رالف ہیور کے اعلان کے بعد ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم نتیجہ ہے اور اس دریافت پر پیٹر ہگز کو نوبیل پرائز ملنا چاہیے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گاڈ پارٹیکل کا وجود ثابت ہونے کے بعد سائنس بالخصوص طبیعیات میں ایک نئے باب کی ابتدا ہوگئی ہے۔ انھیں امید ہے کہ اس کام یابی سے ڈارک میٹر اور بلیک ہولز سمیت کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔