یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

میرے گزشتہ کالم سے موجودہ تک صحرا کے بچے بھوک و افلاس سے مرتے رہے،

saifuzzaman1966@gmail.com

میرے گزشتہ کالم سے موجودہ تک صحرا کے بچے بھوک و افلاس سے مرتے رہے، تڑپتے رہے ان کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ صوبائی حکومت نے کوئی ایکشن لیا نہ وفاق سے کوئی مدد آئی۔ لگتا ہے، بلکہ یقینا کسی نے میرا کالم پڑھا ہی نہیں، لہٰذا عمل کیا ہونا تھا۔ حالانکہ میری طرح اور بھی بہت سے لکھنے والے ان دنوں اس موضوع پر لکھ رہے ہیں اور حکومتی توجہ اس جانب مبذول کروا رہے ہیں لیکن نتیجہ ندارد۔ بہت پکارا، داد و فریاد کی، کسی نے ایک نہ سنی۔ ہماری حکومتیں اکثر دنیا کے ان ممالک کے لیے امدادی سامان بھیجتی رہتی ہیں جہاں کوئی حادثہ ہوا ہو۔

زلزلے، سیلاب کے باعث انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ہو لیکن خود اپنے ملک میں آنکھیں موند لیں۔ امدادی سامان تو درکنار اب تو کوئی بیان تک نہیں آتا۔ ہمارے دانشور، شعرا، لکھاری، کالم نویس جب فکر و فلسفے پر یا سیاسی حالات پر مضامین تحریر کرتے ہیں تو ان کے لفظوں کی کانٹ چھانٹ پڑھنے والے کو یکدم ایک دوسری دنیا میں لے جاتی ہے۔ ایسی ایسی شعلہ بیانی، لن ترانی دیکھنے میں آتی ہے کہ الامان۔ ان کا قد کاٹھ بڑھ جاتا ہے۔ انھیں حکومتی و سیاسی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ملتی ہے۔ مختلف میڈیا چینلز انھیں اپنانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں ان کی قیمتیں اناج منڈی کے بھاؤ تاؤ کی طرح طے ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نامور ہوجاتے ہیں۔

لیکن یہ صحرا ہے۔ تا حد نظر صحرا، دھول مٹی کا صحرا، دکھوں کا صحرا یہاں نہ بجلی ہے نہ پانی، گیس تو دور کی بات ہے زندہ رہنے کے لیے سامان زیست نہیں۔ مرنے کے لیے کفن دفن کا انتظام نہیں۔ لوگ تعلیم سے محروم۔ شعور سے بے بہرہ، کچھ مسلم ہیں کچھ ہندو لیکن انسان بہر حال ہیں۔ لہٰذا کون لکھے ان کے مسائل، وقت کا زیاں ہو گا اور اگر کوئی لکھ دے تو اس کا قاری کہاں سے لائے؟ لوگوں کو تو چٹ پٹی خبریں چاہئیں، بالی وڈ، ہالی وڈ کے چمکتے دمکتے ستاروں کی خبریں ان مدقوق، زندگی سے مرجھائے چہروں کو کون سنے، کون پڑھے اور اگر کسی نے کوئی خبر پڑھ بھی لی تو حیرت سے دریافت کیا۔ ارے صحرائے تھر۔ کہاں ہے یہ ؟ جواب ملا۔ پاکستان میں، کیا سندھ میں ہے؟

ہاں ہے تو سندھ میں ہی۔
تو کیا ہوا وہاں تو ریت ہی ریت ہے۔
نہیں کچھ انسانوں کی آبادی بھی ہے۔
اچھا ہو گی۔ کیا کام کرتے ہیں وہ لوگ؟
فی الحال تو بھوکے مرتے ہیں۔
اوہو وو۔ اﷲ مدد کرے ان کی۔ (آمین)

میں اکثر سوچتا ہوں کہ صحرا کی کہانی کون لکھے گا؟ آخر یہ کس سیاسی جماعت کے لوگ ہیں؟ ان کا بڑا کون ہے؟ میں کسے مخاطب کروں یہ کہنے کے لیے کہ وہ آگے بڑھے اور موت کے بے رحم منہ میں جاتے ہوئے ان معصوم بچوں کو روک لے۔ بڑا ابہام ہے اس میں کہ ذمے دار کون ہے؟ شاید داعش یا طالبان ہوں۔ ایک دنیا موت کا ذمے دار انھیں قرار دیتی ہے تو ہم بھی کیوں نہ دے لیں؟ لیکن ہو گا کیا؟ کم از کم بھی۔ اﷲ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ پائے گا اور جب وہ نازل ہو گا تو سرعت کے ساتھ ہو گا۔ بعید الاثر ہو گا۔ آپ ملک کی ترقی و خوشحالی کی بات کرتے ہیں تو سنیے۔ سب دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ کسی GDP میں اضافہ نہیں ہو گا۔


کوئی انرجی بحران حل نہیں ہو گا۔ نہ ملک کا بہتر دفاع ممکن رہے گا۔ اگر آپ اپنے لوگوں کو غیر محفوظ کر دیں گے۔ ان پر زندگی کی ہر نعمت کو حرام کر دیں گے۔ ان سے سانسوں تک کی انرجی چھین لیں گے۔ تو پھر تباہی آئے گی۔ قدرت کا عذاب اس ملک اور قوم پر مسلط ہو جائے گا۔ تب سب کو علم ہوجائے گا کہ صحرائے تھر کہاں واقع ہے؟ کس صوبے میں ہے؟ اس کی آبادی کتنی ہے اور اس میں رہنے بسنے والے لوگ کون ہیں؟ چنانچہ اس سے پہلے ہی ہوش کے ناخن لے لیں۔

انصاف سے کام لیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے کی بجائے آگے بڑھیں اور صحرا کے ان معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی مدد کریں۔ خدارا! یہ آپ سے التماس کرتے ہیں کہ فوری اقدامات کیے جائیں۔ صوبہ سندھ کی نااہل اور بے حس و حرکت حکومت پر لوگوں کی جان و مال جیسی حساس ذمے داری مت ڈالیں۔ یہاں تو یہی پتہ نہیں چل رہا کہ حاکم ہے کون؟ وزیر اعلیٰ، وزیر اعلیٰ نہیں۔ نہ وزیر بلدیات، صحت، داخلہ وہ ہیں جن کے قلمدان وہ رکھتے ہیں۔

سنتے ہیں کہ پس پردہ کچھ ہاتھ ہیں جو ان کی ڈور ہلاتے ہیں اور یہ سب ہلتے ہیں۔ یا کہا جاتا ہے کہ ایک خاندان کے کچھ افراد، جو آپس میں اختلافات سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کی وراثت اور سربراہی کے دعوے دار ہیں جب کہ اختلافات کی نوعیت آج بھی صوبے کی بہتری یا جماعت کی مضبوطی نہیں بلکہ اربوں کھربوں کی مالیت کی وہ قیمتی زمین ہے جو صوبے کے بڑے شہروں میں سرکار کی ملکیت ہے۔

ادھر یہ بھی ثابت ہوا کہ مرکزی حکومت کی حقیقی اور موثر Opposition کوئی اور نہیں وہ خود ہی ہے یا ان کے وفاقی وزرا، پٹرولیم مصنوعات کی قلت پر بحث کتنی بھی کر لی جائے، ذمے دار کسی کو بھی ٹھہرا لیا جائے۔ امر واقعہ ہے کہ حکومتی نااہلی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میاں صاحبان 1993ء، 1997ء کے میاں صاحبان نہیں بلکہ کچھ عمر رسیدہ اور تھکے ہوئے لوگ ہیں۔ جنھیں ایک Sympathy کی وجہ سے عوام نے گزشتہ الیکشن میں منتخب کر لیا۔

چنانچہ موجودہ صورتحال میں محض ووٹ دینے والے ہی نہیں لینے والے بھی شرمندہ نظر آتے ہیں۔ اور صورت حال تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی ایک مرتبہ پھر عمران خان کی حمایت میں رواں دواں ہے۔ بالخصوص ان کے اس دعوے کے بعد کہ وہ اپنے حکومتی صوبے KPK کو باقی صوبوں کے لیے ایک بہترین ماڈل بنا کر دکھائیں گے اور اس میں شک بھی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو عمدہ ایڈمنسٹریٹر ثابت کر چکے۔ ارادوں کے پختہ کار اور بات کے دھنی ہیں۔ اگرچہ موجودہ ملکی سیاست جو منافقت اور منافرت سے لبریز ہے کے لیے فی الحال موزوں نہیں۔ لیکن آنے والے بہتر دور کے لیے ضرور موزوں ہیں۔

وفاقی وزیر پٹرولیم کا یہ بیان خاصا اہم کہ پٹرول بحران کے ذمے دار عوام اور وہ بھکاری ہیں جو بوتلوں میں پٹرول لیتے ہیں اور میاں صاحب کا یہ بیان اس سے بھی زیادہ اہم کہ ''پٹرول بحران کے ذمے داران کو معاف نہیں کیا جائے گا۔'' اب فیصلہ ہمیں یعنی عوام کو کرنا ہے کہ بھکاری کس کو کہا گیا؟ اور کیا وزیر اعظم بحران کے 20 دن بعد بھی ذمے داران سے ناواقف ہیں؟

تو محترم وزیر موصوف ''ہم بوتلوں والے بھکاری ہی سہی'' لیکن انشا اللہ ہمیشہ کی طرح آیندہ بھی یہ بھکاری ہی حکومت تشکیل دیں گے۔ اپنے سربراہ کا چناؤ کریں گے جو آج پٹرول کے لیے ہاتھوں میں بوتلیں لیے گھنٹوں سے لائن میں لگے ہیں۔ اس دن اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے لائنیں بنائیں گے۔ اس دن ہم ضرور ثابت کریں گے کہ اصل بھکاری کون ہے؟ طاقت کس کے ہاتھ میں ہے اور ہاتھ کس کا پھیلا ہوا ہے۔ فی الحال ایک شعر اہل ذوق کی نذر:

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے ' شراب کم کر دے
Load Next Story