واللہ الخیر الماکرین
ایک بیوروکریٹ ہوٹل میں اپنی بیگم کے ساتھ ڈنر میں مصروف تھے۔ اچانک ایک خوبصورت سی خاتون تیزی سے آئیں
DERA GHAZI KHAN:
ایک بیوروکریٹ ہوٹل میں اپنی بیگم کے ساتھ ڈنر میں مصروف تھے۔ اچانک ایک خوبصورت سی خاتون تیزی سے آئیں، گرمجوشی سے صاحب سے معانقہ کیا پھر گالوں پہ چٹاچٹ بوسے دیے، دیگر احوال پوچھ کے یہ جا وہ جا۔ بیگم صاحبہ کے حواس بحال ہوئے تو انھوں نے چمچہ پلیٹ میں پٹخا، غصے سے کھڑی ہوئیں اور بولیں: مجھے ابھی اور اسی وقت طلاق چاہیے۔
صاحب نہایت سکون سے بولے ٹھیک ہے لیکن سوچ لو! بیگم صاحبہ نے دل ہی دل میں طلاق کے مضمرات کا تخمینہ لگایا اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد صاحب کا دوست ایک بدشکل سی خاتون کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتا ہال میں داخل ہوا۔ بیگم صاحبہ نے پوچھا: تمہارے دوست کے ساتھ یہ کون ہے؟ صاحب نے کہا: اس کی گرل فرینڈ۔ بیگم صاحبہ نے منہ بنا کے کہا: 'ہونہہ! اس سے اچھی تو ہماری والی تھی'۔ اوباما۔ مودی تازہ ترین ماہ عسل و وصل پہ 'چین' بہ جبین ہونے والوں کو یہ لطیفہ کسی کلیہ کی طرح رٹ لینا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟
بھارت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔2013 میں اس نے چھ بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ اندازہ ہے کہ اگلے سات سالوں میں یہ ۱۳۰ بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکا 2013 میں بھارت کو اسلحہ بیچنے والے سب سے بڑے ملک روس کی جگہ لے چکا ہے۔ حالیہ اوباما مودی ملاقات میں دفاعی معاہدے صرف حتمی شکل اختیار کریں گے۔ بھارت میں فوجی اڈوں کی تنصیب کا امریکی مطالبہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔
جنوبی بھارت میں واقع تریواندرم ائیر بیس پہلے ہی اگست 2013 سے امریکا کے استعمال میں ہے۔ ۲۰۰۳ میں امریکی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں جو بھارتی خبر رساں پورٹل ریڈف میںشایع ہوئی اس بات کا واضح طور پہ اظہار کیا گیا کہ امریکا بھارت میں فوجی اڈوں کی تنصیب میں دلچسپی رکھتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اپنی طاقتور بحریہ کی وجہ سے ان بحری راستوں تک رسائی کے قابل ہے جو مشرق وسطی اور مشرقی ایشیا کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس طرح بھارت امریکا کو باقی دنیا سے ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ روایتی حلیفوں جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور سعودیہ عرب کا کیا بھروسہ اس لیے بھارت زیادہ قابل اعتماد ہے جو 1991 میں خلیج جنگ میں امریکا کو ری فیولنگ کی سہولت اور افغان وار میں باربرداری کی سہولت دے چکا ہے۔ یہ بھول جائیے کہ ہم نے کیا دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو گھیرے رکھنے کے لیے امریکا نے آسٹریلیا سے بھارت تک بحری اور فضائی اڈوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ جن میں سنگاپور، تھائی لینڈ، فلپائن، انڈونیشیا اور ملائشیا شامل ہیں۔ یہ دنیا بھر میں پھیلے ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی اڈوں کے علاوہ ہیں۔
دو سال پہلے ہی کچھ خبریں فضا میں گرم تھیں کہ امریکا کشمیر کو خودمختار ملک کا درجہ دلوا کر وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرے گا۔ ایک طرف یہ بھارت پاکستان، چین اور روس پہ نظر رکھنے کے کام آئے گا تو دوسری طرف پاکستان میں جہادی گروپوں سے نمٹنے کے لیے۔ دوسری طرف چین کا لاطینی امریکا میں بڑھتا ہوا معاشی اور دفاعی اثر و رسوخ امریکا کے لیے پریشان کن ہے۔ سن 2000 سے 2009 کے دوران لاطینی امریکا اور چین کی باہمی تجارت بارہ سو گنا بڑھ چکی ہے۔ فوجی آنیاں جانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ بہرحال فی الحال کسی جنگ کے آثار تو نہیں لیکن بڑے ملکوں کا آدھا وقت جنگوں میں اور باقی اس کی تیاریوں میں گزرتا ہے۔ اس دوران وہ باقی دنیا کو امن کا سبق پڑھا تے رہتے ہیں۔
اب ذرا راوی جو آج کل 'چِین ہی چِین' لکھ رہا ہے ذرا ایک نظر اس کے مخطوطے پہ بھی ڈال لیجیئے۔ صدام کے بعد عراق میں تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ثابت ہوا جو وہاں پیدا ہونیو الے تیل کی پیداوار کا نصف خریدتا ہے۔۔ اس نے مارکیٹ کے خلا کو اس تیزی سے پر کیا کہ امریکا منہ دیکھتا رہ گیا یہاں تک کہ ایرانی سرحد کے قریب چین نے آئل فیلڈز میں کام کرنے والے ورکرز کے لیے اپنا ائیرپورٹ بھی بنا لیا۔2013 میں پیٹروچائنا نے مغربی قرنہ جو دنیا میں دوسرا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔
میں امریکی آئل کپمنی Exxon Mobil کے ۲۵ فیصد حصص خرید لیے۔ یاد رہے کہ پیٹرو چاینا میں ۶۸ فیصد شئیرز چینی حکومت کے ہیں۔۔ یہ حصص Exxon Mobil اس لیے فروخت کر رہی تھی کیونکہ اس نے کردستان سے سستے تیل کا معاہدہ کر لیا تھا جس پہ عراقی حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ کردستان کی امریکا سے قربت نے Exxon کو مجبور کیا کہ وہ اپنا بزنس وہیں لے جائے۔
چین کا انفرا سٹرکچر اور مین پاور بہترین تھا جو ملکی معیشت کو بہتر بنا رہا تھا۔ گو چین کے عراق میں سیاسی عزائم نہ تھے لیکن سیاسی استحکام اس کے لیے ضروری تھا۔ اس صورتحال کا فائدہ لامحالہ امریکا کو بھی ہو رہا تھا۔ حالات ساتھ دیتے تو یہ خاموش شراکت داری بہت دیر اور دور تک چل سکتی تھی لیکن اس میں کھنڈت ڈالی اس کلموہی نے جسے اسلامک اسٹیٹ یا داعش کہتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی اسلامک اسٹیٹ نے جہاں Exxon کو اپنی سرگرمیاں اور اسٹاف محدود کرنے پہ مجبور کیا وہیں چین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی جو اب تک عراق میں تیل کا سب سے بڑا امپورٹر بن چکا تھا۔ اب تک چین اپنے دس ہزار ورکرز عراق سے نکال چکا ہے۔ اگر اسلامک اسٹیٹ کرکوک آئل فیلڈ پہ قبضہ کر لیتی ہے تو اس کی یومیہ آمدنی سو ملین ڈالر سے زائد ہو جائے گی۔
گو امریکا نے اپنے شیل آئل کی پروڈکشن سے عراقی تیل پہ اپنا انحصار کم کر دیا ہے لیکن عالمی مارکیٹ کے استحکام کا دار و مدار اب بھی اب بھی اوپیک پہ ہے جس کا سب سے بڑا پیداواری ملک عراق ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی درامدات کا بڑا حصہ جاپان کوریا اور چین سے آتا ہے جو اپنی پیداوار کے لیے عراقی تیل پہ انحصار کرتے ہیں۔ مذید یہ کہ امریکا کی ہوس جہانگیری نے اس کے فوجی اخراجات اتنے بڑھا دیے ہیں کہ وہ کسی ایسے خطے کو نظرانداز نہیں کر سکتا جہاں سے اس کی ضروریات پوری ہو سکتی ہوں لہٰذا امریکا جو نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کو شکست نہ دے سکا اب چین سے چاہتا ہے کہ وہ عراق میں اس کولیشن کو جوائن کرے۔
چین ایسا کر بھی لیتا اگر سنکیانگ میں حالات اس کے کنٹرول میں ہوتے اور وہاں سے چینی مسلمان اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ لڑنے نہ پہنچے ہوتے۔ واضح رہے کہ اسلامک اسٹیٹ چین کو سنکیانگ کے مسلمانوں کے معاملے پہ دھمکی دے چکی ہے۔ یہ وہ سنکیانگ ہے جہاں East Turkistan Islamic Movement (ETIM) چین کے خلاف علیحدگی کی مسلح تحریک چلا رہی ہے اور جہاں سے ۲۰۰۶ میں افغانستان سے ۲۲ یوغور جہادی گوانتانا موبے کی ہوا کھا چکے ہیں اور جہاں کرامے میں چین کادوسرا بڑاتیل کا ذخیرہ ہے۔ اس کے لیے اس نے پاکستان سے مدد مانگی جسے آپ مطالبہ کہیں تو قرین از حقیقت ہو گا۔ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن صرف طالبان اور القاعدہ کے ہی نہیں بلکہ ETIM کے خلاف بھی ہے۔
یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ اسلامک اسٹیٹ جو دنیا بھر میں مسلمانوں کی مدد کو اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے اور جس کا رقبہ برطانیہ سے زیادہ، ریوینو ویٹی کن سٹی سے زیادہ، فوجی قوت مڈغاسکر سے زیادہ اور تیل کی پیداوار بحرین سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے وہ پاکستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ جب اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کولیشن میں شمولیت کے لیے چین پہ دباو بڑھا تو اس کی وزارت خارجہ کے ترجمان Hong Lei نے چینی زبان میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ میاں اتنے ہی سیانے بنتے ہو تو سنکیانگ میں ETIM کے خلاف ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
جواب مین اوباما نے مودی کے سر پہ ہاتھ رکھ کر گویا زبان حال سے چین کو وہ دھمکیاں دیں جن کا احوال اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں اگر چین اس اتحاد میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پہ شامل ہو جاتا ہے تو وہ سرمایہ کاری جو اس افغانستان میں کرنا چاہتا ہے جہاں نیٹو منہ کی کھا کے واپس جا چکا ہے، خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ رہا پاکستان تو وہ پہلے ہی نیٹو کا تزویراتی حلیف بننے کی قیمت ہر طرح چکا رہا ہے۔ ایسے میں سنکیانگ کے خلاف چین کا ساتھ دینے کا نتیجہ مذید تباہ کن ہو گا لیکن ہم ایسا کریں گے کیونکہ ہمارا والا بہرحال ان کے والے سے اچھا ہے۔ باقی جو ہو گا دیکھا جائے گا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔
اس ساری کہانی میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سب کچھ اچھا کھیل رہی ہوتی ہیں لیکن اچانک ہی مہرے بساط کو الٹ دیتے ہیں۔ پھر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ کہاں جائے اور کس سے جوڑ توڑ کرے کہ خیر الماکرین کی چال ایسی ہی بے عیب ہوتی ہے۔
ایک بیوروکریٹ ہوٹل میں اپنی بیگم کے ساتھ ڈنر میں مصروف تھے۔ اچانک ایک خوبصورت سی خاتون تیزی سے آئیں، گرمجوشی سے صاحب سے معانقہ کیا پھر گالوں پہ چٹاچٹ بوسے دیے، دیگر احوال پوچھ کے یہ جا وہ جا۔ بیگم صاحبہ کے حواس بحال ہوئے تو انھوں نے چمچہ پلیٹ میں پٹخا، غصے سے کھڑی ہوئیں اور بولیں: مجھے ابھی اور اسی وقت طلاق چاہیے۔
صاحب نہایت سکون سے بولے ٹھیک ہے لیکن سوچ لو! بیگم صاحبہ نے دل ہی دل میں طلاق کے مضمرات کا تخمینہ لگایا اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد صاحب کا دوست ایک بدشکل سی خاتون کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتا ہال میں داخل ہوا۔ بیگم صاحبہ نے پوچھا: تمہارے دوست کے ساتھ یہ کون ہے؟ صاحب نے کہا: اس کی گرل فرینڈ۔ بیگم صاحبہ نے منہ بنا کے کہا: 'ہونہہ! اس سے اچھی تو ہماری والی تھی'۔ اوباما۔ مودی تازہ ترین ماہ عسل و وصل پہ 'چین' بہ جبین ہونے والوں کو یہ لطیفہ کسی کلیہ کی طرح رٹ لینا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟
بھارت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔2013 میں اس نے چھ بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ اندازہ ہے کہ اگلے سات سالوں میں یہ ۱۳۰ بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکا 2013 میں بھارت کو اسلحہ بیچنے والے سب سے بڑے ملک روس کی جگہ لے چکا ہے۔ حالیہ اوباما مودی ملاقات میں دفاعی معاہدے صرف حتمی شکل اختیار کریں گے۔ بھارت میں فوجی اڈوں کی تنصیب کا امریکی مطالبہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔
جنوبی بھارت میں واقع تریواندرم ائیر بیس پہلے ہی اگست 2013 سے امریکا کے استعمال میں ہے۔ ۲۰۰۳ میں امریکی وزارت دفاع کی ایک رپورٹ میں جو بھارتی خبر رساں پورٹل ریڈف میںشایع ہوئی اس بات کا واضح طور پہ اظہار کیا گیا کہ امریکا بھارت میں فوجی اڈوں کی تنصیب میں دلچسپی رکھتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اپنی طاقتور بحریہ کی وجہ سے ان بحری راستوں تک رسائی کے قابل ہے جو مشرق وسطی اور مشرقی ایشیا کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس طرح بھارت امریکا کو باقی دنیا سے ملانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ روایتی حلیفوں جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور سعودیہ عرب کا کیا بھروسہ اس لیے بھارت زیادہ قابل اعتماد ہے جو 1991 میں خلیج جنگ میں امریکا کو ری فیولنگ کی سہولت اور افغان وار میں باربرداری کی سہولت دے چکا ہے۔ یہ بھول جائیے کہ ہم نے کیا دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو گھیرے رکھنے کے لیے امریکا نے آسٹریلیا سے بھارت تک بحری اور فضائی اڈوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ جن میں سنگاپور، تھائی لینڈ، فلپائن، انڈونیشیا اور ملائشیا شامل ہیں۔ یہ دنیا بھر میں پھیلے ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی اڈوں کے علاوہ ہیں۔
دو سال پہلے ہی کچھ خبریں فضا میں گرم تھیں کہ امریکا کشمیر کو خودمختار ملک کا درجہ دلوا کر وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرے گا۔ ایک طرف یہ بھارت پاکستان، چین اور روس پہ نظر رکھنے کے کام آئے گا تو دوسری طرف پاکستان میں جہادی گروپوں سے نمٹنے کے لیے۔ دوسری طرف چین کا لاطینی امریکا میں بڑھتا ہوا معاشی اور دفاعی اثر و رسوخ امریکا کے لیے پریشان کن ہے۔ سن 2000 سے 2009 کے دوران لاطینی امریکا اور چین کی باہمی تجارت بارہ سو گنا بڑھ چکی ہے۔ فوجی آنیاں جانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ بہرحال فی الحال کسی جنگ کے آثار تو نہیں لیکن بڑے ملکوں کا آدھا وقت جنگوں میں اور باقی اس کی تیاریوں میں گزرتا ہے۔ اس دوران وہ باقی دنیا کو امن کا سبق پڑھا تے رہتے ہیں۔
اب ذرا راوی جو آج کل 'چِین ہی چِین' لکھ رہا ہے ذرا ایک نظر اس کے مخطوطے پہ بھی ڈال لیجیئے۔ صدام کے بعد عراق میں تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ثابت ہوا جو وہاں پیدا ہونیو الے تیل کی پیداوار کا نصف خریدتا ہے۔۔ اس نے مارکیٹ کے خلا کو اس تیزی سے پر کیا کہ امریکا منہ دیکھتا رہ گیا یہاں تک کہ ایرانی سرحد کے قریب چین نے آئل فیلڈز میں کام کرنے والے ورکرز کے لیے اپنا ائیرپورٹ بھی بنا لیا۔2013 میں پیٹروچائنا نے مغربی قرنہ جو دنیا میں دوسرا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔
میں امریکی آئل کپمنی Exxon Mobil کے ۲۵ فیصد حصص خرید لیے۔ یاد رہے کہ پیٹرو چاینا میں ۶۸ فیصد شئیرز چینی حکومت کے ہیں۔۔ یہ حصص Exxon Mobil اس لیے فروخت کر رہی تھی کیونکہ اس نے کردستان سے سستے تیل کا معاہدہ کر لیا تھا جس پہ عراقی حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ کردستان کی امریکا سے قربت نے Exxon کو مجبور کیا کہ وہ اپنا بزنس وہیں لے جائے۔
چین کا انفرا سٹرکچر اور مین پاور بہترین تھا جو ملکی معیشت کو بہتر بنا رہا تھا۔ گو چین کے عراق میں سیاسی عزائم نہ تھے لیکن سیاسی استحکام اس کے لیے ضروری تھا۔ اس صورتحال کا فائدہ لامحالہ امریکا کو بھی ہو رہا تھا۔ حالات ساتھ دیتے تو یہ خاموش شراکت داری بہت دیر اور دور تک چل سکتی تھی لیکن اس میں کھنڈت ڈالی اس کلموہی نے جسے اسلامک اسٹیٹ یا داعش کہتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی اسلامک اسٹیٹ نے جہاں Exxon کو اپنی سرگرمیاں اور اسٹاف محدود کرنے پہ مجبور کیا وہیں چین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی جو اب تک عراق میں تیل کا سب سے بڑا امپورٹر بن چکا تھا۔ اب تک چین اپنے دس ہزار ورکرز عراق سے نکال چکا ہے۔ اگر اسلامک اسٹیٹ کرکوک آئل فیلڈ پہ قبضہ کر لیتی ہے تو اس کی یومیہ آمدنی سو ملین ڈالر سے زائد ہو جائے گی۔
گو امریکا نے اپنے شیل آئل کی پروڈکشن سے عراقی تیل پہ اپنا انحصار کم کر دیا ہے لیکن عالمی مارکیٹ کے استحکام کا دار و مدار اب بھی اب بھی اوپیک پہ ہے جس کا سب سے بڑا پیداواری ملک عراق ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی درامدات کا بڑا حصہ جاپان کوریا اور چین سے آتا ہے جو اپنی پیداوار کے لیے عراقی تیل پہ انحصار کرتے ہیں۔ مذید یہ کہ امریکا کی ہوس جہانگیری نے اس کے فوجی اخراجات اتنے بڑھا دیے ہیں کہ وہ کسی ایسے خطے کو نظرانداز نہیں کر سکتا جہاں سے اس کی ضروریات پوری ہو سکتی ہوں لہٰذا امریکا جو نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کو شکست نہ دے سکا اب چین سے چاہتا ہے کہ وہ عراق میں اس کولیشن کو جوائن کرے۔
چین ایسا کر بھی لیتا اگر سنکیانگ میں حالات اس کے کنٹرول میں ہوتے اور وہاں سے چینی مسلمان اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ لڑنے نہ پہنچے ہوتے۔ واضح رہے کہ اسلامک اسٹیٹ چین کو سنکیانگ کے مسلمانوں کے معاملے پہ دھمکی دے چکی ہے۔ یہ وہ سنکیانگ ہے جہاں East Turkistan Islamic Movement (ETIM) چین کے خلاف علیحدگی کی مسلح تحریک چلا رہی ہے اور جہاں سے ۲۰۰۶ میں افغانستان سے ۲۲ یوغور جہادی گوانتانا موبے کی ہوا کھا چکے ہیں اور جہاں کرامے میں چین کادوسرا بڑاتیل کا ذخیرہ ہے۔ اس کے لیے اس نے پاکستان سے مدد مانگی جسے آپ مطالبہ کہیں تو قرین از حقیقت ہو گا۔ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن صرف طالبان اور القاعدہ کے ہی نہیں بلکہ ETIM کے خلاف بھی ہے۔
یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ اسلامک اسٹیٹ جو دنیا بھر میں مسلمانوں کی مدد کو اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے اور جس کا رقبہ برطانیہ سے زیادہ، ریوینو ویٹی کن سٹی سے زیادہ، فوجی قوت مڈغاسکر سے زیادہ اور تیل کی پیداوار بحرین سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے وہ پاکستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ جب اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کولیشن میں شمولیت کے لیے چین پہ دباو بڑھا تو اس کی وزارت خارجہ کے ترجمان Hong Lei نے چینی زبان میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ میاں اتنے ہی سیانے بنتے ہو تو سنکیانگ میں ETIM کے خلاف ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
جواب مین اوباما نے مودی کے سر پہ ہاتھ رکھ کر گویا زبان حال سے چین کو وہ دھمکیاں دیں جن کا احوال اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں اگر چین اس اتحاد میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پہ شامل ہو جاتا ہے تو وہ سرمایہ کاری جو اس افغانستان میں کرنا چاہتا ہے جہاں نیٹو منہ کی کھا کے واپس جا چکا ہے، خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ رہا پاکستان تو وہ پہلے ہی نیٹو کا تزویراتی حلیف بننے کی قیمت ہر طرح چکا رہا ہے۔ ایسے میں سنکیانگ کے خلاف چین کا ساتھ دینے کا نتیجہ مذید تباہ کن ہو گا لیکن ہم ایسا کریں گے کیونکہ ہمارا والا بہرحال ان کے والے سے اچھا ہے۔ باقی جو ہو گا دیکھا جائے گا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔
اس ساری کہانی میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سب کچھ اچھا کھیل رہی ہوتی ہیں لیکن اچانک ہی مہرے بساط کو الٹ دیتے ہیں۔ پھر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ کہاں جائے اور کس سے جوڑ توڑ کرے کہ خیر الماکرین کی چال ایسی ہی بے عیب ہوتی ہے۔