جہانگیر پارک کے اطراف سے 48 گھنٹوں میں تجاوزات ختم کی جائیں سندھ ہائیکورٹ

پارک میں واقع کوارٹرز کے مکینوں نے فریق بننے کی درخواست دائر کردی، کھینجر جھیل میں 15 لاکھ گیلن صنعتی فضلہ ڈالا۔۔۔


Staff Reporter January 29, 2015
ضلعی بلدیاتی اداروں کورقم کے عوض فٹ پاتھ پر جنریٹرز رکھنے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں، حکومت سندھ کے وکیل کا موقف، ضلعی میونسپل ایڈمنسٹریٹرز طلب۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ صدر میں واقع تاریخی جہانگیر پارک کے اطراف فٹ پاتھوں پر دوبارہ قائم ہونے والی تجاوزات کو 48 گھنٹے میں ختم کرکے رپورٹ پیش کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پھر کوئی تجاوزات قائم نہ کرسکے۔

بدھ کو سماعت کے موقع پر کے ایم سی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دائود پوتہ روڈ اور جہانگیر پارک کے اطراف سے تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے،پارک میں موجود ناظم کا دفتر بھی مسمارکردیا گیا ہے تاہم ناظر سندھ ہائیکورٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان فٹ پاتھوں سے ہٹائی گی تجاوزات دوبارہ قائم ہوگئی ہیں۔

کمرہ عدالت میں موجود ڈی ایس پی کنور آصف نے یقین دھانی کرائی کہ دوبارہ قائم کی گئی تجاوزات 48 گھنٹے میں ختم کردی جائیں گی اور یقینی بنایا جائیگا کہ یہاں دوبارہ تجاوزات قائم نہ ہوں، فاضل بینچ نے ان کی یقین دہانی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ایس ایس پی صدر کو تجاوزات کے خاتمے کے بارے میں رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اس کے علاوہ پارک میں واقع کوارٹرز جنھیں تجاوزات قراردیا گیا ہے سے متعلق کے ایم سی ملازمین نے اس معاملے میں فریق بنانے کے لیے رفیع کمبوہ ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کردی، فاضل بینچ نے دیگر فریقین کو 12 فروری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی،سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کو پینے کا پانی فراہم کرنیوالے کینچھر جھیل میں صنعتی فضلہ کے اخراج کیخلاف دائر درخواست پرڈائریکٹر محکمہ ماحولیات (انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی) سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حلیم عادل شیخ کی درخواست کی سماعت کی ، اس موقع پر سائٹ لمیٹڈکی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور ہوزری سمیت99 صنعتیں کام کررہی ہیں،اس صنعتی علاقے سے روزانہ 15 لاکھ گیلن فضلہ کا اخراج ہوتا ہے جو صفائی کے بغیر کے بی فیڈر میں ڈال دیا جاتا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام صنعتیں فضلہ کے اخراج سے قبل ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کی پابند ہیں تاہم اس شرط پر عمل نہیں کیا جارہا اس لیے یہ فضلہ صفائی کے بغیر ہی کے بی فیڈر میں ڈالا جارہا ہے جس سے مذکورہ فیڈر میں آلودگی پھیل رہی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کے مالکان کے خلاف تعزیراتی قوانین کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی جاتی، اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالت نے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) حیدرآباد کو نوٹس جاری کیے تھے تاہم متعلقہ ادارہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے ) ہے لہٰذا ای پی اے سے رپورٹ طلب کی جائے، عدالت نے ڈائریکٹر ای پی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 فروری تک تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کاحکم دیا ہے، دریں اثنا سندھ ہائیکورٹ نے فٹ پاتھوں پر جنریٹرز کی تنصیب کے خلاف دائر درخواست پر کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹریٹرز کو طلب کرلیا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عبدالجلیل زبیدی نے عدالت کو بتایا کہ کسی ڈسٹرکٹ میونسپل ایڈمنسٹریٹر کو جنریٹر کی تنصیب کے لائسنس کی مد میں رقم وصول کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے یونائیٹڈہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی درخواست کی سماعت کی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شہر بھر میں بینکوں کی عمارتوں کے باہر فٹ پاتھوں پر ہیوی جنریٹرز نصب کیے گئے ہیں جس کے باعث شہریوں کو چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بھی پھیل رہی ہے۔

جنریٹرز کی تنصیب سے وسیع فٹ پاتھ پر قبضہ ہوگیا ہے جس کے باعث شہریوں کو پیدل چلنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جو کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، گزشتہ سماعت پرایک بینک کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ وہ شہری انتظامیہ کو ماہانہ ایک لاکھ 80 ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔

بدھ کو عدالتی استفسار پرایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالت عالیہ نے اس حوالے سے 26 نومبر 2014 کو ہدایت کی تھی کہ یکم دسمبر کو جواب داخل کیا جائے تاہم یکم دسمبر کو درخواست کی سماعت نہیں ہوسکی ،اس لیے انہیں اب جواب داخل کرنے اور ضلعی بلدیات کے ایڈمنسٹریٹرز کو پیش ہونے کی ہدایت پہنچانے کے لیے مزید وقت دیا جائے، فاضل بینچ نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں