ایک ہیرو جسے ہم نے فراموش کر دیا
ڈاکٹر عبدالسلام نے ہمارے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے ایک بنیاد فراہم کی،لیکن ہم نے بدلے میں انہیں کیا دیا؟
ہیرو ہمیشہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے منفرد کارنامے سے قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے، زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ہیرو کے اس کام کو یاد رکھتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان کے کارنامے یاد دلاتی رہتی ہیں۔
ایک ایسا ہی ہیرو ہے جس نے پوری دنیا میں پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا، لیکن ہم نے انہیں فراموش کردیا۔ ہر سال 29 جنوری آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس دن کیا ہوا تھا۔ میڈیا میں بھی اس حوالے سے کوئی خبر دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتی کہ اس دن کیا ہوا تھا۔
جی ہاں یہی وہ دن ہے جب ایک ہیرو نے جنم لیا تھا۔ ان کا نام ڈاکٹرعبدالسلام ہے۔ وہی ڈاکٹر عبدالسلام جنہوں نے 1979 میں پاکستانی قوم کے لیے فزکس کے میدان میں نوبل انعام جیت کر ثابت کردیا تھا کہ پاکستانی کبھی کسی سے کم نہیں رہے۔ جسے پوری دنیا نے خراج تحسین پیش کیا تھا، اب بھی دنیا ان کے کام کو یاد کرتی ہے اور ان کے کام سے رہنمائی لیتی ہے۔
فوٹو؛ فائل
انہوں نے ہمارے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے ایک بنیاد فراہم کی، لیکن ہم نے بدلے میں انہیں کیا دیا؟ کچھ بھی تو نہیں۔
پاکستان کو اپنی تاریخ کا پہلا نوبل انعام دلانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب اپنے وطن واپس آئے تو ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ ہم کسی فنکار، کسی گلوکار، کرکٹر کے وطن آنے پر تو ہزاروں کا مجمع اکٹھا کرلیتے ہیں اور اس پر گل پاشی کرتے ہیں لیکن ایک ایسے ہیرو کے لیے جس نے پاکستان کا نام روشن کیا تھا اور جو پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ہم اس کے استقبال کے لیے تک نہ جاسکے۔
فوٹو؛ فائل
ایک طلبہ تنظیم کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کے سبب ڈاکٹر عبدالسلام قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنا لیکچر دینے بھی نہ جاسکے۔
بھارت جس نے ہمارے ساتھ ایک آزاد ملک کا سفر کیا تھا وہ ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو یاد رکھتا ہے وہ اپنے سائنسدانوں کی نہ صرف قدر بلکہ عزت و تکریم بھی کرتا ہے۔ وہ ایک مسلمان سائنسدان جن کا نام عبدالکلام ہے کو اپنے ملک کا صدر بنا دیتا ہے وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ ان کے لیے ایک ہیرو ہے اور ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے بدلے میں انہیں کیا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیں سوچنا ہوگا، صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو سوچنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک ایسا ہی ہیرو ہے جس نے پوری دنیا میں پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا، لیکن ہم نے انہیں فراموش کردیا۔ ہر سال 29 جنوری آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس دن کیا ہوا تھا۔ میڈیا میں بھی اس حوالے سے کوئی خبر دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتی کہ اس دن کیا ہوا تھا۔
جی ہاں یہی وہ دن ہے جب ایک ہیرو نے جنم لیا تھا۔ ان کا نام ڈاکٹرعبدالسلام ہے۔ وہی ڈاکٹر عبدالسلام جنہوں نے 1979 میں پاکستانی قوم کے لیے فزکس کے میدان میں نوبل انعام جیت کر ثابت کردیا تھا کہ پاکستانی کبھی کسی سے کم نہیں رہے۔ جسے پوری دنیا نے خراج تحسین پیش کیا تھا، اب بھی دنیا ان کے کام کو یاد کرتی ہے اور ان کے کام سے رہنمائی لیتی ہے۔
فوٹو؛ فائل
انہوں نے ہمارے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے ایک بنیاد فراہم کی، لیکن ہم نے بدلے میں انہیں کیا دیا؟ کچھ بھی تو نہیں۔
پاکستان کو اپنی تاریخ کا پہلا نوبل انعام دلانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب اپنے وطن واپس آئے تو ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ ہم کسی فنکار، کسی گلوکار، کرکٹر کے وطن آنے پر تو ہزاروں کا مجمع اکٹھا کرلیتے ہیں اور اس پر گل پاشی کرتے ہیں لیکن ایک ایسے ہیرو کے لیے جس نے پاکستان کا نام روشن کیا تھا اور جو پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ہم اس کے استقبال کے لیے تک نہ جاسکے۔
فوٹو؛ فائل
ایک طلبہ تنظیم کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کے سبب ڈاکٹر عبدالسلام قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں اپنا لیکچر دینے بھی نہ جاسکے۔
بھارت جس نے ہمارے ساتھ ایک آزاد ملک کا سفر کیا تھا وہ ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو یاد رکھتا ہے وہ اپنے سائنسدانوں کی نہ صرف قدر بلکہ عزت و تکریم بھی کرتا ہے۔ وہ ایک مسلمان سائنسدان جن کا نام عبدالکلام ہے کو اپنے ملک کا صدر بنا دیتا ہے وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ ان کے لیے ایک ہیرو ہے اور ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے بدلے میں انہیں کیا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیں سوچنا ہوگا، صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو سوچنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔