بھارتی رویہ اور خطے کے تنازعات
یہ حقیقت پوری دنیا پر واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بھی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی کر رہا ہے
KARACHI:
امریکا کے صدر بارک اوباما کے دورہ بھارت کے مابعداثرات کچھ یوں سامنے آ رہے ہیں کہ اگلے روز نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے اسلام آباد میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں پاک بھارت تعلقات اور امریکی صدر کے حالیہ دورہ بھارت سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
ادھر ایسی اطلاع بھی منظر عام پر آئی ہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر بھارتی لابی کا جواب دینے کے لیے اقوام متحدہ میں اپنی سفارتی مہم کو جارحانہ انداز میں موثر اور مزید فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام سفارتکاروں کو فعال کردار ادا کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔پاکستان ہم خیال ممالک سے مل کر بھارت کی جانب سے سلامتی کونسل اور نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش کی بھرپور مخالفت کرے گا۔
ادھر وزیراعظم میاں نواز شریف نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر معمول کے تعلقات چاہتا ہے، پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت پاکستان کے لیے اہم ملک ہے۔ خطے میں امن کے لیے دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام امور مذاکرات کے ذریعے طے کرنے چاہئیں۔
حالیہ دنوں بھارت میں جو سرگرمیاں رہیں، پاکستان کو ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران جو معاہدے ہوئے اور جو بیانات جاری ہوئے، ان سے امریکا اور بھارت کی ترجیحات اور تعلقات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔ اصولی طور پر امریکا کو تنازع کشمیر کے حل کی ہی بات کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس تنازعے کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔
امریکا کے پالیسی سازوں کو حقائق کا پورا علم ہے لیکن اس کے باوجود امریکا نے اس تنازع کے حل کی کبھی عملی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے بھارت اس تنازع کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا صائب ہے کہ خطے میں امن کے لیے دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام امور مذاکرات کے ذریعے طے کرنے چاہئیں۔بھارتی قیادت کا ایجنڈا بڑا ہمہ گیر ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بننا چاہتا ہے ۔وہ چین سے زیادہ بڑی اقتصادی اور فوجی قوت بننے کا بھی خواہاں ہے۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بھی بننا چاہتا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ اپنے ارد گرد موجود تنازعات کو حل کیے بغیر حاصل کرنا چاہتا ہے۔
بھارت کے اس وقت پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ بھی زیادہ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ جو ملک اپنے ہمسایوں کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھتا ہے ،اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو بھارت چین سے بھی جنگ کر چکا ہے۔ چینی قیادت بھی صدر اوباما کے دورہ بھارت کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کے کیونکہ براہ راست تنازعات ہیں اس لیے پاکستان کو بھارتی عزائم کا بغور جائزہ لینا چاہیے ۔بلاشبہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن یہ کوششیں برابری کی سطح پرہونی چاہئیں۔
بھارتی قیادت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ جب تک وہ پاکستان اور اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم نہیں کرتا ،اس وقت تک وہ نہ تو دنیا کی اہم ترین اقتصادی طاقتوں میں شامل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کو بھی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل بحال کرنا چاہیے۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ حقیقت پوری دنیا پر واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بھی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی کر رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو زمینی حقائق کا بڑا عمیق جائزہ لینا چاہیے۔ دنیا جس عہد میں داخل ہو رہی ہے ،اس میں ہمسایوں کے درمیان جنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ جنگ کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
بھارت کی قیادت پر اس حوالے سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے ۔بھارت کو اس خطے میں موجود تنازعات کے حل کے لیے اپنے ہمسایوں کے ساتھ برابری کی سطح پر آ کر مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اگر بھارتی قیادت ایسا کر ے تو آنے والے وقت میں اس خطے میں موجود تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔
امریکا کے صدر بارک اوباما کے دورہ بھارت کے مابعداثرات کچھ یوں سامنے آ رہے ہیں کہ اگلے روز نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے اسلام آباد میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں پاک بھارت تعلقات اور امریکی صدر کے حالیہ دورہ بھارت سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
ادھر ایسی اطلاع بھی منظر عام پر آئی ہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر بھارتی لابی کا جواب دینے کے لیے اقوام متحدہ میں اپنی سفارتی مہم کو جارحانہ انداز میں موثر اور مزید فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام سفارتکاروں کو فعال کردار ادا کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔پاکستان ہم خیال ممالک سے مل کر بھارت کی جانب سے سلامتی کونسل اور نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش کی بھرپور مخالفت کرے گا۔
ادھر وزیراعظم میاں نواز شریف نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر معمول کے تعلقات چاہتا ہے، پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت پاکستان کے لیے اہم ملک ہے۔ خطے میں امن کے لیے دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام امور مذاکرات کے ذریعے طے کرنے چاہئیں۔
حالیہ دنوں بھارت میں جو سرگرمیاں رہیں، پاکستان کو ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران جو معاہدے ہوئے اور جو بیانات جاری ہوئے، ان سے امریکا اور بھارت کی ترجیحات اور تعلقات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔ اصولی طور پر امریکا کو تنازع کشمیر کے حل کی ہی بات کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس تنازعے کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔
امریکا کے پالیسی سازوں کو حقائق کا پورا علم ہے لیکن اس کے باوجود امریکا نے اس تنازع کے حل کی کبھی عملی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے بھارت اس تنازع کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا صائب ہے کہ خطے میں امن کے لیے دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام امور مذاکرات کے ذریعے طے کرنے چاہئیں۔بھارتی قیادت کا ایجنڈا بڑا ہمہ گیر ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بننا چاہتا ہے ۔وہ چین سے زیادہ بڑی اقتصادی اور فوجی قوت بننے کا بھی خواہاں ہے۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بھی بننا چاہتا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ اپنے ارد گرد موجود تنازعات کو حل کیے بغیر حاصل کرنا چاہتا ہے۔
بھارت کے اس وقت پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ بھی زیادہ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ جو ملک اپنے ہمسایوں کے ساتھ جارحانہ رویہ رکھتا ہے ،اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو بھارت چین سے بھی جنگ کر چکا ہے۔ چینی قیادت بھی صدر اوباما کے دورہ بھارت کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کے کیونکہ براہ راست تنازعات ہیں اس لیے پاکستان کو بھارتی عزائم کا بغور جائزہ لینا چاہیے ۔بلاشبہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن یہ کوششیں برابری کی سطح پرہونی چاہئیں۔
بھارتی قیادت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ جب تک وہ پاکستان اور اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم نہیں کرتا ،اس وقت تک وہ نہ تو دنیا کی اہم ترین اقتصادی طاقتوں میں شامل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کو بھی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل بحال کرنا چاہیے۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ حقیقت پوری دنیا پر واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بھی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی کر رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو زمینی حقائق کا بڑا عمیق جائزہ لینا چاہیے۔ دنیا جس عہد میں داخل ہو رہی ہے ،اس میں ہمسایوں کے درمیان جنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ جنگ کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
بھارت کی قیادت پر اس حوالے سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے ۔بھارت کو اس خطے میں موجود تنازعات کے حل کے لیے اپنے ہمسایوں کے ساتھ برابری کی سطح پر آ کر مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اگر بھارتی قیادت ایسا کر ے تو آنے والے وقت میں اس خطے میں موجود تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔