ملک روبہ زوال سیاست تا اخلاق
اس رسہ کشی میں بچے زخمی ہوئے چونکہ یہ واقعہ میڈیا نے بھرپور طریقہ سے دکھایا اس لیے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔
پاکستان میں تو ہر روز ایک نہ ایک واقعہ ایسا رونما ہوتا ہے ' 16 دسمبر 2014 کو پاکستان کا بدترین المیہ جس میں چھوٹے بچوں کو ذبح کیا گیا ، عالمی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے ۔
اس کے بعد لاہور میں نابینا افراد پر لاٹھی چارج اور پھرچھ سات برس کے بچوں پر بھاٹی گیٹ اسلامیہ اسکول لاہور پر پولیس کا لاٹھی چارج اور بات کیا تھی ،کس بات پر یہ المیہ رونما ہوا کہ اسلامیہ اسکول بھائی گیٹ لاہورکو ایک این جی او چلا رہی تھی اور حکومت اس کو اپنی تحویل میں لینا چاہتی تھی اور بچوں کے والدین یہ چاہتے تھے کہ یہ ادارہ حکومتی تحویل میں نہ لیا جائے کیونکہ عوام کا اعتماد حکومت کی جانب سے اٹھ چکا ہے اور والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ اسکول نجی ادارے یعنی این جی او کے پاس ہی رہے۔
اس رسہ کشی میں بچے زخمی ہوئے چونکہ یہ واقعہ میڈیا نے بھرپور طریقہ سے دکھایا اس لیے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا مگر یہ خبر جس تیزی سے آئی اسی تیزی سے دبا دی گئی گویا معاملہ ہوا ہی نہیں ہر چیز پر دھند سی چھا گئی۔ خصوصاً ایسے موقعے پر جب پنجاب حکومت کو بعض حالات کی بنا پر کنٹینر کی سیاست سے اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی اور اب لوگوں کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اب کنٹینر کی سیاست کا ازسر نو زندہ کرنا آسان نہیں ۔ دوسری جانب عمران خان خود ہر لمحہ چندہ جمع کرنے کی سیاست کی راہ پر گامزن ہیں یقیناً تعلیمی ادارے اور طبی ادارے چلانے کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔
مگر دو مختلف راستے ہیں یا تو رقم جمع کرنا ہوگا یا ایجیٹیشن۔ یہ دو متضاد راہیں ہیں۔ 14 اگست کو جو قافلہ چلا تھا اس کی ابتدا طاہر القادری کے کارکنوں کے خون سے ہوئی تھی اب جب کہ وہ کیفیت باقی نہ رہی۔ شادی کے شادیانوں اور ڈھول کی آواز نے خون کی دیوانگی کو ختم کردیا اور اس کے بعد پشاور کے خونی حادثے نے کیفیت کو بالکل خون آلودکردیا ا۔
سیاست ہو یا کوئی اورکام بڑا قدم اٹھانے سے قبل وقت کا صحیح تعین بڑا ضروری ہے۔ ابھی حادثے کو 40 روز بھی نہ گزرے تھے میڈیا ہاؤسز سے رقص و سرود ، آتش بازی نے وہ ولولہ، جوش پیدا کیا اور ٹکرانے کی قوت کو نرم و نازک بنا کے رکھ دیا۔ اس لیے واپس جانا آسان نہیں کہ تحریک کا دوسرا فیز شروع کیا جاسکے اور تحریکیں رک رک کے نہیں چلا کرتیں۔ پاکستان کا پورا معاشرہ تطہیر مانگتا ہے۔ اس عمل کے لیے سیاسی اور ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے۔
آئیے !گزشتہ چند ماہ کی بدامنی کا جائزہ لیں اور ماضی کے آئینے میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ جنرل ایوب خان کا حکومت سنبھال لینا کوئی عوامی مطالبہ نہ تھا یہ اکتوبر 1958 کی سیاسی بداعمالیوں کا نتیجہ تھا۔ جنرل یحییٰ کا اقتدار، جنرل ایوب خان کی روانگی کا عملی نتیجہ تھا۔
انتخاب ہوا 1970 کا شفاف انتخاب مگر پرامن انتقال اقتدار نہ ہوا اور ملک دو لخت ہوگیا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو شہید نے تاریخ کا پہلا سویلین مارشل لا لگادیا تھا، لہٰذا سویلین مارشل لا کوئی نئی ریت نہیں اور آج کل جس پر یوم سیاہ منایا جا رہا ہے بے سود ہے۔
اگر یوم سیاہ منانا ہے تو منائیے عوام کے ماورائے عدالت قتل پہ، قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے پر، اغوا برائے تاوان پر، طلبا کو آگ اور خون میں نہلانے پر، رہزنی اور ڈاکا زنی پہ، ہاں افسوس کا مقام وہ تھا جب ایجیٹیشن کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا اور کسی نے کوئی احتساب نہ لیا۔ بچوں پر بھاٹی گیٹ لاہور میں لاٹھی چارج ہوا، میڈیا نے اس کو خصوصیت سے نمایاں کیا، مگر حیف صد حیف۔ طلبا انجمنوں کو یہ خبر نظر نہ آئی کہ چھوٹے بچوں پر لاٹھی برسائی گئی، مگر انھوں نے احتجاج نہ کیا؟ اگر ان کا کوئی احتجاج ہے تو وہ آپس کی چپقلش پر، دھرنوں پر، آپس کے تصادم پر، قومی معاملات پر، خصوصیت کے ساتھ جو ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے وارث کہلاتے ہیں جو فیسوں میں کمی پر احتجاج کیا کرتے تھے۔
این ایس ایف پر جو بی اے، بی ایس سی کے تین سالہ ڈگری کورس ختم کرنے کا سہرا سر پر سجائے رکھتے تھے، بسوں کے کرائے میں کمی کے تاجدار تھے قید و بند میں روز و شب گزارتے تو پڑھنے والوں کی فیسوں میں کمی کے لیے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے میڈیکل کالج کی مزید سیٹوں کے لیے۔ یونیورسٹی آرڈیننس کے خاتمے کے لیے بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ 68،70،72،74 کی این ایس ایف ہوتی اور یہ لاٹھی چلتی تو پورا ملک بند نہ ہوجاتا یہ کیسے ممکن تھا کہ حکومت کو اس جرم کی سزا نہ ملتی، یا صدا بلند نہ ہوتی۔ طلبا تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کی کاسہ لیس ہیں۔
ان سے کیا توقع کہ وہ کچھ کرسکیں وہ صرف ایک پوائنٹ پر اتحاد کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ تعلیمی اداروں میں یونین بحال ہو۔ اور سیاسی پارٹیاں بھی یہ مطالبہ خصوصاً پی ٹی آئی جو مغربی جمہوریت کی اچھائیوں اور پیپلز پارٹی جو پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، وہ بھی یہ مطالبہ نہیں کرتی اور نہ ہی پرویز رشید صاحب جو کبھی این ایس ایف میں سرگرم تھے۔
ایک دور وہ بھی تھا جب طلبا عوام کے حقوق اور والدین کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے 68 کی تحریک محض ایوب خان کو ہٹانے کے لیے نہ تھی بلکہ فیسوں میں کمی، ریل، بس، اسکولوں اور کالجوں، یونیورسٹیوں میں فیسوں میں کمی کی تحریک تھی، اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کی تحریک تھی۔ ایک واقعہ مجھے یاد ہے جب میں این ایس ایف کا قائم مقام صدر تھا اور 8 جنوری 53 کی یاد منائی جا رہی تھی جلوس کو زیب النسا اسٹریٹ سے گزرنا تھا ریگل چوک پر جمع ہونا تھا ،دفعہ 144 لگی ہوئی تھی مگر پروگرام ہونا تھا لوگ ابھی جمع بھی نہ ہو پائے تھے ریگل چوک سے گزرنا تھا اور پھر اس کو ایک جلسے کی شکل میں تبدیل ہونا تھا جیسے ہی لوگ جمع ہوئے ہم لوگوں پہ لاٹھیاں برسیں مگر جلوس کی شکل بنتی گئی، ایسا نہ کیا کہ ساتھی لاٹھیاں کھاتے اور ہم بھاگ لیتے۔
ہم جب کہ یادوں پر لہولہان ہوتے تو ساتھی کیونکر دبک کر بیٹھ جاتے آج آپس میں دست و گریباں ہیں حقوق کے لیے نہیں۔ پورا معاشرہ ہی روبہ زوال ہے سی پی ایل سی کے احمد چنائے ابھی چند دنوں کی بات ہے رینجرز نے اغوا برائے تاوان کے کیس میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا، رات کے 4 بجے ، مگر انھوں نے اس کو باہمی گفت و شنید قرار دیا، جب کہ معاملات کو دبا دیا گیا۔ ہر طرف سے اس معاملے پر نیا رخ ہے عوام کنفیوژ ہیں:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟