طالب علم تحریک اور این ایس ایف پاکستان

حکومت کے ظالمانہ اقدامات طالب علم تحریک کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

حکومت کے ظالمانہ اقدامات طالب علم تحریک کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے طالب علم رہنماؤں نے دسمبر1953میں متحد ہوکر آل پاکستان اسٹوڈنٹس کنونشن بلانے کا اعلان کر دیا۔ ملک بھر سے کالجوں کے مندوبین نے اس ملک گیر اجلاس میں شرکت کی۔ مشرقی پاکستان کی نمایندگی متین اور خلیق الزماں کر رہے تھے۔ پنجاب کے وفد کے قائد عابد منٹو تھے۔ سب سے بڑا وفد سندھ سے تعلق رکھتا تھا جس کی قیادت سید مظہر جمیل کر رہے تھے۔

گورئمنٹ کالج کوئٹہ کا ایک وفد بھی اس موجود تھا جس کی قیادت بائیں بازو کے طالبِ علم رہ نما کامل قادری کر رہے تھے۔ یومِ شہدا کی نسبت سے جنوری 1954 میں کنونشن کا انعقاد مقرر ہوا۔ جو کیٹرک ہال کراچی میں منعقد ہوا۔ دُنیا بھر کی طالبعلم تنظیموں کی جانب سے پاکستان طالب علم تحریک کے ساتھ یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے۔ اس وقت کے وزیرِ قانون اے کے بروہی مہمانِ خصوصی تھے۔ تاہم کابینہ کے ایک دوسرے رکن وزیر داخلہ گورمانی جنھیں مشتعل طالب علموں کے ہاتھوں اپنی گاڑی کے جلنے کا قلق تھا۔ اس کنونشن میں گڑبڑانے کرانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے۔

انتظا میہ کی سر پرستی میں گڑ بڑ کے لیے غنڈے بھیجے گئے جن کے ساتھ مل کر پو لیس نے طا لب علموں کی بے دردی سے پٹائی کی، طلبا ء نے بھی ایک دفاعی اسکاڈ بھی تیار کر رکھا تھا جس کی سر براہی ادیب رضوی کر رہے تھے، جنھوں نے بعدازاں امراض گردہ کے ماہر کے حیثیت سے شہرت حاصل کی اور سندھ آنسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانس پلانٹ کی بنیاد رکھی۔کنو نشن نے آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنا ئیز یشن (اے پی ایس او) کے قیام کی قرارداد منظور کی۔

1954 میں پاکستان نے مغربی سیکیورٹی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور ا س کے ساتھ ہی اے پی ایس او پر بھی پابندی عا ئد کر دی گئی اور اس کے رہنماؤں کو کراچی سینٹرل جیل میں بند کر دیا گیا، ڈی ایس ایف کے بچے کچھے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں نے این ایس ایف کے پلیٹ فارم پر کامیابی سے قبضہ کر لیا اور اس نئی این ایس ایف کا پہلا کو نسل سیشن 1956میں خالق دینا ہال کراچی میں منعقد ہوا۔ 1956میں برطانیہ اور اسر ائیل نے نہر سوئز پر حملہ کیا تو کراچی کے طلبا ء نے این ایس ایف کی قیادت میں مصری عوام کی حمایت میں زبردست مظاہر ے کیے۔1957میںکراچی بورڈ نے میٹر ک کے ضمنی امتحانات کو ختم کر نے کا اعلان کر دیا اس پر ایک بار پھر طلبا میں بے چینی کی لہر ڈور گئی۔

این ایس ایف نے اس پر احتجاج کیا اور بورڈ انتظامیہ کو اعلان واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ جنوری تحریک کے دوران اہم کردار ادا کیے جا نیوالے ہفتہ روزہ اسٹو ڈنٹس ہیرالڈ کی بندش کے بعد 1957میں این ایس ایف کے نو منتخب جنرل سیکریٹری زین الدین خان لودھی نے پندرہ روزہ طالبعلم کا اجرا کیا جنوری 1959میں این ایس ایف نے طالبعلم کا شہید نمبر شایع کیا، 7 جنوری کو پو لیس نے این ایس ایف کے دفتر پر چھا پہ مارا اور طالب علم کا شہید نمبر ضبط کر لیا اور دفتر کو سربمہر کر دیا۔ نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔


مئی 1959 میں سیکیورٹی قوانین کے تحت پندرہ روزہ ''طالب علم'' کا ڈیکلر یشن منسوخ کر دیا گیا۔1960 کے اواخر میں 13 نومبر کو انقلابی رہنما حسن ناصر کو لاہور کے شا ہی قلعہ میں انسانیت سوز تشد د کر کے مار ڈالا گیا۔ این ایس ایف نے ایوبی آمریت کی طرف سے مزدور طبقے کے اہم رہنما کی شہادت پر بھر پور احتجاج کیا۔1961 میں الجزائر میں مجاھدین آزادی کے خلاف ہونیوالے اقدامات، کانگو کے نوجوان ترقی پسند وزیر اعظم 'پیٹرس لوممبا'کے بہیمانہ قتل اور جبل پور (بھارت) کے بے گناہ مسلمانوں پر ہو نیوالے مظالم کے خلاف این ایس ایف نے احتجاجی مظاہر ے کیے اور جلوس نکالے۔ 1962 میں این ایس ایف نے تین سالہ ڈگری کورس کے خا تمے کے لیے تحریک کا آغاز کیا اور 30 ستمبر کو مرکزی حکومت نے تین سالہ ڈگری کورس ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔1965میں این ایس ایف میں پہلی دھڑے بندی اس وقت سامنے آئی جب بین الاقوامی مزدور تحر یک خروشچیف کی ترمیم پسند لائن کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

ایک دھڑے کی قیادت امیر حیدر کاظمی کر رہے تھے جب کہ انقلابی لا ئن کی حمایت کر نیوالے دھڑے کی نما یندگی معراج محمد خان اور رشید حسن خان کر رہے تھے۔ 1968 میں رشید حسن خان این ایس ایف کے صدر ہو گئے۔ این ایس ایف کے مرکزی مجلس عاملہ کے فیصلے کے مطابق 1969 میں رشید حسن خان نے ملک گیر دورہ کیا، مختلف شہروں اور گاؤں میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور اس دورہ کے نتیجے میں این ایس ایف راولپنڈی، لاہور، پشاور، نوشہرہ، سوات، مردان، کیمبل پور، گجرات اور دوسرے شہروں میں بھی قا ئم کی گئی۔

یہ درست ہے کہ 1970کے عام انتخاب میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات نے پاکستا ن پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی اور این ایس ایف کے سابق صدر معراج محمد خان نا صرف پیپلز پارٹی میں شامل رہے بلکہ بھٹو حکومت میں وزیر مملکت بھی مقرر کیے گئے، لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ این ایس ایف نے تنظیم کی حیثیت میں بھٹوکا ساتھ دیا۔ این ایس ایف کے کارکن اس حقیقت سے باخوبی آگاہ ہیں کہ این ایس ایف کی قیادت نے عوامی جمہوری انقلاب کی راہ تلاش کر نے کی کوششیں ہر صورت میں جاری رکھیں۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے خلاف این ایس ایف کی دو ٹوک رائے اور موثر آواز فراموش کرنا ممکن نہیں۔بھٹو دور حکومت میں7 اور 8 جون 1972 کو سائٹ میں اور17 اور 18 اکتوبر کو لانڈھی میںمزدروں کے خلاف ریاستی جبرکا مظا ہرہ کیا گیا تو این ایس ایف نے ڈٹ کے مزدوروں کی حما یت کی۔

افغانستان میں نور محمد ترکئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے اور سوویت مداخلت پر ایک بار پھر اختلاف رائے پیدا ہوا اور 1980 میںاین ایس ایف ایک بار پھر دھڑے بندی کا شکار ہوئی۔ 1965 اور پھر 1980 میں سامنے آنیوالے اختلافات کی نظری بنیادیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان کے علاوہ جو چھو ٹے بڑے اختلافات ابھر ے ان کا نظریاتی جواز تلاش کرنا خاصا مشکل ہے۔این ایس ایف پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کے بدترین مارشل لاء میں بھی متحر ک کردار ادا کیا۔ ضیا آمر یت کے دور میں بڑے پیمانے پرکارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ متعدد سرگرم کارکنوں کو یونیورسٹیوں سے خارج کیا گیا، اس دور میں تعلیمی اداروں میں انتخابات ہوئے تو این ایس ایف نے ما رشل لاء مخالف قوتوں کو مجتمع کر کے ان میں حصہ لیا اور ضیاء آمریت کی حامی اسلامی جمعیت طلباء کے مقابلہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔

این ایس ایف نے تعلیمی اداروں کی خود مختاری اور احترام کے تحفظ کی جدوجہد کر نے کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کی تحریک میں بھی نمایاں اور فعال کردار ادا کیا۔1984 میں ضیاء حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کی تو این ایس ایف نے دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ مل کر 100 دنوں کے احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا۔طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کر کے اور مسلح گروپوں کی سر پرستی کر کے حکومت نے تعلیمی اداروں سے سیاسی علمی اور ادبی ماحول کو تباہ کر دیا اور تمام تعلیمی ادارے صحت مند غیر نصابی سرگرمیو ں کے بجائے انتشار، تصادم اور غنڈہ گردی کی آماجگاہ بن گئے اس ماحول سے سب سے زیادہ متاثر این ایس ایف ہو ئی۔

این ایس ایف کی شاندار روایت، بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے باعث آج ایک بار پھرطلبہ برداری تعلیمی اداروں کے ماحول کی بہتری، اپنے روز مرہ مسائل کے حل اور صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں کے از سر نو آغاز کے لیے این ایس ایف کی طرف مائل نظر آ رہی ہے اور اس کی تنظیم نو کا عمل جاری ہے۔ مختلف صوبوں کے اکثر شہروں میں ایک بار پھر این ایس ایف طلبا اور طالبات کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان گیر بنیاد پر این ایس ایف کو ایک بار پھر منظم کیا جائے۔
Load Next Story