جمہوریت اور جینے دو

آج تمام اقوام و ممالک بے چینی، اختلافات وامتیازات کا شکار ہیں۔ معاذ اللہ قانون میں کمی نہیں۔


نجمہ عالم January 29, 2015
[email protected]

قانون خداوندی (قانون فطرت) اور انسانی ذہن کا تخلیق کردہ قانون کسی بھی صورت میں یکساں نہیں ہو سکتا۔ قانون فطرت وہ قانون ہے جس میں کسی قسم کا سقم ہونے کا احتمال بھی ناممکن ہے کیونکہ وہ نباض فطرت کا دیا ہوا ہے۔ مگر انسان جو خطا کا پتلا ہے، کتنا ہی صاحب عقل و فہم ہو، کیسا ہی دانشور ہو، کتنا بھی معاشرتی ضروریات، انسانی احساسات سے واقف ہو اس کے بنائے ہوئے قانون میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کمی کا ہونا ناگزیر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے برسوں بعد قوم کو ایک متفقہ آئین ملا مگر اس آئین کے خالق اور اس پر مہر تصدیق ثبت کرنے والے سیاستدانوں نے ہی دوسری آئینی ترمیم سے اس کی روح کو گھائل کر دیا اور اب تک اس آئین میں تقریباً بیس ترامیم ہو چکی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تمام تر کوشش کے باوجود انسانی تخلیق مکمل ہو سکتی ہے نہ خطا و غلطی سے مبرا، اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا کی صورتحال (امن و امان، لاقانونیت کی) یہ نہ ہوتی جو ہے۔

ہم تو خیر ایک پسماندہ نہ کسی ترقی پذیر ملک کے باسی ہیں مگر ترقی یافتہ، مہذب علمی طور پر عروج پر پہنچنے والی قومیں اور ممالک کے قوانین جو دانشوروں کی عقل کا نتیجہ ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ کمی پائی گئی ہے۔ گزشتہ صدی میں دو عالمی تباہ کن جنگوں کے بعد اقوام متحدہ کا جو چارٹر تشکیل دیا گیا وہ بھی دنیا میں مکمل امن قائم نہ کر سکا آج اس میں بھی ترمیم و اضافے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے لیکن خالق کائنات نے اپنے دین برحق کی صورت میں جو مکمل ضابطہ حیات دیا اور حضور حتمی مرتبؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانیت کے لیے جو لائحہ عمل پیش فرمایا اگر اس کو اختیارکر لیا جاتا تو پرامن معاشرہ اور اتحاد باہمی کی صورت گری ممکن تھی، ضابطہ حیات تو مکمل تھا قانون فطرت بھی ہر زمانے ہر علاقے کے لیے بہترین تھا مگر انسانی عقل کی رسائی کے باعث وہ بھی کچھ سے کچھ ہوکر رہ گیا۔

آج تمام اقوام و ممالک بے چینی، اختلافات وامتیازات کا شکار ہیں۔ معاذ اللہ قانون میں کمی نہیں مگر اس کو سمجھنے والی عقل میں تو کمی ہے ناں۔ یہی وجہ ہے اتنی تباہی کے باوجود کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ دنیا کو امن کا گہوارہ نہ بنا سکا اور دنیا مسلسل تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو، مگر کیا مغرب اور کیا مشرق کہیں بھی مکمل امن و سکون نظر نہیں آتا خاص کر تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص مسلم ممالک میں ہر وقت غیر یقینی، پسماندگی، انتہا پسندی کا فروغ حالت جنگ سے بھی بدتر صورتحال پیش کر رہا ہے۔

اس تمہید سے میرا مقصد ہے کہ بتا سکوں (مگر بتاؤں کیسے ہر شخص از خود واقف ہے) کہ قانون فطرت کو پس پشت ڈالنے، اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے اور ان قوانین و حدود کی من مانی تشریح اختیار کرنے کا انجام یہی نہیں بلکہ اس سے بدتر ہونا چاہیے ''اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے'' اس حقیقت سے ہم بچپن سے واقف ہیں، تو پھر فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں کیوں ہیں؟ اگر ہم ذرا سی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کر لیں تو ہم اس بحران سے نکل سکتے ہیں جس میں آج ہم بری طرح پھنس گئے ہیں۔ آج دنیا بھر میں اسلام کا جو منفی تاثر پھیلایا جا رہا ہے کیا اس میں خود ہمارا کردار غور طلب نہیں ہے؟ کیا واقعی اسلام ایسا ہی دین ہے جیسا پیش کیا جا رہا ہے؟ مانا کہ ہم میں سے ہر کوئی شریعت محمدیؐ سے مکمل طور پر واقف نہیں، مگر کیا ہمارے دین نے حصول علم اپنے ماننے والے تمام مرد و زن پر فرض قرار نہیں دیا تھا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس دین کی پیروی کر رہے ہیں کم از کم اس کے بنیادی اصولوں سے تو واقف ہوں۔

مگر جب ہم نے ترقی و خوشحالی کا مطلب غیر اسلامی نظریات و عادات کو اپنانے میں ضروری سمجھا تو پھر ہماری لاعلمی کا فائدہ اٹھاکر ایک طبقہ علوم اسلامی کے ماہر کے روپ میں سامنے آیا اور اس نے اپنی محدود عقل اور معمولی علمی استطاعت کی بنا پر قانون شریعت کی تشریح و تفسیر اپنے ذہنی معیار کے مطابق کرنا شروع کر دی، ابتدا میں فروعی اختلاف تھے مگر بنیادی اصولوں میں اختلافات واجبی سے تھے جن کو باآسانی نظرانداز کر کے باہم اتحاد و اتفاق سے رہا جا سکتا تھا۔ میں تاریخ اسلام کی تفصیل میں جائے بنا (کیونکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح واقف ہیں کہ کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں) جو نقطہ واضح کرنا چاہتی ہوں وہ یہی ہے کہ ہمیشہ حکمرانوں کو مشورہ دینے والے مخصوص ذہنیت اور ذاتی مفاد کے حامل ہی تھے جو خود کو دوسروں سے علمی طور پر اعلیٰ سمجھتے تھے۔

دراصل میرا مقصد ملک کی موجودہ صورتحال کا تھوڑا بہت تجزیہ کرنا ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے حالات کس نہج پر پہنچے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ آج جب تعلیم عام ہو چکی ہے، وہ خاندان جو لڑکیوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے آج ان کی لڑکیاں بھی ہر شعبہ زندگی میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں، شرح خواندگی بڑھنے کے باوجود ہم ذہنی پسماندگی، تعصب، فرقہ وارانہ تنگ نظری کا شکار کیوں اور کیسے ہو گئے؟ اپنے اسکول کے زمانے میں ہم اپنی سہیلیوں کے ہمراہ جن میں سندھی، پنجابی اور اردو بولنے کے علاوہ مختلف فرقوں سے جن کا تعلق تھا مگر ہمیں برسوں ساتھ رہنے کے باوجود کبھی معلوم نہ ہوا کہ کون کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور اگر معلوم ہو بھی گیا تو ہم ایک دوسرے کے گھر کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔

ہم سب عیدمیلاد النبیؐ، گیارہویں شریف، محرم کی مجالس میں ایک دوسرے کے یہاں شرکت بھی کرتے مختلف تہواروں پر تحائف بھی دیتے، ایک دوسرے کے گھر، حلوہ، کھیر، حلیم (حسب موقع) کا تبادلہ بھی کرتے تھے نہ ہمارے بزرگوں کو ہمارے میل جول پر اعتراض تھا نہ ہمیں کسی کی پرواہ تھی۔آج پورے معاشرے میں صورت حال یکسر مختلف ہو چکی ہے، پڑوسیوں کے درمیان عقائد و مسالک کی دیوار حائل ہو گئی ہے، حالانکہ سب اسی دین کے ماننے والے ہیں جو پڑوسیوں کے حقوق پر زور دیتا ہے، فروغ علم کے باوجود ہم روشن خیال، وسیع القلب نہ رہے، ہم سب اپنے خول میں بند ہوتے گئے۔ دوسروں کو ان کے عقائد کے ساتھ قبول کرنے سے گریز نے ہماری سوچ کو محدود کر دیا آخر کیوں اور کیسے یہ سب ہوا؟

ہمارے علما نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے اپنے فرقے اور مسلک کی ترویج کی طرف دھیان دینا شروع کیا۔ ہر فرقے کی تبلیغ اور دوسرے کی مذمت کے باعث آپس کے اختلافات بڑھتے گئے۔ ایک محلے میں دس مساجد الگ الگ مسالک کی ایک ہی گلی کے رہائشی اذان کی آواز پر گھر سے نکل کر مختلف مساجد کا رخ کرنے لگے اب اہمیت اسلام کی نہیں مسلک کی بڑھ گئی۔

اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی احترام باہمی کے بجائے اپنے اپنے تفاخر میں مبتلا ہیں، دوسروں کو غلط خود کو درست قرار دینا حیرت انگیز طور پر فروغ پا رہا ہے۔ قانون شکنی، اقربا پروری، مالی حیثیت، اہمیت اختیار کر رہی ہے معاشرہ بے سکونی و انتشار کا شکار ہے کیوں؟ کیونکہ ہم نے قانون خداوندی کو پس پشت ڈال کر اپنی اپنی شریعت الگ بنالی ہے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح کر دیا گیا تھا کہ کسی امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، فلاحی معاشرے کا یہ تصور ہمارے درمیان سے یکسر غائب ہو چکا ہے۔

قرآن جو ہمارا رہنما ہے اس میں واضح طور پر ارشاد ہوا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہم نے اپنے طور پر اس کا مطلب اپنے ذہنی معیار کے مطابق نکال کر انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں، گلی کوچوں کو خون میں نہلا دیا، اسلامی خدمت کے نام پر انتہا پسندی کو اصل اسلام قرار دینے کے نتیجے میں القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکوحرام جیسی قوتیں سامنے آئیں اور ساری دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ اسلام دور جدید کا ساتھ نہ دینے والا، وحشت و بربریت پھیلانے والا (معاذ اللہ) دین ہے۔

آج ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ابھی وقت ہے اگر ہم اپنے بچوں کو دین اسلام کے بنیادی اصول اور حقیقی روح کے مطابق احترام انسانیت کا خوگر بنانے کا گھر پر بندوبست کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم قانون فطرت جس میں کسی سقم کا احتمال نہیں کے مطابق ''جیو اور جینے دو'' کے اصول پر زندگی بسر کر کے دنیا کو امن مہیا نہ کر سکیں۔ مگر صورتحال بقول اقبال کچھ یوں ہے کہ:

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں