آئیے ایک نئی لائن لگائیں
درحقیقت یہ عوام دوست حکومتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام کو اس قسم کی لائنوں میں لگاتی ہیں۔
باخبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ قائم کرنے پر غور کر رہی ہے جو یہ تجویز کرے گا کہ عوام الناس کو اب کون سی نئی لائن میں لگایا جا سکتا ہے۔ اصل میں ان لائنوں کی کامیابی کے بعد جو پہلے سی این جی کے لیے لگائی گئیں اور پھر پٹرول کے لیے حکومت کو مذکورہ ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا ہے۔
اگرچہ پٹرول کی لائنیں کچھ عرصے بعد ہی تتر بتر ہو گئیں مگر سی این جی کی لائنیں اب بھی بڑے ذوق و شوق سے لگائی جا رہی ہیں۔اکثر لوگ حکومت کو اس صورت حال کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت یہ سب کچھ مجبوری کے عالم میں اور خود عوام کے مفاد میں کرتی ہے ورنہ لوگوں کو خود سمجھنا چاہیے کہ عوام کو لائن میں لگانے سے آخر حکومت کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
لیکن کیونکہ عام لوگوں میں تعلیم اور شعور کی کمی ہے لہٰذا ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ لائن میں لگنے کے اپنے بے شمار فائدے ہیں۔ ایک تو اس سے عوام میں ڈسپلن پیدا ہوتا ہے خاص طور پر جب غیر ملکی باشندے پاکستانیوں کو کبھی پیدل اور کبھی کاروں میں کبھی ہلکی پھلکی بارش میں اور کبھی چلچلاتی دھوپ میں لائنوں میں لگا دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے بارے میں بہت اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں کہ کتنی ڈسپلنڈ اور زبردست قوت برداشت والی قوم ہے کہ گھنٹوں لائن میں لگی رہتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل نہیں آتا۔
پھر یہ بہت سے نازک اندام لوگوں کے لیے اچھی خاصی ورزش اور ''فزیکل ایکٹیوٹی'' بھی ہے کبھی پیدل کھڑے رہ کر اور کبھی گاڑی آگے پیچھے کرنے سے انھیں جسمانی ایکسرسائز کا ایک اچھا موقع ہاتھ آتا ہے۔ پھر یہ عوام کے لیے جن کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں ہے ایک بے ضرر قسم کی مصروفیت بھی ہے اور وہ اسے وقت گزارنے کا ایک اچھا موقع سمجھتے ہیں پھر اس سے ان میں قوت برداشت بھی پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی آزمائش کے وقت میں ان کے کام آ سکتی ہے۔
کبھی سی این جی، کبھی پٹرول اورکبھی ٹیکس اور واجبات جمع کرانے کے لیے لگائی گئی یہ لائنیں عام لوگوں میں اتحاد اور یگانگت بھی پیدا کرتی ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد شیئر کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا درس بھی دیتی ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز بھی چاہے وہ سی این جی ہو یا پٹرول بغیر محنت کیے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ پھر جب طویل مسافت طے کرنے کے بعد پٹرول یا سی این جی سے ٹنکی فل کروا کر جو خوشی، اطمینان اورتسکین حاصل ہوتی ہے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی لائن میں لگنے سے محروم ہیں ان سے یہی کہا جا سکتا ہے:
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
درحقیقت یہ عوام دوست حکومتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام کو اس قسم کی لائنوں میں لگاتی ہیں۔ حکمراں اور رعایا یہ رویہ دونوں کے درمیان بلا کے اعتماد کا آئینہ دار ہوتا ہے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کو ایک اچھی مصروفیت فراہم کر رہی ہے اور عوام کو بھروسہ ہوتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے مجبور ہوکر خود ان کے مفاد میں کر رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بجلی، ٹیلی فون، گیس وغیرہ کے ماہانہ بل جمع کرانے کے لیے یہ لائنیں لگائی جاتی تھیں بلکہ کسی عمارت کے سامنے کڑی دھوپ میں لگی ہوئی یہ لائنیں ہی کسی بینک کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت لوگ بے حد مایوس تھے کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب انھیں ان لائنوں سے نجات ملے گی مگر پھر رفتہ رفتہ بینکوں کی تعداد بڑھی۔ بل وصولی کے بینک چارجز میں اضافہ ہوا، بینکوں نے یوٹیلیٹیز بل وصول کرنیوالے کاؤنٹرز اور عملہ بڑھایا اور یہ لائنیں ختم ہو گئیں۔اولڈ ایج پنشنرز کی جو لائنیں شروع کی تاریخوں میں لگتی تھیں انھیں ختم کرنے کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے گئے۔ جن میں نیشنل بینک کے ساتھ ساتھ ایک نجی موبائل کمپنی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
لیکن اب حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس قسم کی لائنیں عوام کی صحت اور مصروفیت کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ اسی خیال سے پچھلے دنوں پٹرول کے لیے لائنیں لگانے کا تجربہ کیا گیا جو خاصا کامیاب رہا۔ اسے کامیاب بنانے میں بڑی حد تک عوام نے بھی بھرپور کردار ادا کیا کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انھیں ملک کے وسیع تر مفاد میں خود ان کے فائدے کے لیے لائن میں لگایا جا رہا ہے ایسے معصوم لوگوں کے لیے تشکر کے جذبات سے مغلوب متعلقہ سرکاری حلقوں نے طے کیا ہے کہ آیندہ جب کبھی عوام کو لائن میں لگایا جائے گا ان کے لیے سائے کا بندوبست بھی کیا جائے گا موسم کی سختیوں سے بچانے کے دوسرے انتظامات بھی کیے جائیں گے اس کے علاوہ اگر جوسز کے لیے اسپانسرز نہیں ملے تو کم ازکم پانی پلانے کا ضرور بندوبست کیا جائے گا۔
اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ جہاں جہاں لائنیں لگیں وہاں ٹی وی سیٹ بھی لگا دیے جائیں تا کہ پبلک بور نہ ہو اور اپنی پسند کے ٹی وی پروگرام بھی دیکھتی رہے۔اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ لائن میں لگے نظم و ضبط کے پابند افراد کی فلمیں بنا کر اندرون و بیرون ملک دکھائی جائیں تا کہ یہ غلط تاثر دور ہو سکے کہ پاکستانی قوم ڈسپلنڈ نہیں ہے۔
ایک سرکاری ترجمان نے نہ صرف عوام کو مجبوراً لائن میں لگانے کا دفاع کیا بلکہ اس بات کا بھی کریڈٹ لیا کہ اس دفعہ عوام کو سخت سردی بلکہ خوشگوار موسم میں لائن میں لگایا گیا ہے جب کہ پچھلی حکومتیں عوام کو سخت گرمی میں لائن میں لگاتی رہی ہیں۔ پہلے بے چارے غریب عوام لائنوں میں لگ کر اپنی قسمتوں کو کوستے رہے ہیں جب کہ اس مرتبہ گاڑیاں رکھنے والے صاحب حیثیت افراد کو بھی لائنوں کا مزہ چکھایا گیا ہے اور ایسی لائنیں لگائی گئی ہیں جن میں امیر غریب کا امتیاز ختم ہو گیا ہے بقول ایک شاعر:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی موٹر سائیکل رکشا رہا اور نہ مرسڈیز کار
پھر پٹرول پمپوں پر یہ منظر بھی دیکھنے آیا کہ سی این جی بھروانے کے لیے تو لوگ یہاں سے وہاں تک طویل قطار میں کھڑے ہیں اور اسی دوران کچھ بادشاہ لوگ بڑے آرام سے پٹرول بھروا کر چلے جاتے ہیں اس سے سی این جی بھروانے والوں میں بڑا احساس کمتری و محرومی پیدا ہو رہا تھا اسے دور کرنے کے لیے مجبوراً سرکار کو پٹرول کی قلت پیدا کر کے پٹرول کے لیے بھی لائنیں لگوانی پڑیں تا کہ پٹرول استعمال کرنیوالوں کو بھی احساس ہو کہ سی این جی بھروانیوالوں کو کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔اب جب کہ پٹرول کے لیے لائنیں ختم ہو گئی ہیں اور سی این جی کی لائنیں بھی پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہیں حکومت کو شدت سے ایک نئی لائن کی کمی کا احساس ہو رہا ہے اور اس مقصد سے جو تحقیقاتی ادارہ قائم کیا گیا ہے وہ باخبر ذریعوں کے مطابق بڑی دور کی کوڑی لایا ہے۔
یعنی گیس اور پٹرول کے بعد کیوں نہ عوام کو پانی کے لیے لائنوں میں لگایا جائے۔ اس غرض سے تجویز کیا گیا ہے کہ گھروں پر پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہمی کرنے کے بجائے لوگوں کی آرام طلبی دور کرنے کے لیے انھیں واٹرپمپ آ کر اپنی گاڑیوں میں پانی بھرنے پر مجبور کیا جائے اس مقصد سے پٹرول اور سی این جی پمپ کی طرز پر جابجا واٹر پمپ تعمیر کیے جائیں اور گاڑیوں میں بھی پٹرول اور سی این جی کے ٹینک کے ساتھ ساتھ پانی کے ٹینک کا بھی اضافہ کیا جائے جو گھر میں پینے کے کام آ سکے اور ایمرجنسی کی صورت میں اس پانی سے گاڑی میں لگنے والی آگ بھی بجھائی جا سکے۔
ابھی ہو سکتا ہے لوگوں کو یہ سب کچھ مذاق محسوس ہو مگر آنیوالے برسوں میں دیوانے کا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے اور سچ مچ یہ نوبت آ سکتی ہے۔ ہمیں بہر حال اب بھی ایک ایسا منظر دیکھنے کی حسرت ہے کہ ہم کہیں سے گزر رہے ہوں گے اور کسی بینک پر ایک لمبی سی لائن لگی ہو گی اور جب ہم اس کی وجہ تسمیہ پوچھیں گے تو لوگ بتائیں گے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری اخراجات بشمول غیر ملکی دورے کم کرنے سے جو رقم بچی ہے اسے حکومت نے ہر مہینے مستحق افراد میں برابر برابر تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ عوام کی مالی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ پھر ہم بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اس لائن میں لگ جائیں گے چاہے اس کے بعد مارے خوشی کے ہماری آنکھ ہی کیوں نہ کھل جائے۔
اگرچہ پٹرول کی لائنیں کچھ عرصے بعد ہی تتر بتر ہو گئیں مگر سی این جی کی لائنیں اب بھی بڑے ذوق و شوق سے لگائی جا رہی ہیں۔اکثر لوگ حکومت کو اس صورت حال کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت یہ سب کچھ مجبوری کے عالم میں اور خود عوام کے مفاد میں کرتی ہے ورنہ لوگوں کو خود سمجھنا چاہیے کہ عوام کو لائن میں لگانے سے آخر حکومت کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
لیکن کیونکہ عام لوگوں میں تعلیم اور شعور کی کمی ہے لہٰذا ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ لائن میں لگنے کے اپنے بے شمار فائدے ہیں۔ ایک تو اس سے عوام میں ڈسپلن پیدا ہوتا ہے خاص طور پر جب غیر ملکی باشندے پاکستانیوں کو کبھی پیدل اور کبھی کاروں میں کبھی ہلکی پھلکی بارش میں اور کبھی چلچلاتی دھوپ میں لائنوں میں لگا دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے بارے میں بہت اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں کہ کتنی ڈسپلنڈ اور زبردست قوت برداشت والی قوم ہے کہ گھنٹوں لائن میں لگی رہتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل نہیں آتا۔
پھر یہ بہت سے نازک اندام لوگوں کے لیے اچھی خاصی ورزش اور ''فزیکل ایکٹیوٹی'' بھی ہے کبھی پیدل کھڑے رہ کر اور کبھی گاڑی آگے پیچھے کرنے سے انھیں جسمانی ایکسرسائز کا ایک اچھا موقع ہاتھ آتا ہے۔ پھر یہ عوام کے لیے جن کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں ہے ایک بے ضرر قسم کی مصروفیت بھی ہے اور وہ اسے وقت گزارنے کا ایک اچھا موقع سمجھتے ہیں پھر اس سے ان میں قوت برداشت بھی پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی آزمائش کے وقت میں ان کے کام آ سکتی ہے۔
کبھی سی این جی، کبھی پٹرول اورکبھی ٹیکس اور واجبات جمع کرانے کے لیے لگائی گئی یہ لائنیں عام لوگوں میں اتحاد اور یگانگت بھی پیدا کرتی ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد شیئر کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا درس بھی دیتی ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز بھی چاہے وہ سی این جی ہو یا پٹرول بغیر محنت کیے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ پھر جب طویل مسافت طے کرنے کے بعد پٹرول یا سی این جی سے ٹنکی فل کروا کر جو خوشی، اطمینان اورتسکین حاصل ہوتی ہے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی لائن میں لگنے سے محروم ہیں ان سے یہی کہا جا سکتا ہے:
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
درحقیقت یہ عوام دوست حکومتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام کو اس قسم کی لائنوں میں لگاتی ہیں۔ حکمراں اور رعایا یہ رویہ دونوں کے درمیان بلا کے اعتماد کا آئینہ دار ہوتا ہے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کو ایک اچھی مصروفیت فراہم کر رہی ہے اور عوام کو بھروسہ ہوتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے مجبور ہوکر خود ان کے مفاد میں کر رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بجلی، ٹیلی فون، گیس وغیرہ کے ماہانہ بل جمع کرانے کے لیے یہ لائنیں لگائی جاتی تھیں بلکہ کسی عمارت کے سامنے کڑی دھوپ میں لگی ہوئی یہ لائنیں ہی کسی بینک کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت لوگ بے حد مایوس تھے کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب انھیں ان لائنوں سے نجات ملے گی مگر پھر رفتہ رفتہ بینکوں کی تعداد بڑھی۔ بل وصولی کے بینک چارجز میں اضافہ ہوا، بینکوں نے یوٹیلیٹیز بل وصول کرنیوالے کاؤنٹرز اور عملہ بڑھایا اور یہ لائنیں ختم ہو گئیں۔اولڈ ایج پنشنرز کی جو لائنیں شروع کی تاریخوں میں لگتی تھیں انھیں ختم کرنے کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے گئے۔ جن میں نیشنل بینک کے ساتھ ساتھ ایک نجی موبائل کمپنی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
لیکن اب حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس قسم کی لائنیں عوام کی صحت اور مصروفیت کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ اسی خیال سے پچھلے دنوں پٹرول کے لیے لائنیں لگانے کا تجربہ کیا گیا جو خاصا کامیاب رہا۔ اسے کامیاب بنانے میں بڑی حد تک عوام نے بھی بھرپور کردار ادا کیا کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انھیں ملک کے وسیع تر مفاد میں خود ان کے فائدے کے لیے لائن میں لگایا جا رہا ہے ایسے معصوم لوگوں کے لیے تشکر کے جذبات سے مغلوب متعلقہ سرکاری حلقوں نے طے کیا ہے کہ آیندہ جب کبھی عوام کو لائن میں لگایا جائے گا ان کے لیے سائے کا بندوبست بھی کیا جائے گا موسم کی سختیوں سے بچانے کے دوسرے انتظامات بھی کیے جائیں گے اس کے علاوہ اگر جوسز کے لیے اسپانسرز نہیں ملے تو کم ازکم پانی پلانے کا ضرور بندوبست کیا جائے گا۔
اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ جہاں جہاں لائنیں لگیں وہاں ٹی وی سیٹ بھی لگا دیے جائیں تا کہ پبلک بور نہ ہو اور اپنی پسند کے ٹی وی پروگرام بھی دیکھتی رہے۔اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ لائن میں لگے نظم و ضبط کے پابند افراد کی فلمیں بنا کر اندرون و بیرون ملک دکھائی جائیں تا کہ یہ غلط تاثر دور ہو سکے کہ پاکستانی قوم ڈسپلنڈ نہیں ہے۔
ایک سرکاری ترجمان نے نہ صرف عوام کو مجبوراً لائن میں لگانے کا دفاع کیا بلکہ اس بات کا بھی کریڈٹ لیا کہ اس دفعہ عوام کو سخت سردی بلکہ خوشگوار موسم میں لائن میں لگایا گیا ہے جب کہ پچھلی حکومتیں عوام کو سخت گرمی میں لائن میں لگاتی رہی ہیں۔ پہلے بے چارے غریب عوام لائنوں میں لگ کر اپنی قسمتوں کو کوستے رہے ہیں جب کہ اس مرتبہ گاڑیاں رکھنے والے صاحب حیثیت افراد کو بھی لائنوں کا مزہ چکھایا گیا ہے اور ایسی لائنیں لگائی گئی ہیں جن میں امیر غریب کا امتیاز ختم ہو گیا ہے بقول ایک شاعر:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی موٹر سائیکل رکشا رہا اور نہ مرسڈیز کار
پھر پٹرول پمپوں پر یہ منظر بھی دیکھنے آیا کہ سی این جی بھروانے کے لیے تو لوگ یہاں سے وہاں تک طویل قطار میں کھڑے ہیں اور اسی دوران کچھ بادشاہ لوگ بڑے آرام سے پٹرول بھروا کر چلے جاتے ہیں اس سے سی این جی بھروانے والوں میں بڑا احساس کمتری و محرومی پیدا ہو رہا تھا اسے دور کرنے کے لیے مجبوراً سرکار کو پٹرول کی قلت پیدا کر کے پٹرول کے لیے بھی لائنیں لگوانی پڑیں تا کہ پٹرول استعمال کرنیوالوں کو بھی احساس ہو کہ سی این جی بھروانیوالوں کو کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔اب جب کہ پٹرول کے لیے لائنیں ختم ہو گئی ہیں اور سی این جی کی لائنیں بھی پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہیں حکومت کو شدت سے ایک نئی لائن کی کمی کا احساس ہو رہا ہے اور اس مقصد سے جو تحقیقاتی ادارہ قائم کیا گیا ہے وہ باخبر ذریعوں کے مطابق بڑی دور کی کوڑی لایا ہے۔
یعنی گیس اور پٹرول کے بعد کیوں نہ عوام کو پانی کے لیے لائنوں میں لگایا جائے۔ اس غرض سے تجویز کیا گیا ہے کہ گھروں پر پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہمی کرنے کے بجائے لوگوں کی آرام طلبی دور کرنے کے لیے انھیں واٹرپمپ آ کر اپنی گاڑیوں میں پانی بھرنے پر مجبور کیا جائے اس مقصد سے پٹرول اور سی این جی پمپ کی طرز پر جابجا واٹر پمپ تعمیر کیے جائیں اور گاڑیوں میں بھی پٹرول اور سی این جی کے ٹینک کے ساتھ ساتھ پانی کے ٹینک کا بھی اضافہ کیا جائے جو گھر میں پینے کے کام آ سکے اور ایمرجنسی کی صورت میں اس پانی سے گاڑی میں لگنے والی آگ بھی بجھائی جا سکے۔
ابھی ہو سکتا ہے لوگوں کو یہ سب کچھ مذاق محسوس ہو مگر آنیوالے برسوں میں دیوانے کا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے اور سچ مچ یہ نوبت آ سکتی ہے۔ ہمیں بہر حال اب بھی ایک ایسا منظر دیکھنے کی حسرت ہے کہ ہم کہیں سے گزر رہے ہوں گے اور کسی بینک پر ایک لمبی سی لائن لگی ہو گی اور جب ہم اس کی وجہ تسمیہ پوچھیں گے تو لوگ بتائیں گے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری اخراجات بشمول غیر ملکی دورے کم کرنے سے جو رقم بچی ہے اسے حکومت نے ہر مہینے مستحق افراد میں برابر برابر تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ عوام کی مالی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ پھر ہم بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اس لائن میں لگ جائیں گے چاہے اس کے بعد مارے خوشی کے ہماری آنکھ ہی کیوں نہ کھل جائے۔