افسوس نہ حیرت عمل کی ضرورت
ایک مذہبی انتہا پسند اورشدت پسند کٹر مخالف لبرل راہ نما میں یہ پیار اوردوستی دراصل دونوں ملکوں کےمفادات کے آہنگ ہے۔
KARACHI:
امریکی صدر باراک اوباما کا دورۂ بھارت اپنی تمام تر گہماگہمی اور رنگارنگی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ اس دورے کی جھلکیاں دکھاتی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر لگتا تھا جیسے سپرپاور کے سربراہ اور دنیا کے طاقت ور ترین انسان اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت تفریحی دورے پر آئے ہوں یا دور دیس میں رہتا بستا کوئی شخص اپنے بہت اپنوں سے ملنے آیا ہو۔
ہمیں یہ تو علم نہیں کہ 100 قیمتی اور دیدہ زیب ساڑھیوں اور دیگر سوغاتوں کے ساتھ امریکی صدر اور خاتون اول کو بھارت سے تحفے میں اور کیا کیا ملا، لیکن انھوں نے اپنے مہمانوں کو جو تحفے دیے انھوں نے بھارتیوں کو خوشی سے نہال کر دیا ہے، اور یہ تحفے ہیں سول ایٹمی معاہدے کے حوالے سے بھارت کے مطالبات تسلیم کرنا اور جوہری نگرانی کیمطالبے سے دستبرداری، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل نشست کی حمایت، امداد اور قرضوں کی مد میں چار کھرب روپے دینے کا وعدہ اور افغانستان میں بھارت کو قابل اعتماد شریک کار ماننے کا اعلان۔دنیا بھر میں خبروں اور تجزیوں کا موضوع بننے والا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب بھارتی فوج مسلسل پاکستان کی سرحد پر اشتعال انگیزی کر رہی ہے اور ہمارے کئی معصوم شہریوں اور سپاہیوں کو شہید کر چکی ہے۔ بھارت کی یہ اشتعال انگیزی اور پاکستان دشمنی کھیل کے میدانوں سے عسکری اور خارجہ پالیسی کی سطح تک ہر جگہ صاف نظر آ رہی ہے۔
ایسی صورت حال میں ایک ایسے ملک کے سربراہ کی بھارت میں پیار لٹاتی سرگرمیاں، جس کے ہم ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں پہلی صف میں شامل اتحادی ہوں، ہمارے لیے افسوس کا باعث ہونی ہی چاہیں، لیکن امریکیوں کو ہمارے افسوس اور جذبات سے کوئی غرض نہیں۔ انھیں کسی بات سے غرض ہے تو وہ ان کے مفادات ہیں، معاشی اور سیاسی مفادات۔ وہ ہر معاملے اور مسئلے کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے اور فیصلہ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نظریاتی اور عملی طور پر مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سرگرم اور انسانی حقوق کا ''علم بردار'' بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی مذہبی انتہاپسندی، بہ طور وزیراعلیٰ گجرات مودی کے ریاست کے مسلمانوں سے سفاکانہ سلوک، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور بھارت میں مسلم اقلیت سے اکثریت کے ناروا سلوک جیسی حقیقتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے امریکا کے صدر نے بھارت کے پردھان منتری کو گلے سے لگا لیا۔ دونوں حکمرانوں میں دوستی کے یہ نظارے صرف امریکی صدر کے دورے تک محدود نہیں، بلکہ نریندر مودی کے بہ قول، ''میرے اور باراک کے درمیان وہ دوستی بن گئی ہے کہ ہم آرام سے فون پر بات کر لیتے ہیں، آرام سے گپ مار لیتے ہیں اور ہنسی مذاق کر لیتے ہیں۔''
ایک مذہبی انتہا پسند اور شدت پسند کٹر مخالف لبرل راہ نما میں یہ پیار اور دوستی دراصل دونوں ملکوں کے مفادات کے آہنگ ہے۔ بھارت امریکا کے لیے ایک ارب سے زیادہ صارفین کی مارکیٹ ہے، دوسرے کے لیے معیشت اور عالمی حکمرانی کے میدانوں میں امریکا کے لیے خطرہ بنتے اور واشنگٹن کے خوابوں کی راہ میں حائل ہوتے چین کا راستہ روکنے کے لیے اس کے فطری حریف اور ہمسایہ ملک بھارت کی امریکیوں کو ضرورت ہے، تیسرے مسلمانوں اور اسلام سے بغض و عناد دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ جنون ہے، چنانچہ مشترکہ دشمن کا ہونا بھی ان کے اشتراک عمل اور بڑھتی ہوئی دوستی کا ایک سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا بھارت کو ہمارے خطے کا اسرائیل بنانا چاہتا ہے۔
لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں۔ امریکا سے اپنی من مانی شرائط منوا لینے کی وجوہات محض اپنی معاشی صلاحیت، صارفین کی تعداد اور امریکا چین ٹکراؤ تک محدود نہیں، بلکہ اس کا ایک اہم سبب بھارت میں تسلسل سے قائم جمہوریت بھی ہے۔
بھارتی جمہوریت کوئی آئیڈیل جمہوریت نہیں، لیکن اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ کئی ذہن مل کر اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے کرتے اور حکمت عملیاں طے کرتے ہیں۔ امریکا ہو یا کوئی اور بیرونی قوت، اسے پتہ ہے کہ بھارت سے کوئی بھی ڈیل کرنے کے لیے کسی فرد واحد سے معاملہ کرنے کی آسانی میسر نہیں، بلکہ ایسا کرتے ہوئے بھارتی عوام کی آرزوؤں، خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھنا پڑے گا، جس کے بغیر بھارت کی کوئی بھی حکمراں جماعت کسی ڈیل کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس نکتے کو بنیاد بناتے ہوئے بھارتی حکمراں امریکا سے اپنی شرائط منواتے آئے ہیں اور واشنگٹن کو ان کی خوشامد کرنا پڑی ہے۔
دوسری طرف ہم ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کے داخل ہونے پر اور اس کے بعد ہمارا امریکا سے اشتراکِ عمل ہو یا نائن الیون کے بعد ایک فون کال کے نتیجے میں ہماری خارجہ پالیسی کا یوٹرن یا ان دونوں واقعات سے پہلے واشنگٹن کے زیراثر ہماری خارجہ پالیسی، یہ سب پاکستان میں کسی فرد واحد کی حکمرانی میں ہوتا رہا ہے۔
صحیح اور غلط کی بحث اپنی جگہ، لیکن ہم تو غلط کر کے بھی اپنے مفادات حاصل اور ان کا تحفظ نہ کر سکے، البتہ وقت کے حکمراں اور اس کے اردگرد موجود لوگوں نے ان پالیسیوں سے ذاتی فائدے ضرور سمیٹے۔ اپنے مفادات ایک طرف رکھ کر اور خوف اور دباؤ کے تحت پالیسیاں بنا کر اور اقدامات کر کے ہم نے کیا پایا، ہیروئن کا مہلک نشہ، مذہبی منافرت اور انتہاپسندی، عسکریت پسند گروہ اور ان کی سرگرمیاں، خود کش حملے۔۔۔۔۔ یہ سب صرف اس وجہ سے ہے کہ آمروں نے فیصلے کیے اور قوم پر مسلط کر دیے۔
ایسا کرتے ہوئے قومی خودداری، خودمختاری، اصولوں اور سچائی کو تو کجا قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اگر واشنگٹن کے فرعونی ذہن رکھنے والے حکام جانتے کے پاکستان میں بھی فیصلے عوام کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں ہو سکتے تو وہاں سے دھمکی آمیز فون نہ آتے، بلکہ درخواست کی جاتی، ہمیں اپنا شریک کار بنانے اور ساتھ چلانے کے لیے پاکستانیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے جتن کیے جاتے، لیکن وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں انھیں فرد واحد سے معاملہ کرنے پڑے گا جسے عوام کی رائے سے کوئی غرض ہے نہ کوئی پروا، چنانچہ پاکستان کو کچھ دیے بغیر اس سے کچھ بھی منوا لینا بہت آسان ہے، اور قرضوں میں جکڑے اور معاشی بدحالی کے شکار پاکستان کی صورت حال تو معاملے کو اور آسان کر دیتی ہے۔
تو صاحب حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال پر ہمیں افسوس ہونا چاہیے نہ حیرت، بلکہ ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی خارجی اور داخلی حکمت عملیوں اور اپنے معاملات کی درستی کے لیے سوچنا اور متحرک ہونا چاہے۔