شاہ لطیف کی دھرتی پر وحشت کی یلغار

دہشت گردوں نے پُرامن علاقوں کو ہدف بنانے کی حکمت عملی اپنالی ہے؟

دہشت گردوں نے پُرامن علاقوں کو ہدف بنانے کی حکمت عملی اپنالی ہے؟۔ فوٹو: اے ایف پی

پھر ایک سانحہ۔۔۔
خلقِ خدا کے خون کا ایک اور نوحہ۔۔۔

جانے کب تک ہم یوں دہشت گردیوں کی نذر ہونے والوں کے اَلم کہتے رہیں گے۔۔۔ بس ہر بار ایک امید اور دعا ہوتی ہے، کہ کاش اب کے کوئی خون نہ ہو۔۔۔ کسی کے عقیدے، رنگ ونسل اور سوچ اور فکر کو اس کا پروانۂ قتل نہ بنایا جائے۔۔۔ اور اب کے کوئی ایسی خوف ناک واردات نہ ہو۔۔۔ کسی گھر میں کُہرام نہ مچے۔۔۔ کسی بچے کے سر سے دستِ شفقت نہ سِرکے۔۔۔ کسی ماں کا لخت جگر نہ چھِنے۔۔۔ کسی بیوی کا سرتاج اور کسی بہن کا مان کسی خوں ریزی کا نشانہ نہ بنے۔۔۔! لیکن افسوس، دہشت گرد ہر بار ایسی آشاؤں کو بارود کی بدبو میں اڑانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہر بار صف ماتم بچھ جاتی ہے۔۔۔ بس جگہیں بدل جاتی ہیں، ہدف بدل جاتے ہیں، لیکن دہشت گردی کا بے لگام آسیب ہمیشہ اپنا خراج وصول کر جاتا ہے۔

کل یہ قیامت شکار پور پر ٹوٹی۔۔۔ جب امام بارگاہ مولا علی میں نماز جمعہ کے اجتماع کے دوران بم پھٹ گیا۔۔۔ اور ان سطور کے رقم کیے جانے تک پچاس افراد لقمۂ اَجل بن چکے ہیں، جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ لگ بھگ اتنے ہی افراد زخمی بھی ہیں۔۔۔ کئی گھائل افراد کی حالت تشویش ناک ہے، جس کی بنا پر ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔۔۔ دھماکے کو خودکُش حملہ آور کی کارروائی بھی کہا جا رہا ہے، اور نصب شدہ بم کا نتیجہ بھی، تاہم اس کی نوعیت کے حوالے سے ابھی شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

اس دہشت ناک واقعے کے بعد آن کی آن میں پورا شہر سوگ میں ڈوب گیا۔۔۔ کاروبارِ زندگی معطل ہوگیا۔۔۔ اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی، خون کے عطیات دینے کی اپیلیں کی گئیں۔۔۔کتنوں کے پیارے اس آندھی نے نگل لیے اور کتنے یہ خبر سن کر اپنے پیاروں کی خیریت جننے کے لیے اسپتال دوڑے۔۔۔

اس دیس میں بارود بنانے والوں نے نہ جانے اِسے کتنے عقل کے اندھوں اور شعور سے عاری لوگوں کے جسموں سے باندھ رکھا ہے۔۔۔ جسے عرف عام میں خودکُش بم بار کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔ جانے ایسے کون سے عقائد وضع کرلیے گئے ہیں، جس میں اختلاف رکھنے والی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اختلاف کرنے کی سزا گردن زدنی سے کم نہیں۔۔۔ کتنے خون کے پیاسوں کے ہاتھ میں بندوقیں تھما دی گئی ہیں۔۔۔ اور انہیں ایسا کون سا سلیمانی ملبوس دیا ہے کہ وہ حکام کی نظروں سے چھپ کر آئے دن ایسی کریہہ وارداتیں کر گزرتے ہیں۔

''مستد ہے میرا فرمایا ہوا۔۔۔!'' اب کسی ریاست یا حاکم کا نہیں، بلکہ لوگوں کی جان کے درپے ان درندوں کا نعرہ معلوم ہونے لگا ہے، جو اپنی سطحی سوچ کے تحت درجنوں اور سیکڑوں جانوں کو نگل لینا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہم ''حالت جنگ میں ہیں۔۔۔!'' مگر یہ کیسی جنگ ہے، کہ جس میں اسکول سے اسپتال اور بازاروں سے عبادت گاہوں تک کو امان نہیں۔۔۔ بڑی سے بڑی خونیں جنگ میں بھی برسر پیکار اہلکاروں سے جنگ کی جاتی ہے، بیماروں، خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو مکمل امان دی جاتی ہے۔۔۔

کسی بھی عقیدے اور مذہب کی عبادت گاہ، اسپتال، گھروں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔۔۔ مگر اس نگر میں انسانیت کے روپ میں نہ جانے کون سے آسیب کے مارے آ نکلے ہیں، جن کے قانون میں سب جائز ہے۔۔۔ کسی کو اگلے جہاں میں جنت کی خبر ملتی ہے، تو شاید کوئی غم کا مارا مبینہ طور پر ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی خودکُشی کو اپنے پیچھے رہنے والوں کے لیے ''کارآمد'' بناتا ہوگا۔۔۔ اپنی موت کو یوں فروخت کرنے والا بھی کیسی سوچ کا ہوتا ہوگا، کہ اپنے بھوکے بچوں، بیمار ماں باپ اور بے آسرا بہن بھائیوں کی خاطر بھول جاتا ہے کہ وہ اپنی موت کو کتنے ہی دوسری زندگیوں کے چراغ گُل کرنے کا سبب بنا رہا ہے۔

اپنے تئیں گھر والوں کو سہارا دینے کی غرض میں وہ کتنے ہی گھروں کو بے آسرا کر رہا ہے۔ آخر عدم برداشت کی یہ روش ہمیں کب تک لسانیت، فرقہ واریت اور سیاسی تعصب کی بھینٹ چڑھاتی رہے گی۔۔۔ کب تک قاتل محض اپنے جیسا نہ ہونے کی پاداش میں لوگوں کی جانوں کے درپے رہیں گے۔۔۔؟ کب تک لوگ بے حسی کی چادر تلے بے سدھ پڑے رہیں گے۔۔۔؟ دہشت گردوں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والوں سے کب تک صرف نظر کریں گے۔۔۔؟ کب تک ہم کسی انسان کی موت کو انسانیت کا خون نہ سمجھیں گے؟



کب تک ہم بے گناہ کو اس کے رنگ نسل، عقیدے اور مذہب کے خانے میں بانٹ کر دیکھا کریں گے۔۔۔؟ ہمارے ذہن شعور اور آگہی کی روشنیوں سے کب منور ہوں گے۔۔۔؟ شاید ہمارے مائی باپ اسی واسطے ہمیں تعلیم سے دور رکھتے ہیں، تاکہ خلق خدا یوں ہی الجھتی رہے، عرصہ دراز سے لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے، پولیس اور رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے مختلف ادارے ملک بھر میں دہشت گردوں کا جال توڑنے میں سرگرداں ہیں۔۔۔ بڑی بڑی دہشت گردیاں ناکام بنانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن پھر بھی زندگیاں بجھانے والے کوئی کارروائی کر گزرتے ہیں۔

ملک بھر کے عوام براہ راست دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ اب اندرون سندھ بھی فرقہ واریت اپنے شکنجے کستے نظر آ رہی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہر پہلے ہی اس کی زَد میں ہیں۔ شکار پور جیسے شہر میں وحشیانہ کارروائی اس امر کی غماز ہے کہ دہشت گردوں نے اب باقاعدہ سندھ کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ فرقہ واریت کے زیراثر مخالف مسلک کے لوگوں کی جان لے لینا معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام آنکھیں کھولیں۔۔۔ اپنے خیالات کو وسعت دیں اور اپنے اتحاد اور یک جہتی سے لسانی اور فرقہ وارانہ سمیت ہر قسم کی تفریق اور عدم اتفاق کو ناکام بنا دیں۔

اختلاف کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔۔۔ یاد رکھیں کہ کوئی مذہب احترام انسانیت کے خلاف تعلیمات نہیں دیتا۔۔۔ شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں ایک دوسرے سے مکالمہ کریں اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ شکار پور کی حاصل شدہ معلومات کے مطابق علاقے میں مساجد اور امام بارگاہیں ہی نہیں، بل کہ مندر بھی قائم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقہ بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کا حامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے اس ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، اب یہ عوام کے لیے امتحان ہے کہ وہ ایسی کوششوں کو ناکام بنائیں، دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی قیام امن کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہوگا، تاکہ سانحہ شکار پور کے ذمہ داران کیفر کردار تک پہنچ سکیں۔


سانحۂ شکارپور اور اس کے بعد کی صورت حال

شکارپور کی مرکزی امام بارگاہ جامع مسجد لکھیدر تھانے کی حدود اور شہر کے مرکز میں واقع ہے، جہاں لوگوں کا آنا جانا اور رش رہتا ہے۔ نماز جمعہ کے دوران یہاں خوف ناک دھماکا ہوا، جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ بعد ازاں چیخ و پکار اور بھگدڑ مچ گئی، ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں، زخمی خون میں لت پت کراہ رہے اور آہ وبکا کر رہے تھے۔ فوری طور پر رینجرز اور پولیس نے جائے وقوعہ کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ضلع انتظامیہ نے ضلع شکارپور کے اسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ کردی، پولیس موبائل، ایمبولنس اور پرائیویٹ گاڑیوں میں شہید ہونے والوں اور زخمیوں کو سول اسپتال پہنچایا گیا، فوری طور پر شہر بند ہوگیا، شہریوں نے اسپتالوں کی جانب رخ کرلیا، جس کے باعث ڈاکٹروں کو بھی کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

دھماکے میں 50 سے زاید نمازی شہید ہوئے، ان میں 5 بچے بھی شامل ہیں، شہید اور زخمی ہونے والوں کے ورثا اسپتالوں میں دھاڑیں مارمار کر روتے رہے۔ شکارپور اسپتال میں ڈاکٹرز اور سرجنز کی کمی باعث ایمرجینسی کی اس صورت حال میں پوری شدت سے محسوس کی گئی۔ پنوعاقل چھاؤنی جی او سی کی جانب سے چار ایمبولنس اور ڈاکٹر پہنچ گئے، لاڑکانہ سے سرجن کو بلایا گیا، جب کہ زخمیوں کو خون دینے والوں کی تو قطاریں لگ گئیں لیکن لیب میں ٹیکنیشنز کی کمی کے باعث خون لینے اور بلڈگروپ چیک کرنے والے کم پڑگئے۔

دھماکے باعث آگ لگنے کی وجہ سے بہت سے مریض جھلس گئے، جنھیں شکارپور میں برن وارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ علماء کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایئر ایمبولنس کا بندوبست کیا جائے تاکہ زخمیوں کی جان بچانے کے لیے انہیں فوری طور پر کراچی بھیجا جائے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج خان درانی نے ایئر ایمبولنس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام زخمیوں کو طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی، اس مشکل گھڑی میں ان کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا، دہشت گردی کے اس واقعے کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں، شکارپور کی تاریخ میں اتنا بڑا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا۔

رکن سندھ اسمبلی امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ سول اسپتال شکارپور میں سہولیات کا فقدان ہونے کے باعث شدید زخمیوں کو لاڑکانہ اور سکھر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہریار خان مہر، مسلم لیگ ف کے ضلعی صدر سید نادر شاہ اطلاع ملتے ہی سول اسپتال پہنچ گئے اور تمام امور کا جائزہ لیتے رہے ، زخمیوں کی منتقلی کے ہدایات دیتے رہے، اپوزیشن لیڈر شہریار خان مہر نے امام بارگاہ سانحہ کی سخت لفظوں میں مذمت کی۔



رواداری کی سرزمین پر منافرت کے واقعات

ماضی میں پیرس کے نام سے اور مذہبی رواداری کے لیے مشہور شکارپور ضلع میں گذشتہ ایک دہائی سے مذہبی شدت پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اندرون سندھ اور شکارپور کی تاریخ میں پہلا خودکش حملہ خانپور تحصیل کے گاؤں شبیر آباد میں ہوا جوکہ سابق ایم این اے ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی کا آبائی گاؤں ہے۔ 17 دسمبر 2010، دس محرم الحرام کو شبیرا ٓباد میں مجلس عزا کی مجلس جاری تھی کہ ایک خودکش حملہ آور نے مجلس میں گھسنے کی کوشش کی۔

جتوئی برادری کے گارڈز نے خودکش حملہ آور کو روکا تو اس نے فرار ہونے کی کوشش جس پر گارڈوز نے فائرنگ کردی، جس سے خودکش حملہ آور زخمی ہو کر گرگیا اور اس نے خود کو بم سے اڑا لیا ، جس کے نتیجے میں ایس ایچ او حنیف کھوسو سمیت پانچ پولیس اہل کار زخمی ہوگئے تھے، جب کہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں سابق ایم این اے ابراہیم جتوئی اور جتوئی خاندان محفوظ رہا۔ شکارپور ضلع میں دہشت گردی کی دوسری بڑی کارروائی لکھی غلام شاہ تحصیل میں واقع بالائی سندھ کے مشہور درگاہ غلام شاہ غازی المعروف ماڑی شریف میں ہوئی۔

25 فروری 2013کودرگاہ کے گدی نشین سید حاجن شاہ بخاری درگاہ کے احاطے میں مریدوں کے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دھماکا ہوا اور گدی نشین سمیت 23افراد زخمی ہوگئے، جب کہ تین افراد جاں بحق ہوگئے۔ بعدازاں دس روزدرگاہ کے گدی نشین سید حاجن شاہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کراچی کے نجی اسپتال میںفوت ہوگئے، شکارپور ضلع میں دہشت گردی کا تیسرا واقعہ الیکشن 2013 سے کچھ دن پہلے ہوا، یکم مئی 2013کو این پی پی کے امیدوار ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی اپنے گاؤں شبیرآباد سے الیکشن ورک کے سلسلے میں شکارپور جارہے تھے کہ شکارپور ٹول پلازہ پر پہلے سے کھڑے ہوئے ایک خودکش بم بار نے گاڑی سے ٹکرا کر خود کو اڑا لیا۔

خود کش حملے میں سابق ایم این اے بلٹ پروف گاڑی ہونے کی وجہ محفوظ رہے، جب کہ واقعے میں دو افراد زخمی ہوگئے۔ بالائی سند ھ میں دہشت گردی کا چوتھا واقعہ ضلع جیکب آباد کے آباد تھانے کی حدود کوریجا شاخ کے قریب ہوا۔ 21 فروری 2013کو درگاہ قمبر شریف کے گدی نشین اور مشہور بزرگ شخصیت پیر سید غلام حسین شاہ بخاری ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے جیکب آباد جارہے تھے کہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکا کیا گیا، جس میں سید غلام حسین شاہ ، سمیت دس افراد زخمی ہوگئے، جب کہ ان کا پوتا سید شفیق شاہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

خوف کے سائے، حفاظتی اقدامات

شکارپور کے علاقے لکھی در کی امام بارگاہ کربلا معلی جامع مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ضلع سکھر میں پولیس کو ریڈ الرٹ کردیا گیا، تمام اسپتالوں، مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر حساس مقامات پر پولیس نفری تعینات کرکے گشت میں اضافہ کردیا گیا۔

اس سلسلے میں رابطے پر سنیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سکھر تنویر تنیو نے بتایا کہ شکارپور کے علاقے لکھی در کی امام بارگاہ کربلا معلی جامع مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ہم نے فوری طور پر یہاں سے 10 سے زاید ایمبولنسز شکارپور روانہ کیں۔ ہماری اولین ترجیح سانحے کے زخمیوں کو اسپتال پہنچانا تھی تاکہ ان کی زندگیاں بچائی جاسکیں، جب کہ میں نے ضلع سکھر میں پولیس کو ریڈ الرٹ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

اسپتالوں، امام بارگاہوں، مساجد کی حفاظت کے لیے فوری طور پر پولیس اہل کار تعینات کردیے گئے ہیں، جب کہ حساس مقامات بس اسٹینڈز، ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ کی حفاظت کے لیے بھی موثر اقدامات کیے گئے ہیں اور شہر میں پولیس گشت میں اضافے سمیت مختلف مقامات پر پولیس کی چیک پوسٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ ون فائیو مددگار پولیس کی 10 سے زائد موٹرسائیکلیں بھی 24 گھنٹے شہر کے گشت پر معمول کردی گئی ہیں۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی ناکابندی کردی گئی ہے، آنے اور جانے والی گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبرز کا اندراج کیا جارہا ہے۔
Load Next Story