ایک ماہ میں 2 ہزار قتل‘ 25 ہزار گھر نذرآتش‘ ایک لاکھ افرادبے گھر
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بد ترین خونی لہر
دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت روہنگیامسلمان ایک بارپھر سخت ابتلا سے گزررہے ہیں۔ تین جون کو شروع ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں اب تک کم ازکم2000 روہنگیا شہیدہوچکے ہیں( روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن کے مطابق 10 ہزار) جبکہ زخمیوںکی تعداد سیکڑوں اوربے گھر ہونے والے ہزاروں میں ہے۔ بنگلہ دیش سے ملحق برمی ریاست اراکان میں فسادات اس وقت شروع ہوئے جب بودھ پیروکاروں کے ایک ہجوم نے ایک بس پر حملہ کرکے اس میں سوار دس روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کردیاتھا۔
عینی شاہدین کے مطابق بس پر حملہ کرنے والوں کی تعداد تین سو سے زائد تھی جو مبینہ طورپر ایک خاتون کے ریپ اورقتل کے واقعے پر مشتعل تھے۔ وہ اس واقعہ کی ذمے داری مسلمانوں پر عائد کررہے تھے۔ مقامی حکام نے تین مسلمان نوجوانوں کو گرفتارکرلیا۔کیا اس واقعے کے ذمے دار مسلمان ہی ہیں؟کیاگرفتار ہونے والے نوجوان ہی اس واقعے کے اصل مجرم ہیں؟ ابھی یہ سب کچھ ثابت ہونا باقی تھا لیکن اس کے باوجود بودھوں نے مقتولہ خاتون کی تصاویراوراشتعال انگیز تحریر پر مشتمل پمفلٹس شائع کرکے پورے علاقے میں تقسیم کئے۔ جس کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ پھیلتی چلی گئی ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق قریباً 90ہزارافراد گھرچھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ اعدادوشمار برما کی حکومت کے بیان کردہ اعدوشمار سے تین گنا زیادہ ہیں۔ تاہم روہنگیاذرائع کہتے ہیں کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔
فسادات کے بعد صدرتھین سین نے اراکان کی ریاست میں ہنگامی صورت حال نافذ کرکے وہاںامن وامان برقراررکھنے کیلئے فوجی دستے بھیج دئیے۔ حالات اس قدرخراب ہوئے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے فوری طورپر اپنے نمائندہ خصوصی برائے برما مسٹر وجے نمبیر کو علاقے کی طرف روانہ کردیا جبکہ آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او آئی سی ) نے نوبل انعام یافتہ جمہوریت کی دیوی آنگ سان سوچی سے اپیل کی ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کاسلسلہ بند کرانے میں اپنا کرداراداکریں۔ تنظیم کے سربراہ اکمل الدین احسان اوغلو نے مسز سوچی سے کہاہے کہ وہ اپنی حکومت کو حالیہ فسادات کی بین الاقوامی ادارے سے تفتیش کرانے پر قائل کریں۔ انھوں نے اراکان ریاست تک انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں اورعالمی میڈیا کی رسائی کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا۔
برما میں 140سے زائد نسلی گروہ آباد ہیں جن میں سے ایک روہنگیا بھی ہیں۔ ملک میںمسلمان کی تعداد 35لاکھ ہے جو کل ملکی آبادی کا 5فیصد ہیں۔ روہنگیامسلمان سب سے بڑا گروپ ہیں جو آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ''روہنگیا'' کی اصطلاح کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ اول:یہ عربی لفظ '' رحم '' سے نکلاہے۔ پرانے وقتوں میں عرب تاجروںکا ایک بحری جہاز برما کی موجودہ ریاست اراکان کے قریبی ساحل پر ٹوٹ گیاتھا۔ اس وقت یہاں کی ریاست کے بادشاہ نے ان عرب تاجروں کو گرفتارکرکے قتل کرنے کا حکم دیاتھا۔ سزاسنتے ہی انھوں نے ''رحم''، ''رحم'' پکارناشروع کردیا۔ بعدازاں ان باشندوں کی کمیونٹی کوبھی رحم کے نام سے موسوم کیاجانے لگا۔آنے والے وقت میں یہ لفظ مزید صورتیں تبدیل کرتے ہوئے روحانگ اورپھر روہنگیا بن گیا۔ دوسری روایت ہے کہ یہاں کے باشندے افغانستان کے علاقے روہا سے آئے تھے۔ تیسری روایت ہے کہ اراکان پہلے وقتوں میں مروہانگ کانام کی ایک بادشاہت تھی۔
روہنگیائوں کی اس علاقے میں آمدکے آثار ساتویں صدی عیسوی سے ملتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم (1939-1945ء)سے پہلے وہ یہاں شاندارزندگی بسرکررہے تھے تاہم اس کے بعد ان کیلئے حالات خراب ہوناشروع ہوئے۔ دوسری عظیم جنگ کے دوران روہنگیائوں نے جاپانی افواج کے بجائے اتحادی افواج کی حمایت کی۔ جب یہاں جاپانیوں نے قبضہ کیاتو پہلے راکھین اور کارینی نسل کے باشندوں اورپھر جاپانی افواج نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طورپر ایک لاکھ روہنگیا قتل کردئیے گئے۔
1962ء میں فوج کے برسراقتدارآنے سے پہلے تک روہنگیا مسلمانوں کو ملکی معاملات میں مکمل حصہ مل رہاتھا۔ پارلیمان میں انھیں نمائندگی حاصل تھی، کابینہ کے وزیراورپارلیمانی سیکریٹریز بھی تھے۔ دیگراعلیٰ حکومتی مناصب پر بھی موجود تھے۔ تاہم فوجی حکومت روہنگیامسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بتدریج حقوق سے محروم کرتی چلی گئی حتیٰ کہ انھیں 1982ء کے شہری قوانین کے مطابق ملکی شہریت سے محروم کردیاگیا۔ اب حکومت اوربودھ اکثریت ، انھیںبنگالی قراردیتے ہیں۔ انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے بھی پہلے حکام کو مطلع کرناپڑتاہے۔ شادی کیلئے بھی حکومت سے اجازت نامہ لیناپڑتاہے جس کے حصول میںدوسال یااس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتاہے۔ انھیں دوسے زائد بچے پیداکرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کے اسلامی نام رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ بودھ نام رکھنے پر مجبورکیاجاتاہے۔ مسلمانوں کیلئے دعامانگنابھی جرم قراردیدیاگیاہے۔اگرکوئی دعامانگتاہوا پکڑاجائے تو اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔ روہنگیامسلمانوں کاکہناہے کہ فوجی حکام انھیں بودھ مذہب اختیارکرنے پر مجبورکرتے ہیں۔ اسلامی طرزرہن سہن کو ''غیرملکی تہذیب وتمدن'' قراردیاجاتاہے۔
مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی سماجی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تعلیم کے دروازے ان پر بند ہیں چنانچہ وہ روہنگیائوں کے اپنے قائم کردہ روایتی تعلیم دینے والے اداروں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ یہ ادارے بھی انتہائی خراب حالت میں ہیں کیونکہ انھیں کسی قسم کے فنڈزمیسرنہیں۔ کوئی روہنگیاکاروبار حتیٰ کہ وہ گھروں میں مرغیاں، بکریاں اورگائیں پالنے کاسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ایساکرنے سے اسے اس قدربھاری بھرکم ٹیکس دینے پڑتے ہیں کہ وہ اس سوچ سے ہی توبہ کرلیتاہے۔ کاروبار کرنے کی ایک شرط پر اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بودھ کو اپنا بزنس پارٹنر بنائے۔ اس پارٹنر شپ کیلئے ضروری نہیں ہے کہ بودھ پارٹنر سرمایہ کاری بھی کرے۔ تاہم اسے منافع میں سے بڑاحصہ دینا لازم ہے۔
اس ظلم وستم سے تنگ آنے والے بنگلہ دیش سمیت دنیا کے مختلف حصوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت برما میں مجموعی طورپر 20لاکھ، بنگلہ دیش میں 6لاکھ، سعودی عرب میں 4لاکھ، پاکستان میں ساڑھے تین لاکھ جبکہ متحدہ عرب امارات، تھائی لینڈ اورملائشیا میں ایک لاکھ کے قریب ہیں۔ برمی اوربنگلہ دیشی حکام کے مظالم سے تنگ آنے والے لکڑی کی کشتیوں پر سوارہوکرملائشیا کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ برما اورپھرتھائی لینڈ کے اہلکاروں کی نظروں سے بچ جائیں۔ پکڑے جانے والوں کے ساتھ تھائی اہلکارنہایت وحشت اوردرندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پکڑے جانے والوںکوتھائی ساحلوں پر بھوکا ، پیاسا رکھا اوربدترین تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ بعض کو گولیوں سے چھلنی بھی کردیاجاتاہے جبکہ باقیوںکی ہڈیاں توڑ کے ، ان کی کشتیوں کے انجن نکال کر انھیں کھلے سمندرمیں دھکیل دیاجاتاہے۔ جہاں روہنگیا مہاجر جن میں خواتین اوربچوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، بھوک اور پیاس سے تڑپتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے مہاجرگروہوں کی امدادکو کسی دوسرے ملک کی بحریہ پہنچتی ہے۔ مثلاً فروری 2009ء میں ایسے ہی 190افراد کو انڈونیشیاکی بحریہ نے بچایا جو 21دن تک کھلے سمندر میں رہے۔ فروری 2009ء کے ایک مہینے میں ایسی 5 کشتیاں تھائی حکام کے ہتھے چڑھیں، ان میں سے صرف ایک کو بچایاجاسکا جبکہ باقی 4سمندری طوفان کی نذرہوگئیں۔ اس وقت کے تھائی وزیراعظم ابھیشک وجاجیوا نے بھی ایسے کچھ واقعات کااعتراف بھی کیاتاہم انھوں نے کمال جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ معلوم نہیں کہ یہ کام کون کرتاہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیاجارہاہے۔ 2005ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فارریفیوجیز(یواین ایچ سی آر) نے روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش سے وطن واپس منتقلی میں معاونت کی کوشش کی تاہم برمی حکومت کی طرف سے رکاوٹیں ڈالیں جس کی وجہ سے یہ عمل جاری نہ رہ سکا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے علاوہ بھی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ بنگلہ دیش میں بھی روہنگیا مہاجرین کو بے پناہ مسائل کاسامنا ہے۔ جبکہ یہاںمزید مہاجرین کو قبول کرنے سے انکارکیاجارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان پناہ گزینوں کی آمد سے ان کا ملک جو پہلے ہی آبادی کی کثرت اور وسائل کی قلت کا شکار ہے، مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
اگرچہ تادم تحریر ارکان میں روہنگیائوں کی لاشیں گرانے کا سلسلہ کچھ تھما ہے لیکن برمی حکومت امدادی اداروں اورعالمی میڈیا کے نمائندوں کو علاقے کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ بعض روہنگیائوں کوامید نہیں کہ گرفتاریوں، تشدد، قتل اور دوران حراست قتل کئے جانے کا سلسلہ ختم ہو۔ اسی طرح مختلف اندازمیں روہنگیائوں کا نسلی صفایا جاری رہے گا۔ یادرہے کہ مسلمان لڑکیوں اورخواتین کی بے حرمتی معمول بن چکی ہے۔ انھیں بودھوں سے شادی پر مجبورکیاجاتاہے۔
مظالم اورفسادات کے نتیجے میں مسلمان جن بستیوں سے ہجرت کرجاتے ہیں، وہاں بودھ قابض ہوجاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں مساجد اوردینی مدارس کی عمارات کو شہید کردیتے ہیں اوروہاں پگوڈا (بودھ عبادت گاہیں) بنادیتے ہیں۔مسلمان علاقوں کو بودھ علاقوں میں تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں روہنگیائوں کیلئے 1962ء سے پہلے جیسے دورکی واپسی خواب بن کے رہ گئی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق بس پر حملہ کرنے والوں کی تعداد تین سو سے زائد تھی جو مبینہ طورپر ایک خاتون کے ریپ اورقتل کے واقعے پر مشتعل تھے۔ وہ اس واقعہ کی ذمے داری مسلمانوں پر عائد کررہے تھے۔ مقامی حکام نے تین مسلمان نوجوانوں کو گرفتارکرلیا۔کیا اس واقعے کے ذمے دار مسلمان ہی ہیں؟کیاگرفتار ہونے والے نوجوان ہی اس واقعے کے اصل مجرم ہیں؟ ابھی یہ سب کچھ ثابت ہونا باقی تھا لیکن اس کے باوجود بودھوں نے مقتولہ خاتون کی تصاویراوراشتعال انگیز تحریر پر مشتمل پمفلٹس شائع کرکے پورے علاقے میں تقسیم کئے۔ جس کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ پھیلتی چلی گئی ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق قریباً 90ہزارافراد گھرچھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ اعدادوشمار برما کی حکومت کے بیان کردہ اعدوشمار سے تین گنا زیادہ ہیں۔ تاہم روہنگیاذرائع کہتے ہیں کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔
فسادات کے بعد صدرتھین سین نے اراکان کی ریاست میں ہنگامی صورت حال نافذ کرکے وہاںامن وامان برقراررکھنے کیلئے فوجی دستے بھیج دئیے۔ حالات اس قدرخراب ہوئے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے فوری طورپر اپنے نمائندہ خصوصی برائے برما مسٹر وجے نمبیر کو علاقے کی طرف روانہ کردیا جبکہ آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او آئی سی ) نے نوبل انعام یافتہ جمہوریت کی دیوی آنگ سان سوچی سے اپیل کی ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کاسلسلہ بند کرانے میں اپنا کرداراداکریں۔ تنظیم کے سربراہ اکمل الدین احسان اوغلو نے مسز سوچی سے کہاہے کہ وہ اپنی حکومت کو حالیہ فسادات کی بین الاقوامی ادارے سے تفتیش کرانے پر قائل کریں۔ انھوں نے اراکان ریاست تک انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں اورعالمی میڈیا کی رسائی کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا۔
برما میں 140سے زائد نسلی گروہ آباد ہیں جن میں سے ایک روہنگیا بھی ہیں۔ ملک میںمسلمان کی تعداد 35لاکھ ہے جو کل ملکی آبادی کا 5فیصد ہیں۔ روہنگیامسلمان سب سے بڑا گروپ ہیں جو آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ''روہنگیا'' کی اصطلاح کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ اول:یہ عربی لفظ '' رحم '' سے نکلاہے۔ پرانے وقتوں میں عرب تاجروںکا ایک بحری جہاز برما کی موجودہ ریاست اراکان کے قریبی ساحل پر ٹوٹ گیاتھا۔ اس وقت یہاں کی ریاست کے بادشاہ نے ان عرب تاجروں کو گرفتارکرکے قتل کرنے کا حکم دیاتھا۔ سزاسنتے ہی انھوں نے ''رحم''، ''رحم'' پکارناشروع کردیا۔ بعدازاں ان باشندوں کی کمیونٹی کوبھی رحم کے نام سے موسوم کیاجانے لگا۔آنے والے وقت میں یہ لفظ مزید صورتیں تبدیل کرتے ہوئے روحانگ اورپھر روہنگیا بن گیا۔ دوسری روایت ہے کہ یہاں کے باشندے افغانستان کے علاقے روہا سے آئے تھے۔ تیسری روایت ہے کہ اراکان پہلے وقتوں میں مروہانگ کانام کی ایک بادشاہت تھی۔
روہنگیائوں کی اس علاقے میں آمدکے آثار ساتویں صدی عیسوی سے ملتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم (1939-1945ء)سے پہلے وہ یہاں شاندارزندگی بسرکررہے تھے تاہم اس کے بعد ان کیلئے حالات خراب ہوناشروع ہوئے۔ دوسری عظیم جنگ کے دوران روہنگیائوں نے جاپانی افواج کے بجائے اتحادی افواج کی حمایت کی۔ جب یہاں جاپانیوں نے قبضہ کیاتو پہلے راکھین اور کارینی نسل کے باشندوں اورپھر جاپانی افواج نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طورپر ایک لاکھ روہنگیا قتل کردئیے گئے۔
1962ء میں فوج کے برسراقتدارآنے سے پہلے تک روہنگیا مسلمانوں کو ملکی معاملات میں مکمل حصہ مل رہاتھا۔ پارلیمان میں انھیں نمائندگی حاصل تھی، کابینہ کے وزیراورپارلیمانی سیکریٹریز بھی تھے۔ دیگراعلیٰ حکومتی مناصب پر بھی موجود تھے۔ تاہم فوجی حکومت روہنگیامسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بتدریج حقوق سے محروم کرتی چلی گئی حتیٰ کہ انھیں 1982ء کے شہری قوانین کے مطابق ملکی شہریت سے محروم کردیاگیا۔ اب حکومت اوربودھ اکثریت ، انھیںبنگالی قراردیتے ہیں۔ انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے بھی پہلے حکام کو مطلع کرناپڑتاہے۔ شادی کیلئے بھی حکومت سے اجازت نامہ لیناپڑتاہے جس کے حصول میںدوسال یااس سے بھی زیادہ عرصہ لگ جاتاہے۔ انھیں دوسے زائد بچے پیداکرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کے اسلامی نام رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ بودھ نام رکھنے پر مجبورکیاجاتاہے۔ مسلمانوں کیلئے دعامانگنابھی جرم قراردیدیاگیاہے۔اگرکوئی دعامانگتاہوا پکڑاجائے تو اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔ روہنگیامسلمانوں کاکہناہے کہ فوجی حکام انھیں بودھ مذہب اختیارکرنے پر مجبورکرتے ہیں۔ اسلامی طرزرہن سہن کو ''غیرملکی تہذیب وتمدن'' قراردیاجاتاہے۔
مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی سماجی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تعلیم کے دروازے ان پر بند ہیں چنانچہ وہ روہنگیائوں کے اپنے قائم کردہ روایتی تعلیم دینے والے اداروں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ یہ ادارے بھی انتہائی خراب حالت میں ہیں کیونکہ انھیں کسی قسم کے فنڈزمیسرنہیں۔ کوئی روہنگیاکاروبار حتیٰ کہ وہ گھروں میں مرغیاں، بکریاں اورگائیں پالنے کاسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ایساکرنے سے اسے اس قدربھاری بھرکم ٹیکس دینے پڑتے ہیں کہ وہ اس سوچ سے ہی توبہ کرلیتاہے۔ کاروبار کرنے کی ایک شرط پر اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بودھ کو اپنا بزنس پارٹنر بنائے۔ اس پارٹنر شپ کیلئے ضروری نہیں ہے کہ بودھ پارٹنر سرمایہ کاری بھی کرے۔ تاہم اسے منافع میں سے بڑاحصہ دینا لازم ہے۔
اس ظلم وستم سے تنگ آنے والے بنگلہ دیش سمیت دنیا کے مختلف حصوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت برما میں مجموعی طورپر 20لاکھ، بنگلہ دیش میں 6لاکھ، سعودی عرب میں 4لاکھ، پاکستان میں ساڑھے تین لاکھ جبکہ متحدہ عرب امارات، تھائی لینڈ اورملائشیا میں ایک لاکھ کے قریب ہیں۔ برمی اوربنگلہ دیشی حکام کے مظالم سے تنگ آنے والے لکڑی کی کشتیوں پر سوارہوکرملائشیا کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ برما اورپھرتھائی لینڈ کے اہلکاروں کی نظروں سے بچ جائیں۔ پکڑے جانے والوں کے ساتھ تھائی اہلکارنہایت وحشت اوردرندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پکڑے جانے والوںکوتھائی ساحلوں پر بھوکا ، پیاسا رکھا اوربدترین تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ بعض کو گولیوں سے چھلنی بھی کردیاجاتاہے جبکہ باقیوںکی ہڈیاں توڑ کے ، ان کی کشتیوں کے انجن نکال کر انھیں کھلے سمندرمیں دھکیل دیاجاتاہے۔ جہاں روہنگیا مہاجر جن میں خواتین اوربچوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، بھوک اور پیاس سے تڑپتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے مہاجرگروہوں کی امدادکو کسی دوسرے ملک کی بحریہ پہنچتی ہے۔ مثلاً فروری 2009ء میں ایسے ہی 190افراد کو انڈونیشیاکی بحریہ نے بچایا جو 21دن تک کھلے سمندر میں رہے۔ فروری 2009ء کے ایک مہینے میں ایسی 5 کشتیاں تھائی حکام کے ہتھے چڑھیں، ان میں سے صرف ایک کو بچایاجاسکا جبکہ باقی 4سمندری طوفان کی نذرہوگئیں۔ اس وقت کے تھائی وزیراعظم ابھیشک وجاجیوا نے بھی ایسے کچھ واقعات کااعتراف بھی کیاتاہم انھوں نے کمال جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ معلوم نہیں کہ یہ کام کون کرتاہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیاجارہاہے۔ 2005ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فارریفیوجیز(یواین ایچ سی آر) نے روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش سے وطن واپس منتقلی میں معاونت کی کوشش کی تاہم برمی حکومت کی طرف سے رکاوٹیں ڈالیں جس کی وجہ سے یہ عمل جاری نہ رہ سکا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے علاوہ بھی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ بنگلہ دیش میں بھی روہنگیا مہاجرین کو بے پناہ مسائل کاسامنا ہے۔ جبکہ یہاںمزید مہاجرین کو قبول کرنے سے انکارکیاجارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان پناہ گزینوں کی آمد سے ان کا ملک جو پہلے ہی آبادی کی کثرت اور وسائل کی قلت کا شکار ہے، مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
اگرچہ تادم تحریر ارکان میں روہنگیائوں کی لاشیں گرانے کا سلسلہ کچھ تھما ہے لیکن برمی حکومت امدادی اداروں اورعالمی میڈیا کے نمائندوں کو علاقے کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ بعض روہنگیائوں کوامید نہیں کہ گرفتاریوں، تشدد، قتل اور دوران حراست قتل کئے جانے کا سلسلہ ختم ہو۔ اسی طرح مختلف اندازمیں روہنگیائوں کا نسلی صفایا جاری رہے گا۔ یادرہے کہ مسلمان لڑکیوں اورخواتین کی بے حرمتی معمول بن چکی ہے۔ انھیں بودھوں سے شادی پر مجبورکیاجاتاہے۔
مظالم اورفسادات کے نتیجے میں مسلمان جن بستیوں سے ہجرت کرجاتے ہیں، وہاں بودھ قابض ہوجاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں مساجد اوردینی مدارس کی عمارات کو شہید کردیتے ہیں اوروہاں پگوڈا (بودھ عبادت گاہیں) بنادیتے ہیں۔مسلمان علاقوں کو بودھ علاقوں میں تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں روہنگیائوں کیلئے 1962ء سے پہلے جیسے دورکی واپسی خواب بن کے رہ گئی ہے۔