تلخیاں
بیشک ہر انسان تجربات اور زندگی سے سیکھتا ہے مگر تعلیم عقل و فہم کے دروازے کھولتی ہے، سوچ اور آگہی کو شعور دیتی ہے۔
کبھی کبھی کچھ چیزیں اتنی تلخ ہوتی ہیں کہ انھیں سوچ کر بھی حلق تک تلخی بھر جاتی ہے۔ منہ کا ذائقہ کڑوا ہوجاتا ہے اور انسان زور سے آنکھیں بند کر کے اس تلخی کو کم کرنا چاہتا ہے یا اس کو بھول جانا چاہتا ہے۔کچھ اسی قسم کی تلخیوں کا موسم آج کل ہمارے وطن میں ہے اور یہ تلخیاں اتنی قسم کی ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کس کس پر آنکھیں میچ میچ کر آپ اور ہم بھلائیں۔ڈر یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ تلخیاں ہمارے ذائقے ہمیشہ کے لیے کڑوے نہ کردیں۔سوچیں کہ ہم کس کس پر آنسو بہائیں اورکس کس پر مسکرائیں۔میٹھی میٹھی مسکراہٹیں اور میٹھی باتیں کیا صرف خیالات تک ہی محدود رہ جائیں گی،کیا ہم خوابی دنیا کے خواب دیکھتے ہوئے ہی گزرجائیں گے۔
تلخیوں کا موسم اپنے عروج پر ہے اور جو سب سے بڑی تلخی ہے وہ ہے ایک تلخ کڑوا جملہ کہ ''یہ حکومت نااہل ہے'' نا اہل افراد مختلف سیٹوں پر براجمان ہیں دوستیاں، پارٹیاں، رشتے داریاں نبھائی جا رہی ہیں اورعوام کا بھرتا بنایا جارہا ہے، گیہوں اورگھن دونوں کو پیسا جا رہا ہے نااہلی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ادارے یا کرسی ان افراد کے حوالے کردی جائے جو اس ادارے یا کام کے بارے میں تجربہ ہی نہ رکھتے ہوں، جیسے کسی پہلوان کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنادیا جائے، یا کسی ٹیکسی ڈرائیور کو PIAسونپ دی جائے، یا کمپاؤنڈر کو آنکھ، ناک کا سرجن بنا دیا جائے۔ مرتا کیا نہ کرے گا جب عوام کو جاہل رکھا جائے اور سارے دروازے بند کیے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟
عمران خان اور ریحام خان کی شادی بھی کہیں کہیں تلخی پیدا کرنے کا سبب بنی، ورنہ بات تو خوشی کی تھی کہ چلو ویرانے میں بہار آجائے مگر ابھی تک بہت سے لوگ ماضی، حال اور مستقبل کی چھان بین میں لگے ہیں اور روز ہی کوئی نہ کوئی دور کی کوڑی لانے کی بات ہوتی ہے۔ اب تو سمجھ میں نہیں آتا کہ عوام کس کس پر روئے، کہاں کہاں مرے، کہاں کہاں جیے۔ حیرتناک خبر تھی یہ کہ پٹرول ختم ہوجائے اور مرد و عورتیں، بچے، مارے مارے پھریں پٹرول پمپ پر لائنیں، لوگ بوتلیں، گیلن لے کر دن و رات پٹرول کے لیے سرگرم پھرتے رہے ایک ہفتے تک یہ رونقیں لگی رہیں اور روزانہ شام کےTalk Showمیں نااہل اور کرسی براجمان اپنے آپ کو اہل ثابت کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرتے رہے کہ ان کو عہدوں پر بٹھانے والے ان سے بڑے نااہل ہیں۔ یکدم تقریباً پورے ملک سے بجلی غائب، یکدم اندھیرے خوف کا عالم، ایک دوسرے کو فون کرکے وجہ معلوم کی جاتی رہی 5,4 گھنٹے بعد بجلی بحال ہونا شروع ہوئی ابتری کا عالم دن بہ دن دو گنا ہوتا جا رہا ہے کہ نااہلی بھی دن بہ دن ترقی پر ہے وہ ناقدین جو حکمرانوں کے حق میں تھے کچھ تلخیاں ان میں بھی آئیں اور آہستہ آہستہ وہ بھی پھٹ پڑے کہ بس کرو بس!
بیشک ہر انسان تجربات اور زندگی سے سیکھتا ہے مگر تعلیم عقل و فہم کے دروازے کھولتی ہے، سوچ اور آگہی کو شعور دیتی ہے۔ بات کرنے کا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ سکھاتی ہے، شدید ضرورت ہے کہ تعلیم کو چپے چپے میں پھیلایا جائے، تمام سیاستوں کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم کا نفاذ، اولین ترجیح رکھا جائے۔عورت اور مرد دونوں کو علم و ہنر سکھائے جائیں اور خدا کے واسطے تعلیم پر سیاست کے دروازے بند کردیے جائیں کہ یہ تو اللہ عالی شان کی طرف سے تمام مرد اور عورت پر فرض ہے۔
2015 میں بھی اگر جہالت دور نہ ہو، اور گمراہی چھائی رہے تو پھر آگے کیا توقع رکھی جائے؟ کیسی بے ہنگم سی زندگی ہے جو بس چلے ہی جا رہی ہے کہ جیسے انسان نہ ہوئے سدھائے ہوئے جانوروں کا ریوڑ ہے کوئی کہ پیچھے ڈنڈا اٹھائے اور ہانکتا ہوا بندہ! بات ہے تو تلخ مگر ہے سچ کچھ اسی طرح کا ماحول ہمارے اردگرد ہے اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ہی دنیا بناکر بیٹھا ہوا ہے۔
اسلام آباد ہو یا کراچی یا لاہور مسائل کا انبار ہر جگہ ایک جیسا نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے ہم ویسے ویسے پیچھے جا رہے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا سے شاید فراڈ اور دھوکا بازی کی نئی نئی تراکیب ہی سیکھ رہے ہیں۔ آرمی چیف راحیل شریف ایک لمبی چوڑی حکومت ہونے کے باوجود ہر طرف چاق و چوبند نظر آتے ہیں، باہر کے سفارتی دورے ہوں یا پشاور کے بچوں کی شہادت پر ان کے والدین سے اظہار یکجہتی، قدم بہ قدم قوم کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ یہ بھی بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ کہا جاتا ہے کہ عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے ووٹ دیے ہیں جب کہ سارا معاملہ ہی انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے چلا آرہا ہے۔ عمران خان کے دھرنوں کے 126 دن اور چیخ چیخ کر روزانہ ایک ہی بات کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اس کا احتساب کیا جائے، یہ عوام کے منتخب نمایندے نہیں انھوں نے دھاندلی کے ذریعے انتخابات کے نتائج تبدیل کیے ہیں ۔
عوام کس پر روئے اور کس پر ہنسے اپنے ووٹ پر یا دھاندلی پر؟ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ کروڑوں افراد کا حق مارا جائے اور صرف سیکڑوں افراد اپنے محلوں میں ان ہی کروڑوں لوگوں کے خون چوسنے کا سبب بنیں۔
عوام ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ رہے ہیں اگر عوام فیصلہ کرلیں کہ ان کو کیا کرنا ہے تو بڑے بڑے محل پل بھر میں ریت کے کھنڈر بن جائیں۔ بڑے بڑے فرعون قبروں میں دفن ہوجائیں مگر یکجہتی اور سمجھ و بوجھ کے ساتھ کون ان کو لے کر چلے کہ ہر آدمی اپنی دکان چمکانا چاہتا ہے عمران خان میں تعلیم کے ساتھ سوجھ بوجھ ہے، ان کو اپنے سحر سے نکل کر عوام کے ساتھ بالکل ایسے ہی کھڑا ہونا چاہیے جیساکہ ایک عام آدمی کہ تاریخ خالی تقریروں سے نہیں بنتیں لیڈر وہی بنا ہے جس نے اپنی ہستی کو فنا کرکے عوام کو زندہ کیا، ایک ہی وقت میں دو کشتیوں میں سوار ہوکر دریا پار نہیں کیا جاسکتا۔
تعلیم یافتہ اور توانائی سے بھرا نوجوان عمران خان کے ساتھ ہے اب یہ ان کی عقل و فراست پہ ہے کہ وہ ان کو کس طرح پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے آگے لے کر آتے ہیں لیکن پھر وہی تلخ بات کہ عمران خان کو پہلے اپنے آپ کو رول ماڈل بنانا ہوگا اور اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو عمران خان 62 سال کے ہوگئے ہیں اور ایک بھرپور زندگی اپنی جوانی کے دور کی گزار چکے ہیں اب اگر وہ اپنی باقی توانائیاں، نیک نیتی کے ساتھ عوام کے لیے صرف کریں گے تو ان کو لیڈر بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
نواز شریف، تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ رہ گئی عوام تو وہ بے چاری تعلیم سے خالی خالی، سوچ و بوجھ اور شعور پر بنیادی ضرورت کا بوجھ۔ آج یہ نہیں تو کل یہ نہیں۔ دو وقت کا کھانا اور سر پر چھت۔ یہی ہے تلخ حقیقت کہ انتظار ہے اس مسیحا کا جو بہادری اور ایثار کی مثال بنے۔
تلخیوں کا موسم اپنے عروج پر ہے اور جو سب سے بڑی تلخی ہے وہ ہے ایک تلخ کڑوا جملہ کہ ''یہ حکومت نااہل ہے'' نا اہل افراد مختلف سیٹوں پر براجمان ہیں دوستیاں، پارٹیاں، رشتے داریاں نبھائی جا رہی ہیں اورعوام کا بھرتا بنایا جارہا ہے، گیہوں اورگھن دونوں کو پیسا جا رہا ہے نااہلی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ادارے یا کرسی ان افراد کے حوالے کردی جائے جو اس ادارے یا کام کے بارے میں تجربہ ہی نہ رکھتے ہوں، جیسے کسی پہلوان کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنادیا جائے، یا کسی ٹیکسی ڈرائیور کو PIAسونپ دی جائے، یا کمپاؤنڈر کو آنکھ، ناک کا سرجن بنا دیا جائے۔ مرتا کیا نہ کرے گا جب عوام کو جاہل رکھا جائے اور سارے دروازے بند کیے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟
عمران خان اور ریحام خان کی شادی بھی کہیں کہیں تلخی پیدا کرنے کا سبب بنی، ورنہ بات تو خوشی کی تھی کہ چلو ویرانے میں بہار آجائے مگر ابھی تک بہت سے لوگ ماضی، حال اور مستقبل کی چھان بین میں لگے ہیں اور روز ہی کوئی نہ کوئی دور کی کوڑی لانے کی بات ہوتی ہے۔ اب تو سمجھ میں نہیں آتا کہ عوام کس کس پر روئے، کہاں کہاں مرے، کہاں کہاں جیے۔ حیرتناک خبر تھی یہ کہ پٹرول ختم ہوجائے اور مرد و عورتیں، بچے، مارے مارے پھریں پٹرول پمپ پر لائنیں، لوگ بوتلیں، گیلن لے کر دن و رات پٹرول کے لیے سرگرم پھرتے رہے ایک ہفتے تک یہ رونقیں لگی رہیں اور روزانہ شام کےTalk Showمیں نااہل اور کرسی براجمان اپنے آپ کو اہل ثابت کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرتے رہے کہ ان کو عہدوں پر بٹھانے والے ان سے بڑے نااہل ہیں۔ یکدم تقریباً پورے ملک سے بجلی غائب، یکدم اندھیرے خوف کا عالم، ایک دوسرے کو فون کرکے وجہ معلوم کی جاتی رہی 5,4 گھنٹے بعد بجلی بحال ہونا شروع ہوئی ابتری کا عالم دن بہ دن دو گنا ہوتا جا رہا ہے کہ نااہلی بھی دن بہ دن ترقی پر ہے وہ ناقدین جو حکمرانوں کے حق میں تھے کچھ تلخیاں ان میں بھی آئیں اور آہستہ آہستہ وہ بھی پھٹ پڑے کہ بس کرو بس!
بیشک ہر انسان تجربات اور زندگی سے سیکھتا ہے مگر تعلیم عقل و فہم کے دروازے کھولتی ہے، سوچ اور آگہی کو شعور دیتی ہے۔ بات کرنے کا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ سکھاتی ہے، شدید ضرورت ہے کہ تعلیم کو چپے چپے میں پھیلایا جائے، تمام سیاستوں کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم کا نفاذ، اولین ترجیح رکھا جائے۔عورت اور مرد دونوں کو علم و ہنر سکھائے جائیں اور خدا کے واسطے تعلیم پر سیاست کے دروازے بند کردیے جائیں کہ یہ تو اللہ عالی شان کی طرف سے تمام مرد اور عورت پر فرض ہے۔
2015 میں بھی اگر جہالت دور نہ ہو، اور گمراہی چھائی رہے تو پھر آگے کیا توقع رکھی جائے؟ کیسی بے ہنگم سی زندگی ہے جو بس چلے ہی جا رہی ہے کہ جیسے انسان نہ ہوئے سدھائے ہوئے جانوروں کا ریوڑ ہے کوئی کہ پیچھے ڈنڈا اٹھائے اور ہانکتا ہوا بندہ! بات ہے تو تلخ مگر ہے سچ کچھ اسی طرح کا ماحول ہمارے اردگرد ہے اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ہی دنیا بناکر بیٹھا ہوا ہے۔
اسلام آباد ہو یا کراچی یا لاہور مسائل کا انبار ہر جگہ ایک جیسا نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے ہم ویسے ویسے پیچھے جا رہے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا سے شاید فراڈ اور دھوکا بازی کی نئی نئی تراکیب ہی سیکھ رہے ہیں۔ آرمی چیف راحیل شریف ایک لمبی چوڑی حکومت ہونے کے باوجود ہر طرف چاق و چوبند نظر آتے ہیں، باہر کے سفارتی دورے ہوں یا پشاور کے بچوں کی شہادت پر ان کے والدین سے اظہار یکجہتی، قدم بہ قدم قوم کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ یہ بھی بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ کہا جاتا ہے کہ عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے ووٹ دیے ہیں جب کہ سارا معاملہ ہی انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے چلا آرہا ہے۔ عمران خان کے دھرنوں کے 126 دن اور چیخ چیخ کر روزانہ ایک ہی بات کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اس کا احتساب کیا جائے، یہ عوام کے منتخب نمایندے نہیں انھوں نے دھاندلی کے ذریعے انتخابات کے نتائج تبدیل کیے ہیں ۔
عوام کس پر روئے اور کس پر ہنسے اپنے ووٹ پر یا دھاندلی پر؟ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ کروڑوں افراد کا حق مارا جائے اور صرف سیکڑوں افراد اپنے محلوں میں ان ہی کروڑوں لوگوں کے خون چوسنے کا سبب بنیں۔
عوام ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ رہے ہیں اگر عوام فیصلہ کرلیں کہ ان کو کیا کرنا ہے تو بڑے بڑے محل پل بھر میں ریت کے کھنڈر بن جائیں۔ بڑے بڑے فرعون قبروں میں دفن ہوجائیں مگر یکجہتی اور سمجھ و بوجھ کے ساتھ کون ان کو لے کر چلے کہ ہر آدمی اپنی دکان چمکانا چاہتا ہے عمران خان میں تعلیم کے ساتھ سوجھ بوجھ ہے، ان کو اپنے سحر سے نکل کر عوام کے ساتھ بالکل ایسے ہی کھڑا ہونا چاہیے جیساکہ ایک عام آدمی کہ تاریخ خالی تقریروں سے نہیں بنتیں لیڈر وہی بنا ہے جس نے اپنی ہستی کو فنا کرکے عوام کو زندہ کیا، ایک ہی وقت میں دو کشتیوں میں سوار ہوکر دریا پار نہیں کیا جاسکتا۔
تعلیم یافتہ اور توانائی سے بھرا نوجوان عمران خان کے ساتھ ہے اب یہ ان کی عقل و فراست پہ ہے کہ وہ ان کو کس طرح پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے آگے لے کر آتے ہیں لیکن پھر وہی تلخ بات کہ عمران خان کو پہلے اپنے آپ کو رول ماڈل بنانا ہوگا اور اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو عمران خان 62 سال کے ہوگئے ہیں اور ایک بھرپور زندگی اپنی جوانی کے دور کی گزار چکے ہیں اب اگر وہ اپنی باقی توانائیاں، نیک نیتی کے ساتھ عوام کے لیے صرف کریں گے تو ان کو لیڈر بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
نواز شریف، تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ رہ گئی عوام تو وہ بے چاری تعلیم سے خالی خالی، سوچ و بوجھ اور شعور پر بنیادی ضرورت کا بوجھ۔ آج یہ نہیں تو کل یہ نہیں۔ دو وقت کا کھانا اور سر پر چھت۔ یہی ہے تلخ حقیقت کہ انتظار ہے اس مسیحا کا جو بہادری اور ایثار کی مثال بنے۔