جو مسلمان کا دشمن وہ ہندوستان کا دشمن
سری لنکاجو ہمارےبرصغیرکاہی ایک ملک ہےاس میں انگلستان، فرانس اوراٹلی کےبڑےبڑے فیشن ہاؤسز نے اپنی فیکٹریاں لگا دی ہیں۔
30 جنوری کو یہ سطریں لکھتے ہوئے دلی کی اس سڑک کا خیال آ رہا ہے، جس کا نام'30 جنوری روڈ' ہے۔ عام طور پر یہ نام پڑھ کر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے لیکن جنھیں آزادی کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ کا علم ہے، وہ خاموش رہتے ہیں۔ اس سڑک پر ہندوستان کے مشہور صنعت کار مسٹر برلا کا گھر تھا۔
وہ گاندھی جی کے معتقدین میں سے تھے اور زندگی کے آخری 5 مہینے گاندھی جی نے اسی گھر میں گزارے تھے اور یہیں ایک دعائیہ تقریب کے دوران انھیں ایک انتہا پسند جنونی ناتھورام گوڈسے نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ہندوستانی حکومت بہت بھاؤتاؤ کے بعد1966ء میں اس گھر کو برلا فیملی سے خریدنے میں کامیاب ہو سکی۔ نقد 54 لاکھ روپے دیے گئے اور 7 ایکڑ قیمتی اراضی بھی اس کے عوض دی گئی۔ اسی کے بعد ممکن ہو سکا کہ یہاں گاندھی جی کی یادگار قائم کی جائے۔ اب اس گھر میں گاندھی میوزیم ہے اور سبزہ زار پر جہاں انھیں قتل کیا گیا تھا، وہاں ایک یادگاری تختی لگی ہوئی ہے۔
آج گاندھی جی کے قتل کی 67 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے اور مجھے ان کی ایک ابتدائی کتاب 'ہندسو راج' یاد آ رہی ہے۔ یہ مختصر کتاب انھوں نے جنوبی افریقا سے ہندوستان واپسی کے بحری سفر کے دوران لکھی تھی۔ 1909ء میں لکھی جانے والی کتاب میں انھوں نے برطانوی سامراج کی غلامی سے آزادی اور سیلف رول کی بات کی تھی۔ وہ جس خطے کے لیے آزادی کی بات کر رہے تھے۔ اس میں آج کا ہندوستان' پاکستان اور بنگلہ دیش کا علاقہ سب شامل تھے اور آج ایک صدی کے بعد بھی یہ تینوں ملک اپنے اپنے انداز میں ''سوراج'' یعنی آزادی سے محروم ہیں۔ ہندوستان میں انگریز کے جانے کے بعد ریاستیں اور بڑی بڑی زمینداریاں ختم ہوئیں۔
پاکستان میں ریاستیں اور بڑے بڑے جاگیردار آج بھی موجود ہیں اور ہمارے یہاں تو ان 62 برسوں میں اعلیٰ فوجی افسران بھی غیر حاضر زمیندار بن چکے ہیں اور ادارے کے طور پر فوج کارپوریٹ سیکٹر میں ایک بڑا حصہ رکھتی ہے۔ آج یہ سوال ایک صدی بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آخر یہ کیسی آزادی ہے جس میں برصغیر کی اکثریت غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے اور امیر، امیر ترین ہو چکے ہیں۔ پہلے ہم اپنے اپنے ملکوں کے صنعت کاروں کو روتے تھے اور آج گلوبلائزیشن کی اس دنیا میں ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی طاقت ہمارے عام آدمی کا آخری حد پر استحصال کر رہی ہے۔
سری لنکا جو ہمارے برصغیر کا ہی ایک ملک ہے اس میں انگلستان' فرانس اور اٹلی کے بڑے بڑے فیشن ہاؤسز نے اپنی فیکٹریاں لگا دی ہیں۔ سری لنکا کے غریب کام کرنے والوں سے کم پیسوں پر کام کروایا جاتا ہے پھر ان ہی کپڑوں پر ان مشہور فیشن ہاؤسز کا ٹیگ لگتا ہے اور وہاں سے ایکسپورٹ ہو کر یہ لباس ساری دنیا میں بکتے ہیں اور کروڑوں ڈالر کماتے ہیں جب کہ غریب سری لنکن کام کرنے والی یا کام کرنے والے کے حصے میں چند سو سری لنکن روپے آتے ہیں۔
گاندھی جی نے جس ''سوراج'' کا خواب دیکھا تھا وہ نہ صرف ہندوستان میں کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے کے چکر میں تھے۔ یعنی چرخا کاتو' بیل گاڑی میں سفر کرو اور صرف کھدر پہنو' یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے ہندوستان کے لیے آزادی کا جو نسخہ لکھا تھا اس پر پنڈت نہرو' سردار پٹیل اور ان کے بعد آنے والے اگر عمل کرتے تو ہندوستان آج موئن جو ڈرو کے زمانے میں ہوتا۔
گاندھی جی نے ''ہند سوراج'' کو اب سے ایک صدی پہلے سمندر کی لہروں پر سفر کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے لفظوں کا سفر آج ایک صدی بعد بھی جاری ہے۔ ہم اسے پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ''ہند سوراج'' کے پہلے باب میں ہمیں یہ جملہ ملتا ہے ''کہ ہم جو اپنے لیے انصاف کے طلب گار ہیں' ہمیں دوسروں سے بھی انصاف کرنا ہو گا۔''
اور اس کے سولہویں باب میں انھوں نے بیج اور پیڑ کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ یہ رشتہ ناقابل تقسیم ہے۔ ہم وہی کاٹتے ہیں جو ہم بوتے ہیں۔
دانش مندی کی یہ وہ باتیں ہیں جو آج سے نہیں ہزاروں برس سے سچی ہیں اور گاندھی جی نے ان ہی سچی باتوں پر ہندوستان اور ہندوستانیوں کی آزادی کی بنیاد رکھی تھی۔ مکالمات افلاطون کے سے انداز میں گاندھی جی نے سوال و جواب کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کرانے اور آزاد ہندوستان میں ہندوستانیوں کے فرائض اور ان کے حقوق کی بات کی۔ ان کی اس تحریر کوایک صدی بعد پڑھیے تو احساس ہوتا ہے کہ اگر اس وقت ان کی باتوں پر ہندوستان کے دونوں مذہبوں کے سیاستدان اور دانشور توجہ دیتے تو شاید لاکھوں لوگ اپنی جان سے نہ جاتے اور کروڑوں لوگ گھر سے بے گھر نہ ہوتے۔
اپنی اس کتاب میں وہ اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ آزادی کا مطلب اقتدار حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ آزاد ہونے کے بعد تمام ہندوستانی ایک دوسرے کے برابر ہوں گے۔ نہ کوئی کسی سے برتر ہو گا اور نہ کوئی کسی سے کمتر۔ برٹش راج نے اپنے اقتدار کو بچانے اور زیادہ دنوں تک ہندوستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کی جو پالیسی اختیار کی تھی' اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو مسلم جو ایک دوسرے کے ساتھ ایک قوم کی طرح سیکڑوں برس سے رہ رہے تھے۔ ان کے اندر ایک دوسرے سے خوف اور نفرت پیدا ہوئی جس نے ہندوستان کی سرزمین کو خون سے رنگ دیا۔ 1909ء میں ان کی نگاہیں اس تقسیم کو دیکھ رہی تھیں۔
تقسیم کے دنوں کو قریب سے دیکھا جائے تو ہندوؤں میں گاندھی جی اور مسلمانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد سے تنہا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دونوں کے درد کو سمجھنے والے خود ان کی اپنی برادری میں یا تو بہت کم تھے یا پھر نفرت کی جو آندھی چلی تھی اس نے سچے اور ایماندار لوگوں کی کمر توڑ دی تھی۔ گاندھی جی کا 17 دسمبر 1947ء کا خط جو ان کی کلیات میں ملتا ہے۔
اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ''اگر خود سمندر میں آگ لگ جائے تو پھر اس آگ کو کیسے بجھا یا جائے؟'' اسی طرح انھوں نے 4 جنوری 1948ء کی دعائیہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ''پہلے میں جو کچھ کہتا تھا، اس کا لوگوں پر اثر ہو تا تھا۔ لیکن اب میری فریاد کوئی نہیں سنتا۔'' یہ ایک دکھے ہوئے دل کی کراہ تھی۔ انھوں نے سیاست کو عبادت سمجھا تھا اور اب سیاست انھیں کسی اور رنگ میں نظر آ رہی تھی جس کی وجہ سے ان کا دل ٹکڑے ہو رہا تھا۔
برٹش راج نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اثاثوں کی جو تقسیم کی تھی اس میں پاکستان کو اس کا حصہ ملنے میں دیر ہوتی گئی تو گاندھی جی نے مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) رکھنے کا اعلان کر دیا اور اس برت کے تیسرے یا شاید چوتھے دن وہ رقم پاکستان کو دے دی گئی جس کے لیے گاندھی جی نے ہند سرکار کا شکریہ بھی ادا کیا لیکن اپنا برت توڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کے ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ ان کے گردے ناکارہ ہو رہے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے، لیکن گاندھی جی نے کہا کہ میں اس وقت تک اپنا برت نہیں توڑوں گا جب تک دونوں ملکوں کے درمیان امن نہیں ہو جاتا اور جب تک جان اور مال کے خطرے کے بغیر دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے شہروں میں سفر نہیں کر سکتے۔
ان کے اس بیان کے بعد ہزاروں سکھ' مسلمان اور ہندو ''برلا ہاؤس'' کے باہر جمع ہو گئے اور انھوں نے گاندھی جی کو یقین دلایا کہ وہ آپس میں دنگا جھگڑا نہیں کریں گے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے بڑے رہنماؤں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت کریں گے۔
18 جنوری کو ان کے سامنے ہندوؤں' سکھوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے 7 نکات کے ایک اعلان نامے پر دستخط کیے جس میں مسلمانوں کی جان و مال کی ضمانت دی گئی تھی۔ یہ اعلان نامہ ہندی اور اردو دونوں میں تھا۔ اس کے بعد ہی انھوں نے اپنا مرن برت ختم کیا۔
20 جنوری کو انھوں نے دعا کے لیے ہونے والی میٹنگ میں بہت کمزور آواز میں کہا کہ ''مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جو مسلمانوں کا دشمن ہے وہ دراصل ہندوستان کا دشمن ہے۔'' وہ پاکستان آنا چاہتے تھے۔ سندھ کے چیف منسٹر محمد ایوب کھوڑو نے انھیں کراچی آنے کی دعوت دی تھی لیکن ناتھو رام گوڈسے کے ریوالور سے چلی ہوئی گولی نے انھیں کہیں نہیں جانے دیا۔ البتہ دونوں نو آزاد ممالک دشمنی کی اس راہ پر چل نکلے جو نہ جانے کب ختم ہو گی۔