علی سفیان آفاقی
فلم سے ان کا تعلق شباب کیرانوی مرحوم کی دوستی کے توسط سے 1957ء میں بننے والی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ سے قائم ہوا
MELBOURNE:
علی سفیان آفاقی سے میری پہلی ملاقات تقریباً چالیس برس پہلے ہوئی تھی اس وقت بھی وہ اتنے ہی دھان پان، جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی حوالے سے چاک و چوبند اور خوش باش تھے جتنے کچھ عرصہ قبل داؤد کلینک والے برادرم ڈاکٹر صلاح الدین کے ڈینٹل کلینک پر ہونے والی آخری ملاقات میں تھے۔
ان کے چہرے کی مخصوص مسکراہٹ اور بار بار پلکیں چھپکنے کا انداز اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ وہ بنیادی طور پر تو صحافی تھے لیکن ان کی زندگی کا ایک غالب حصہ فلم انڈسٹری میں بطور کہانی نویس اور پروڈیوسر کے گزرا اور بہت کم لوگ لوگوں نے اس انڈسٹری میں (پاکستان کی حد تک) اتنی عزت سے وقت گزارا ہے جو آفاقی بھائی کو نصیب ہوئی جس کی بنیادی وجہ ان کا اپنی صلاحیت پر اعتماد اور وہ مضبوط کردار تھا جس میں دریا میں رہتے ہوئے اپنے لباس کو گیلا ہونے سے بچائے رکھنے کا غیر معمولی کمال تھا۔
فلم سے ان کا تعلق شباب کیرانوی مرحوم کی دوستی کے توسط سے 1957ء میں بننے والی فلم ''ٹھنڈی سڑک'' سے قائم ہوا اس وقت ان کی عمر 25 برس سے بھی کچھ کم تھی۔ یہ زمانہ اردو فلموں کے عروج کا تھا اور پاکستانی فلمیں کھلی مارکیٹ میں بھارت کی کئی گنا بڑی اور باقاعدہ فلم انڈسٹری کا کم و بیش برابر کی سطح پر مقابلہ کر رہی تھیں۔ ڈائریکٹرز میں نذیر صاحب، انور کمال پاشا، شریف نیر، خواجہ خورشید اور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، فیروز نظامی، روبن گھوش، سہیل رعنا، خلیل احمد اور اے حمید جیسے ہنر مند لوگ اپنے فن کا جادو جگا رہے تھے لیکن کہانی کے شعبے میں سیف الدین سیف اور ریاض شاہد سے قطع نظر کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا تھا۔
علی سفیان آفاقی کی آمد سے یہ خلا بہت حد تک پر ہو گیا کہ ان کو کہانی کی بنت، اسکرین پلے اور مکالمہ نگاری پر نہ صرف غیر معمولی عبور حاصل تھا بلکہ ڈائرکشن کی فطری صلاحیت کی وجہ سے وہ فلم کے اسکرپٹ کی مخصوص زبان کو بھی اچھی طرح سے جانتے تھے۔ انھوں نے کچھ فلمیں اپنے ذاتی ادارے سے پروڈیوس بھی کیں لیکن انڈسٹری کے ماحول اور پروڈکشن کے معروف لیکن غیر شفاف طریقے اختیار نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ جلد ہی اس سے دست کش ہو گئے اور اپنے آپ کو کہانی نویسی اور مکالمہ نگاری تک محدود کر لیا یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصے کے بعد وہ اس سے بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے کہ اب اسٹوڈیوز اور فلم سازی پر ایسے لوگوں کا تسلط قائم ہو گیا تھا جن کے ساتھ کام کرنا ان جیسے شریف اور بااصول آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ ''آس'' جیسی کامیاب فلم کی ہدایت کاری کے باوجود بطور ڈائریکٹر ان کے زیادہ کام نہ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔
آفاقی صاحب کی فلموں کی یہ فہرست میں نے روزنامہ ایکسپریس کی اس مفصل خبر سے لی ہے جو ان کی وفات کے موقع پر شایع کی گئی تھی۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے مقدار میں کتنا زیادہ اور معیار میں کتنا عمدہ کام کیا ہے جس کے باعث انھیں 8 بار نگار ایوارڈ چھ بار گریجویٹ ایوارڈ اور ایک ایک بار فلم کریٹک اور مصور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن ان سب سے بڑا ایوارڈ وہ عزت ہے جو انھیں ان فلموں کے دیکھنے والوں سے ملی بلا شبہ پاکستان کے کسی بھی فلم رائٹر کے کریڈٹ پر ایسی اور اتنی فلمیں تو کیا ان کا ایک چوتھائی حصہ بھی شاید ہی ہو۔
کنیز، میرا گھر میری جنت، سزا، آس، آدمی، آج کل، فرشتہ، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، عدالت، شکوہ، دیوانگی، فاصلہ، آرپار، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا سفر، میں وہ نہیں، عندلیب، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، ہم اور تم، پلے بوائے، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابھی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، انسانیت، دوستی، نمک حرام، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے، ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ، اجنبی اور صائقہ جب کہ آس، اجنبی اور صائقہ کو تاشقند فلمی میلے میں شرکت اور روس کی کئی زبانوں میں ترجمے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
فلم انڈسٹری سے گریز کے بعد دوبارہ صحافت سے وابستہ ہو گئے اور ''فیملی میگزین'' کے بانی ایڈیٹر ٹھہرے جس سے ان کا تعلق آخری سانس تک قائم رہا۔ انھوں نے ''دام خیال'' اور دریچے کے عنوان سے کالم بھی لکھے لیکن ان کے اس دوسرے دور کا اصل اور اہم ترین کارنامہ وہ 28 کتابیں ہیں جو ان کے قلم سے نکلیں ان میں سے زیادہ تر کا موضوع ان کے فلمی دنیا کے تجربات، دلچسپ واقعات اور کردار ہیں کچھ کا انداز سفرنامے کا ہے کچھ کا آپ بیتی کا اور کچھ جگ بیتی کے انداز میں لکھی گئی ہیں۔
ان میں سے بیشتر دو معروف ادبی ڈائجسٹوں میں قسط وار شایع ہوئیں اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر لوگ یہ ڈائجسٹ صرف آفاقی کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی خریدا کرتے تھے جن میں میرے والد صاحب بھی شامل ہیں جو ہر مہینے پابندی کے ساتھ یہ ڈائجسٹ منگواتے اور اکثر مجھ سے آفاقی کے انداز تحریر کی تعریف کیا کرتے تھے۔ آفاقی کی وفات کی خبر بھی مجھے انھوں نے ایسے سنائی جیسے ان کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز گزر گیا ہو۔ ان کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ''فلمی الف لیلیٰ'' کو ملی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اس طویل سلسلے کے بے حد دلچسپ اور معلومات افزا ہونے کے باوجود کہیں بھی سیکنڈل بازی یا سنی سنائی باتوں یا افواہوں کا سہارا نہیں لیا گیا۔ فلمی دنیا کے بیشتر لوگ جن میں اپنے دور کی مشہور ہیروینیں اور دیگر خواتین بھی شامل تھیں انھیں ایک ذمے دار دوست اور قابل اعتماد رازدار سمجھ کر ان سے اپنے انتہائی ذاتی معاملات بھی شیئر کرتے تھے۔ آفاقی چاہتے تو انھیں بطور تڑکا اور چسکا استعمال کر سکتے تھے مگر انھوں نے کہیں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جن سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو یا اس کی اعتماد شکنی ہوتی ہو۔
فلم انڈسٹری سے میرا ذاتی تعلق پرویز ملک مرحوم کی فلم قربانی (1982) کے مکالموں سے شروع ہوا جو سرور بھٹی کی ''حق مہر'' حسن عسکری کی ''نجات'' ایورنیو فلمز کی ''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا'' سے ہوتا ہوا شہزاد رفیق کی ''سلاخیں'' کے مکالموں تک وقفے وقفے سے چلتا رہا۔ اس دوران میں مجھے ان بہت سے کرداروں سے ملنے کا موقع بھی ملا جن کا ذکر آفاقی صاحب کی مختلف یادداشتوں میں آتا رہا ہے۔ ظاہر ہے میری نسبت انھوں نے فلم نگری کو بہت زیادہ اور بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کا مستقل حصہ بھی رہے ہیں۔
سو اگر وہ چاہتے تو ان کرداروں سے متعلق بے شمار سنسنی خیز اور فوراً بک جانے والا چسکے دار مواد اپنی تحریروں کا حصہ بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر ایک شریف اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ مخلوط محفلوں اور ذاتی دوستوں کے ہاں وہ ہمیشہ ہماری بھابھی یعنی اپنی بیگم کے ساتھ شریک ہوتے جب کہ شادیوں سے قبل کبھی کبھار دونوں بیٹیاں بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھلے دل و دماغ کے حامل وضع دار انسان تھے گزشتہ چند برسوں میں ان سے بیشتر ملاقاتیں مشترکہ دوست اور مشترکہ ڈینٹسٹ ڈاکٹر صلاح الدین کے کلینک پر ہوئیں اور ہر بار ہم نے اس اتفاق پر بیک وقت خوشی اور تعجب کا اظہار کیا کہ بغیر کی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے ہم ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں کیسے یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔
علی سفیان آفاقی ایک سیلف میڈ، تخلیقی اور ذمے دار انسان تھے اور فی زمانہ اگر ان میں سے کسی ایک خوبی کا حامل انسان بھی ہمارے درمیان سے اٹھ جائے تو وہ جگہ خالی خالی سی لگنے لگتی ہے کہ آدمیوں کی اس بھیڑ میں ''انسان'' بڑھنے کے بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں اور علی سفیان آفاقی تو ان لوگوں میں سے تھے جن پر یہ شعر پورے طور پر صادق آتا ہے کہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
علی سفیان آفاقی سے میری پہلی ملاقات تقریباً چالیس برس پہلے ہوئی تھی اس وقت بھی وہ اتنے ہی دھان پان، جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی حوالے سے چاک و چوبند اور خوش باش تھے جتنے کچھ عرصہ قبل داؤد کلینک والے برادرم ڈاکٹر صلاح الدین کے ڈینٹل کلینک پر ہونے والی آخری ملاقات میں تھے۔
ان کے چہرے کی مخصوص مسکراہٹ اور بار بار پلکیں چھپکنے کا انداز اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ وہ بنیادی طور پر تو صحافی تھے لیکن ان کی زندگی کا ایک غالب حصہ فلم انڈسٹری میں بطور کہانی نویس اور پروڈیوسر کے گزرا اور بہت کم لوگ لوگوں نے اس انڈسٹری میں (پاکستان کی حد تک) اتنی عزت سے وقت گزارا ہے جو آفاقی بھائی کو نصیب ہوئی جس کی بنیادی وجہ ان کا اپنی صلاحیت پر اعتماد اور وہ مضبوط کردار تھا جس میں دریا میں رہتے ہوئے اپنے لباس کو گیلا ہونے سے بچائے رکھنے کا غیر معمولی کمال تھا۔
فلم سے ان کا تعلق شباب کیرانوی مرحوم کی دوستی کے توسط سے 1957ء میں بننے والی فلم ''ٹھنڈی سڑک'' سے قائم ہوا اس وقت ان کی عمر 25 برس سے بھی کچھ کم تھی۔ یہ زمانہ اردو فلموں کے عروج کا تھا اور پاکستانی فلمیں کھلی مارکیٹ میں بھارت کی کئی گنا بڑی اور باقاعدہ فلم انڈسٹری کا کم و بیش برابر کی سطح پر مقابلہ کر رہی تھیں۔ ڈائریکٹرز میں نذیر صاحب، انور کمال پاشا، شریف نیر، خواجہ خورشید اور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، فیروز نظامی، روبن گھوش، سہیل رعنا، خلیل احمد اور اے حمید جیسے ہنر مند لوگ اپنے فن کا جادو جگا رہے تھے لیکن کہانی کے شعبے میں سیف الدین سیف اور ریاض شاہد سے قطع نظر کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا تھا۔
علی سفیان آفاقی کی آمد سے یہ خلا بہت حد تک پر ہو گیا کہ ان کو کہانی کی بنت، اسکرین پلے اور مکالمہ نگاری پر نہ صرف غیر معمولی عبور حاصل تھا بلکہ ڈائرکشن کی فطری صلاحیت کی وجہ سے وہ فلم کے اسکرپٹ کی مخصوص زبان کو بھی اچھی طرح سے جانتے تھے۔ انھوں نے کچھ فلمیں اپنے ذاتی ادارے سے پروڈیوس بھی کیں لیکن انڈسٹری کے ماحول اور پروڈکشن کے معروف لیکن غیر شفاف طریقے اختیار نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ جلد ہی اس سے دست کش ہو گئے اور اپنے آپ کو کہانی نویسی اور مکالمہ نگاری تک محدود کر لیا یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصے کے بعد وہ اس سے بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے کہ اب اسٹوڈیوز اور فلم سازی پر ایسے لوگوں کا تسلط قائم ہو گیا تھا جن کے ساتھ کام کرنا ان جیسے شریف اور بااصول آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ ''آس'' جیسی کامیاب فلم کی ہدایت کاری کے باوجود بطور ڈائریکٹر ان کے زیادہ کام نہ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔
آفاقی صاحب کی فلموں کی یہ فہرست میں نے روزنامہ ایکسپریس کی اس مفصل خبر سے لی ہے جو ان کی وفات کے موقع پر شایع کی گئی تھی۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے مقدار میں کتنا زیادہ اور معیار میں کتنا عمدہ کام کیا ہے جس کے باعث انھیں 8 بار نگار ایوارڈ چھ بار گریجویٹ ایوارڈ اور ایک ایک بار فلم کریٹک اور مصور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن ان سب سے بڑا ایوارڈ وہ عزت ہے جو انھیں ان فلموں کے دیکھنے والوں سے ملی بلا شبہ پاکستان کے کسی بھی فلم رائٹر کے کریڈٹ پر ایسی اور اتنی فلمیں تو کیا ان کا ایک چوتھائی حصہ بھی شاید ہی ہو۔
کنیز، میرا گھر میری جنت، سزا، آس، آدمی، آج کل، فرشتہ، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، عدالت، شکوہ، دیوانگی، فاصلہ، آرپار، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا سفر، میں وہ نہیں، عندلیب، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، ہم اور تم، پلے بوائے، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابھی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، انسانیت، دوستی، نمک حرام، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے، ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ، اجنبی اور صائقہ جب کہ آس، اجنبی اور صائقہ کو تاشقند فلمی میلے میں شرکت اور روس کی کئی زبانوں میں ترجمے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
فلم انڈسٹری سے گریز کے بعد دوبارہ صحافت سے وابستہ ہو گئے اور ''فیملی میگزین'' کے بانی ایڈیٹر ٹھہرے جس سے ان کا تعلق آخری سانس تک قائم رہا۔ انھوں نے ''دام خیال'' اور دریچے کے عنوان سے کالم بھی لکھے لیکن ان کے اس دوسرے دور کا اصل اور اہم ترین کارنامہ وہ 28 کتابیں ہیں جو ان کے قلم سے نکلیں ان میں سے زیادہ تر کا موضوع ان کے فلمی دنیا کے تجربات، دلچسپ واقعات اور کردار ہیں کچھ کا انداز سفرنامے کا ہے کچھ کا آپ بیتی کا اور کچھ جگ بیتی کے انداز میں لکھی گئی ہیں۔
ان میں سے بیشتر دو معروف ادبی ڈائجسٹوں میں قسط وار شایع ہوئیں اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر لوگ یہ ڈائجسٹ صرف آفاقی کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی خریدا کرتے تھے جن میں میرے والد صاحب بھی شامل ہیں جو ہر مہینے پابندی کے ساتھ یہ ڈائجسٹ منگواتے اور اکثر مجھ سے آفاقی کے انداز تحریر کی تعریف کیا کرتے تھے۔ آفاقی کی وفات کی خبر بھی مجھے انھوں نے ایسے سنائی جیسے ان کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز گزر گیا ہو۔ ان کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ''فلمی الف لیلیٰ'' کو ملی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اس طویل سلسلے کے بے حد دلچسپ اور معلومات افزا ہونے کے باوجود کہیں بھی سیکنڈل بازی یا سنی سنائی باتوں یا افواہوں کا سہارا نہیں لیا گیا۔ فلمی دنیا کے بیشتر لوگ جن میں اپنے دور کی مشہور ہیروینیں اور دیگر خواتین بھی شامل تھیں انھیں ایک ذمے دار دوست اور قابل اعتماد رازدار سمجھ کر ان سے اپنے انتہائی ذاتی معاملات بھی شیئر کرتے تھے۔ آفاقی چاہتے تو انھیں بطور تڑکا اور چسکا استعمال کر سکتے تھے مگر انھوں نے کہیں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جن سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو یا اس کی اعتماد شکنی ہوتی ہو۔
فلم انڈسٹری سے میرا ذاتی تعلق پرویز ملک مرحوم کی فلم قربانی (1982) کے مکالموں سے شروع ہوا جو سرور بھٹی کی ''حق مہر'' حسن عسکری کی ''نجات'' ایورنیو فلمز کی ''چوروں کی بارات'' اور ''جو ڈر گیا وہ مر گیا'' سے ہوتا ہوا شہزاد رفیق کی ''سلاخیں'' کے مکالموں تک وقفے وقفے سے چلتا رہا۔ اس دوران میں مجھے ان بہت سے کرداروں سے ملنے کا موقع بھی ملا جن کا ذکر آفاقی صاحب کی مختلف یادداشتوں میں آتا رہا ہے۔ ظاہر ہے میری نسبت انھوں نے فلم نگری کو بہت زیادہ اور بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کا مستقل حصہ بھی رہے ہیں۔
سو اگر وہ چاہتے تو ان کرداروں سے متعلق بے شمار سنسنی خیز اور فوراً بک جانے والا چسکے دار مواد اپنی تحریروں کا حصہ بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر ایک شریف اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ مخلوط محفلوں اور ذاتی دوستوں کے ہاں وہ ہمیشہ ہماری بھابھی یعنی اپنی بیگم کے ساتھ شریک ہوتے جب کہ شادیوں سے قبل کبھی کبھار دونوں بیٹیاں بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھلے دل و دماغ کے حامل وضع دار انسان تھے گزشتہ چند برسوں میں ان سے بیشتر ملاقاتیں مشترکہ دوست اور مشترکہ ڈینٹسٹ ڈاکٹر صلاح الدین کے کلینک پر ہوئیں اور ہر بار ہم نے اس اتفاق پر بیک وقت خوشی اور تعجب کا اظہار کیا کہ بغیر کی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے ہم ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں کیسے یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔
علی سفیان آفاقی ایک سیلف میڈ، تخلیقی اور ذمے دار انسان تھے اور فی زمانہ اگر ان میں سے کسی ایک خوبی کا حامل انسان بھی ہمارے درمیان سے اٹھ جائے تو وہ جگہ خالی خالی سی لگنے لگتی ہے کہ آدمیوں کی اس بھیڑ میں ''انسان'' بڑھنے کے بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں اور علی سفیان آفاقی تو ان لوگوں میں سے تھے جن پر یہ شعر پورے طور پر صادق آتا ہے کہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے