تعلیمی بگاڑکا ذمے دار کون
نوجوانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ پیچھے کیوں ہیں؟ وہ کس ماحول میں اپنے آپ کوکس مقام پر پاتے ہیں؟
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے نونہالوں کا مستقبل روشن وتابناک ہو، انھیں ہر مقام پر کامیابی حاصل ہو، کبھی یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کسی سے پیچھے ہیں ۔ ہر بچے کو احساس ہو کہ وہ زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکتا ہے مگر جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول اور نوجوانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم شاید حقیقت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ ہیں، بے شک ہم زمانے کے ساتھ ہیں، مگر ان چیزوں کو اپنا رہے ہوتے ہیں جن سے ہمیں فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ملنے کا خدشہ ہے۔
نوجوانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ پیچھے کیوں ہیں؟ وہ کس ماحول میں اپنے آپ کوکس مقام پر پاتے ہیں؟ ان کی اپنی کیا حالت ہے اور کیوں ہے؟ تعلیمی میدان میں وہ کس مقام پرکھڑا ہے؟ ان کا اپنا کیا معیار ہے؟ یکساں تعلیمی نظام نہ ہونے پر غورکیا جائے تو فرق واضح نظر آتا ہے۔
اس فرق کا ذمے دارکون ہے اورکیا وجہ ہے؟ قوم وملت کی دہائی تو سب دیتے ہیں مگر اس کی پستی کے ذمے دارکون ہیں؟ متفرق نظام تعلیم کی وجہ سے غریب والدین کے بچے نہایت اہم مقام پر پہنچنا تو دورکی بات ہے اس مقام تک پہنچنے کی سوچ بھی نہیں رکھتے کیوں؟ جس غلام گردش نظام میں ہم سانس لے رہے ہوتے ہیں وہاں ہماری سوچ پست کردی گئی ہے ہمارا ذہن کام نہیں کر رہا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کتنے بیدار مغز ہیں؟ بس ایک خواہش ہے کہ ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل تابناک بنائے۔
والدین کا اپنے بچوں کو کسی اسکول و مدرسے میں داخل کروانے سے ان کی ذمے داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ذمے داریوں کا آغاز ہوتا ہے مگر آغاز سے ہی اکثر والدین غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ والدین سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو کسی اسکول مدرسے میں داخل کردیا ہے اب تمام تر ذمے داری اسکول و مدرسے کی ہے، پڑھائی لکھائی کی ذمے داری بس صرف اساتذہ کی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے بچوں کو کتنا وقت دے رہے ہیں؟
آج درس گاہ میں کیا ہوا؟ آج کس استاد نے کیا پڑھایا؟ آج ہوم ورک کیا ہے؟ کیا ہوم ورک مکمل کرلیا؟ ہم نے بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ ہوم ورک یا درسی عمل میں ہم نے ان کا ساتھ دیا؟ کیا والدین اپنے بچوں پر توجہ دیے بغیر ان سے بہترین نتیجے کی امید کرسکتے ہیں؟ امتحانات کے دنوں میں خوب محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کا پھل نتیجے کی شکل میں ملتا ہے۔ والدین خوش ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا ہے جو درحقیقت اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کیونکہ نمبرات معیار کی کسوٹی نہیں ہے بلکہ وقتی خوشی ہے اور اس پر مطمئن ہوجانا ایک سنگین غلطی ہے۔
اصل کامیابی یہ ہے کہ نمبرات کے ساتھ ساتھ بچے میں نمایاں تبدیلیاں بھی آنی چاہئیں، اس کے برتاؤ میں، اس کے نظریے میں،اس کے فعل میں جو وہ کررہا ہوتا ہے،کیا وہ صحیح ہے؟ کسی کام کو انجام دینے کے لیے وہ صحیح طریقہ استعمال کررہا ہے یا نہیں؟ اس میں سائنسی نقطہ نظر پیدا ہوا یا نہیں؟ ''کیا، کیوں، کیسے'' اگر اس کے ذہن میں یہ تین باتیں ہیں تو یقینا اس میں سائنسی نقطہ پیدا ہو رہا ہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔
بات کڑوی ہے مگر ہے سچی کہ ہم امتحانات کو بہت اہمیت دیتے ہیں بہترین نتائج سے اسکول، مدرسہ اورکالج کے معیار کو تسلیم کیا جاتا ہے جوکہ بہت ہی غلط بات ہے۔ بعض اوقات والدین خود اور بعض اوقات درسگاہوں کے ذمے داران اپنی طرف اچھے نتیجے کی فکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک فرد کو پڑھے لکھا جاہل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں، ہم اپنی قوم کے مستقبل کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر رہے ہوتے ہیں اس بارے میں ہمیں نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
والدین بچوں کی تعلیم کے لیے صرف روپے خرچ نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کے لیے وقت دینا بھی بہت ضروری ہے۔ یاد رکھیں والدین کی امیدوں کی وجہ سے بچوں کے دل و دماغ میں بلاوجہ تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ ذہنی تناؤ کی وجہ سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر متضاد اثر پڑسکتا ہے اس لیے اساتذہ، والدین اور طالبات کے درمیان تعلق دوستانہ اور ہمدردانہ ہونا چاہیے بچوں کو غیر ضروری دباؤ سے آزاد رہ کر ان کی مرضی و خواہش کے مطابق انھیں مواقعے فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرسکیں۔
ماں باپ بچے کی جسمانی پرورش کرتے ہیں تو روحانی تربیت کا زیادہ تر اہتمام استاد کرتاہے لیکن حالات یہ ہیں کہ ملک میں منظور شدہ اساتذہ کی 85ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں طلبا تعلیمی ادارے چھوڑ گئے ہیں۔ پاکستان میں دو کروڑ 50 لاکھ بچے تعلیم کے آئینی حق سے محروم اور اسکولوں سے باہر ہیں۔ پاکستان ایجوکیشنل اسٹیٹ اسٹکس 2011-12 کے مطابق ملک میں پہلی سے دسویں جماعت کے 5 لاکھ 55 ہزار سے زائد بچوں نے فیل ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی جماعتوں کو دہرایا۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں دستیاب سہولتوں کے حوالے سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بہترین سہولتوں کے حوالے سے اسلام آباد پہلے، صوبہ پنجاب دوسرے، خیبرپختونخوا تیسرے، سندھ چوتھے، فاٹا پانچویں، گلگت بلتستان چھٹے، بلوچستان 7 ویں اور آزاد کشمیر 8ویں نمبر پر ہیں۔ یعنی زیادہ تر سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔
کہیں عمارت نہیں اور طلبا سخت سردی، گرمی، دھوپ اور بارش میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں تو کہیں مطلوبہ تعداد میں اساتذہ ہی موجود نہیں تو کہیں بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ حال ہی میں محکمہ تعلیم سندھ میں خلاف ضابطہ تقریباً 10 کروڑ روپے مالیت کے سامان کی خریداری کا انکشاف ہوا ہے، یعنی خریداری بغیر ٹینڈرز کے کی گئی ہے، آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے اعتراضات کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سندھ حکومت نے محکمہ تعلیم کو اپنی پانچ ترجیحات میں درجہ اول پر رکھا ہوا ہے۔
جس کے لیے 110 بلین روپے صرف ملازموں کی تنخواہ اور 10 بلین روپے ان کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور محکمہ تعلیم سے کہا گیا ہے کہ وہ جون 2015 تک مکمل ہونے والی اپنی ترقیاتی اسکیموں کی ترجیحی فہرست بنائے اور محکمہ ورکس کے حوالے کرے اور محکمہ ورکس ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کرے اور ہر حال میں وقت کے اندر مکمل کریں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل کہاں تک ہوتا ہے۔
فی الوقت عوامی سطح پر یہ سوچ تقویت پاچکی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم بہتر نہیں رہا اور ان کے مقابلے میں نجی تعلیمی ادارے بہتر تعلیم دے رہے ہیں۔ لیکن یہ مہنگے اسکول غریبوں کی دسترس سے دور ہیں یہی وجہ ہے کہ تعلیم عام ہونے کے بجائے محدود ہوتی جا رہی ہے۔ جس کا ذمے دار کون ہے؟