اجڑی ہوئی بستی

کہتے ہیں، جنگل میں جب شیر کا پیٹ بھر جائے تو وہ شکار نہیں کرتا،


ڈاکٹر عفان قیصر January 31, 2015
www.facebook.com/draffanqaiser

یہ ایک روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک طوطا اور مینا کا گزر ایک ویرانے سے ہوا، وہ دم لینے کے لیے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ گئے۔ یہ ایک اجاڑ بستی تھی۔ طوطے نے مینا سے کہا 'اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے، یہاں الوؤں نے بسیرا کیا ہو گا'۔ ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا یہ سب سن رہا تھا۔ یہ سب سن کر اس نے اڑان بھری اور ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔

علیک سلیک کے بعد اس نے طوطا مینا کو مخاطب کر کے کہا، آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میں آپ کا بہت ممنون ہوں گا، اگر آپ رات کا کھانا، میرے غریب خانے پر تناول فرمائیں۔ جوڑے نے دعوت قبول کر لی، رات کا کھانا کھانے کے بعد، صبح تک وہیں قیام کیا گیا، اور پھر صبح وہ جوڑا وہاں سے رخصت ہونے لگا۔ جب وہ نکلنے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا 'اسے کہاں لے جا رہے ہو، یہ میری بیوی ہے'۔ یہ سن کر طوطے کی جان نکل گئی۔ وہ کہنے لگا 'یہ کیسے ممکن ہے، یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ میرے ساتھ آئی ہے، تم الو ہو یہ مینا ہے، تم زیادتی کر رہے ہو یہ تمہاری بیوی نہیں ہے'۔

اس پر الو نے پرسکون آہ بھری اور کہا 'ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے، صبح ہو گئی ہے، عدالتیں کھل گئی ہوں گی، ہم وہاں چلتے ہیں، جو فیصلہ وہ کریں گی، ہمیں قبول کرنا ہو گا'۔ مرتا کیا نہ کرتا طوطا مان گیا۔ الوؤں کے اس علاقے کے جج صاحب نے دونوں کے دلائل بہت تفصیل سے سنے، کافی دیر مقدمہ چلتا رہا۔ آخر میں جج نے فیصلہ سنا دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے، اور اسے الو کے ساتھ رہنا ہو گا۔ یہ سن کر طوطا روتے ہوئے، اکیلا ایک جانب چل دیا۔

ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی۔ 'تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاؤ'۔ طوطے نے روتے ہوئے جواب دیا 'یہ میری بیوی کہاں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے'۔ اس پر الو ہنسنے لگا۔ پھر وہ بولا 'یہ میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے، مجھے تو بس تمہیں یہ بتانا تھا کہ جنگل، بستیاں، شہر الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوا کرتیں، بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں، جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے، ہماری بستی کی ویرانی ہم سے نہیں ہے'۔

کہتے ہیں، جنگل میں جب شیر کا پیٹ بھر جائے تو وہ شکار نہیں کرتا، یعنی وہ بھی اپنی رعایا پر اتنا احسان ضرور کر دیتا ہے۔ انسان ایسا نہیں کرتا۔ انسان اپنی جنم بھومی سے جنگلوں، غاروں اور درختوں میں رہتا آیا ہے۔ انسان کو جب دنیا کی سمجھ لگنا شروع ہوئی تو اس نے دریاؤں کا رخ کیا، اور اس کے کنارے مستقل آباد ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے جانوروں کو اپنی دسترس میں کرنا شروع کر دیا۔ وہ ان سے دودھ گوشت حاصل کرنے لگا، اس نے ان سے اپنی سفری سہولت کا سامان بنا لیا اور یوں دنیا اس کے لیے آسان ہونے لگی۔ انسان کو زمین سے خوراک حاصل کرنا آ گیا۔ وہ زراعت کے میدان میں چھانے لگا۔ یہ ڈارون کی دنیا تھی۔

طاقت کی بقا کی دنیا۔ کوئی عدل وانصاف نہیں تھا۔ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا قانون رائج تھا۔ انسان زر، زن، زمین کے چکر میں آپس میں لڑنے لگا، جنگیں ہونے لگیں، طاقت بڑھنے لگی۔ معاشرتی طور پر انسان کو خود اس بات کا احساس ہونے لگا کہ دائمی بقا کے لیے ڈارون کی طاقت کا اصول اس دنیا پر رہنے کے لیے مشکل ہے۔ چنانچہ اسے انصاف، عدل اور قانون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ یوں زن کو طاقت سے نہیں، شادی کے بندھن سے قابو کیا جانے لگا۔ لین دین میں اصول آ گئے مگر ابھی تک انسان کو سکون حاصل نہیں تھا۔ سکون کے لیے اسے کسی بہت بڑے عقیدے پر ایمان کی ضرورت پیش آنے لگی، یوں خدا کی مدد آنے لگی اور خدا کے بندے انسان کی اصلاح کو آنے لگے۔

مذہب اور پھر مذہب میں انسان کی اپنی مرضی، ابھی بھی انسان کو سکون نہ آیا۔ انسان نے خود اپنے خالق تجویز کیے اور پوجنے لگا۔ کسی نے سورج کی پوجا کی، کسی نے آگ کی، کسی نے پتھر تراش لیے، کوئی کسی انسان (فرعون) کو پوجنے لگا، اور کسی نے عشقِ حقیقی کو پا لیا۔ خدا نے انبیا کو اس دنیا کے لیے دائمی فلاح اور دوجہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ راہِ نجات کے متلاشی اس راہ پر چل پڑے۔ باقیوں نے اپنی من مرضی جاری رکھی۔ یہ سچ ہے کہ جس نے اس خدا کو پوجا، جسے ان کے آباؤ اجداد نے بنایا، وہ راکھ ہو گئے، جس نے اس خدا کو پوجا، جو اس کا حقیقی خالق تھا، اس نے دائمی نجات حاصل کر لی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اس سب قدرت کے نظام میں ایک اور نظام اس سے ہٹ کر چلتا رہا۔ اس کی پرستش آگ کی پوجا کرنیوالوں نے کی، تو انھوں نے دنیا فتح کر لی، پتھروں کو پوجنے والوں نے کی تو وہ ترقی کرنے لگے۔ یہ نظام عدل، انصاف اور قانون کا نظام تھا۔ مورخ آج بھی سقراط کی موت کے منظر کو نہیں بھولے کہ جب سقراط کو پھانسی دی جا رہی تھی، تو وہ پھانسی دینے والوں کا تمسخر اڑا رہا تھا، اور کہہ رہا تھا، یہ عدالت نہیں، ہجوم ہے۔ اس کی بات سچ ثابت ہوئی اور آنیوالے وقتوں میں انصاف کے داعی سولن نے اس ہجوم کو فتح کر لیا۔ افسوس کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے انصاف کی مثالیں، سننے اور سنانیوالے آج اس راہ سے بہت دور چلے گئے۔

آج آبادی میں دنیا کا نصف ہونے کے باوجود فقط بے ایمان، کرپشن اور انصاف سے دوری، باقی دنیا سے اس دین کے پیروکاروں کو ذلیل و رسوا کروا رہی ہے۔ دنیا کی آبادی کا فقط دو فیصد یہود، آج صرف اپنی صفوں میں عدل و انصاف قائم کر کے، ہمیں تسخیر کیے ہوئے ہیں۔ ہماری بے ایمانی کا یہ حال ہے، کہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھ کر، ان کی ڈبوں، پیکٹوں میں بند، ناپی تولی ایک ایک چیز تو پورے اعتبار سے استعمال کر لیتے ہیں، مگر اپنے ساتھی سے کچھ نہیں لے پاتے کہ وہ ناپ تول میں ہیرا پھیری سے بھرپور چیز دے گا۔ ہماری صفوں سے انصاف، عدل اور قانون کیا اٹھا ہے، ہم برباد ہو گئے ہیں۔

ہماری اکانومی، آج تمام کی تمام ان کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے۔ خدا نے ہمیں بہترین دین دیا، توانائی کی دولت سے مالا مال بہترین ملک دیے، مگر ہم نے اپنی عیاشیوں اور بے ایمانیوں سے سب لٹا دیا۔ آج ہم نے پوری امت کو ویران بستی میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ویرانی الوؤں کی بستی کی ویرانی جیسی تاریک ویرانی ہے، جہاں سے عدل انصاف اور قانون اٹھ چکا ہے۔ اگر ہمیں اس بستی کو آباد کرنا ہے، تو ہمیں انصاف، عدل اور قانون کو اپنی رگوں میں خون کی طرح شامل کرنا ہو گا۔ کیوں کہ بستیاں بے انصافی، بے ایمانی اور لاقانونیت سے اجڑا کرتی ہیں۔ جب کسی بستی سے انصاف اٹھ جاتا ہے، تو وہ بستی اجاڑ بن جاتی ہے۔ ہمیں امت کی اجڑی ہوئی اس بستی کو پھر سے بسانا ہو گا۔ ہمیں اپنی صفوں میں پھر سے عدل، انصاف اور قانون کا راج قائم کرنا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں