مکۃ المکرمہ
دنیا کا سب سے مقدس شہر
DHAKA:
مکہ مکرمہ تعظیماً ساری دنیا کے شہروں سے افضل و اکرم ہے۔
ابن ماجہ کے مطابق، مسجد نبوی میں ایک نماز عام مساجد کے مقابلے میں پچاس ہزار گنا اور مسجد الحرام میں ایک نماز پر ایک لاکھ گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ مکۃ المکرمہ، مدینۂ منورہ سے افضل ہے، کیوں کہ اس کی فضیلت ذاتی ہے، جب کہ مدینے کی فضیلت حضور نبی کریم ﷺکے وجود مسعود کی مرہون منت ہے۔ مکے میں اﷲ تعالیٰ ایک نیکی کے عوض ایک لاکھ گنا اجر فرماتا ہے اسی طرح گناہ پر بھی مواخذہ اسی نسبت سے شدید ہوتا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس آدمی نے مکۂ معظمہ میں رمضان المبارک پایا اور اس کے روزے رکھے تو کسی دوسرے مقام کی نسبت یہاں سے ایک لاکھ رمضان المبارک کا اجر و ثواب عنایت ہوگا۔ اس کے علاوہ اسے ہر دن اور رات کے بدلے ایک ایک غلام آزاد کرنے کا اجر بھی ملے گا اور ہر روز دو گھوڑوں کا بوجھ اﷲ کی راہ میں خیرات کرنے کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔''
علامہ قزوینی حضرت عبداﷲ بن عباس کی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ مکۃ المکرمہ کے سوا بھی زمین پر کوئی ایسا شہر ہوگا جس میں نیکیاں سو گنا بڑھ جاتی ہوں اور نماز کی ایک رکعت کے بدلے ایک سو رکعات کا اجر ملتا ہو اور اس کے مکان بیت اﷲ کی طرف دیکھنے سے ایک سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔''
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس مسلمان نے مکۃ المکرمہ کی گرمی کی ایک ساعت بھی برداشت کی، اﷲ رب العزت اسے جہنم کی آگ سے ایک سو سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے۔'' سیدنا سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ جو آدمی مکۃ المکرمہ میں ایک دن بیمار ہوجائے اور اس کے روزمرہ کے نیک کاموں کے معمولات ادا نہ ہوسکیں تو اﷲ تعالیٰ اسے نہ صرف اس دن کے اعمال کے اجر سے نوازتے ہیں، بلکہ سات سال کے اعمال کا خطیر اجر بھی مرحمت فرماتے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس آدمی نے مکۃ المکرمہ کی گرمی پر ایک ساعت بھی صبر کیا تو اس سے جہنم ایک سو سال کے فاصلہ تک دور کردی جائے گی اور جنت دو سو سال کی مسافت سے اس کے قریب کردی جائے گی۔ یہ شہر نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا اور نہ ہی میرے بعد ہوگا۔ (جنگ کے لیے) اور میرے بھی دن میں سے تھوڑی سی دیر کے لیے حلال ہوا تھا۔''
سورہ آل عمران آیت نمبر95 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''بے شک! پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر ہوا، مکہ ہی میں ہے۔ یہ برکت والا اور ہدایت والا ہے، جہاں والوں کے لیے، اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوگیا، اسے امن مل گیا، اور اس گھر کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے اور جو شخص اس کی طرف راہ چلنے کی قدرت رکھتا ہو۔''
مکہ ہی وہ مقدس شہر ہے جس کی قسمیں اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں کھائی ہیں:
''قسم ہے انجیر کی، زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی ۔'' (سورۃ التین)
سورۂ بلد میں ارشاد ہوا:''میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور آپ پر ممانعت نہیں رہے گی اس شہر میں۔''
بیت اﷲ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی تھی:''اے ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو، انہی تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور کتاب کی تعلیم دے اور دانائی کی باتیں سکھائے اور ان کا تزکیہ نفس کرے۔ بے شک! تو بڑی حکمت والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ 129)
مکہ مکرمہ روئے زمین کا سب سے مقدس اور بزرگی والا شہر ہے اور آسمان کے نیچے یقینی طور پر سب سے افضل جگہ ہے، کیوں کہ اسی میں بیت اﷲ ہے جس کا حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے، اسی شہر کو اﷲ تعالیٰ نے بلد الحرام فرمایا۔ نزول وحی اور نزول ملائکہ کا مرکز، انبیا و اولیا کا ٹھکانا اور ہر انعام خداوندی کی بنیاد ہے۔
نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے:''روئے زمین پر بہترین شہر اور اﷲ تعالیٰ کا محبوب مقام مکۃ المکرمہ ہے۔''
آپؐ کا ارشاد ہے:''مکۃ المکرمہ میں قیام سعادت مندی اور اس کی سکونت ترک کرنا بدبختی ہے۔''
اسی مقدس شہر سے قیامت کے دن انبیا، صدیقین، ابرار، فقہا، متقی، صلحا اور عبادت گزار مرد اور عورتیں اٹھیں گے۔ یہ لوگ خوش و خرم ہوں گے اور عذاب سے بے خوف و خطر ہوں گے۔'' حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:''اگر مجھے ہجرت کا حکم بارگاہ خداوندی سے نہ ملتا تو میں مکۃ المکرمہ کی سکونت ہرگز نہ چھوڑتا، میں نے آسمان کو مکے کی زمین سے زیادہ قریب کہیں نہیں دیکھا، اور نہ ہی میرے دل نے مکے کی سرزمین کے سوا کہیں قرار و سکون حاصل کیا اور مجھے اس شہر میں چاند بے حد حسین و جمیل دکھائی دیتا ہے۔''
جمہور علمائے کرام کے نزدیک مکۃ المکرمہ، مدینہ طیبہ سے افضل ہے۔ مدینے کی شہرت آپؐ کے تشریف فرما ہونے کے بعد ہوئی ہے، جب کہ مکے کی فضیلت ہمیشہ سے مسلمہ ہے۔ جب سیدنا حضرت آدم علیہ السلام اس متبرک شہر میں تشریف لائے اس وقت سے اس کی بزرگی اور عزت دو بالا ہوگئی۔ خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اﷲ تعمیر کیا اور لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا تو دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ حج کرنے کے لیے یہاں آنے لگے۔ روئے زمین کے تمام شہروں پر مکۂ معظمہ کی فضیلت روشن دلیل ہے۔ حج کے مہینوں میں لاکھوں مسلمان یہاں فریضۂ حج ادا کرنے آتے ہیں ۔ شہر کے گلی کوچوں میں ہر جانب زائرین کی آمد کے وقت دعا، تکبیر اور تہلیل کی ایمان افروز صدائیں گونجتی ہیں۔ یہ معزز شہر نزول وحی و قرآن اور ظہور اسلام کا مقدس مرکز ہے۔ اس شہر میں ایک ہی دین اور مذہب کا بول بالا ہے ۔ یہاں لڑائی کرنا بھی حرام ہے اور شکار کرنا بھی حرام ہے۔
اس مقدس شہر کے قبرستان (جنت المعلیٰ) سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے جو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گے۔ دجال کے داخلے سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔ کعبۃ اﷲ کے اردگرد تین سو انبیاء کی قبریں ہیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ستر انبیاء کی قبریں ہیں۔ حطیم، کے اندر میزاب کعبہ کے نیچے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کی قبریں ہیں۔ اس طرح چاہ زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان سیدنا ہودؑ، حضرت شعیبؑ اور حضرت صالحؑ کی قبریں ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں انبیاء کی قبریں دنیا بھر میں کسی اور خطۂ زمین میں بھی نہیں ہیں اور اہل مکہ نماز میں کعبے کی چاروں سمت سے رخ کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں جہاں نماز میں چاروں طرف رخ کیا جا سکتا ہو۔
قرآن پاک میں مکۃ المکرمہ کی شان میں بے شمار آیات نازل ہوئیں۔
حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک! اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے حرمت والا بنا دیا ہے۔ پس وہ اﷲ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے نہ اس میں شکار کیا جائے گا اور نہ اس کی حدود میں گری پڑی کوئی چیز اٹھائی جائے، مگر جو آدمی اپنی چیز کی شناخت کرلے۔''
مکہ ایسی سرزمین ہے جس میں بیت الحرام ہے جو سارے جہاں کا قبلہ اور تمام مساجد کا مرجع ہے۔ مکہ ایسا حرم پاک ہے جس کی سرزمین میں شکار کرنا حرام ہے حالاں کہ شکار کرنا ساری دنیا میں حلال ہے۔ اس ارض پاک میں اﷲ تعالیٰ کے تمام شعائر اور مناسک موجود ہیں جن کی بزرگی کے باعث دنیا ان کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس سرزمین میں مقام ابراہیم، آب زم زم، حطیم اور حجر اسود ہیں۔ یہاں عالی شان مسجد الحرام ہے۔ طواف اور سعی کرنے والوں کے لیے صفا و مروہ دو بڑی علامتیں ہیں۔ مکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں نیکیوں کا اجر بہت زیادہ کردیا جاتا ہے اور گناہ گاروں کو گناہوں سے پاک کردیا جاتا ہے۔
مکہ مکرمہ تعظیماً ساری دنیا کے شہروں سے افضل و اکرم ہے۔
ابن ماجہ کے مطابق، مسجد نبوی میں ایک نماز عام مساجد کے مقابلے میں پچاس ہزار گنا اور مسجد الحرام میں ایک نماز پر ایک لاکھ گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ مکۃ المکرمہ، مدینۂ منورہ سے افضل ہے، کیوں کہ اس کی فضیلت ذاتی ہے، جب کہ مدینے کی فضیلت حضور نبی کریم ﷺکے وجود مسعود کی مرہون منت ہے۔ مکے میں اﷲ تعالیٰ ایک نیکی کے عوض ایک لاکھ گنا اجر فرماتا ہے اسی طرح گناہ پر بھی مواخذہ اسی نسبت سے شدید ہوتا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس آدمی نے مکۂ معظمہ میں رمضان المبارک پایا اور اس کے روزے رکھے تو کسی دوسرے مقام کی نسبت یہاں سے ایک لاکھ رمضان المبارک کا اجر و ثواب عنایت ہوگا۔ اس کے علاوہ اسے ہر دن اور رات کے بدلے ایک ایک غلام آزاد کرنے کا اجر بھی ملے گا اور ہر روز دو گھوڑوں کا بوجھ اﷲ کی راہ میں خیرات کرنے کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔''
علامہ قزوینی حضرت عبداﷲ بن عباس کی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ مکۃ المکرمہ کے سوا بھی زمین پر کوئی ایسا شہر ہوگا جس میں نیکیاں سو گنا بڑھ جاتی ہوں اور نماز کی ایک رکعت کے بدلے ایک سو رکعات کا اجر ملتا ہو اور اس کے مکان بیت اﷲ کی طرف دیکھنے سے ایک سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔''
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس مسلمان نے مکۃ المکرمہ کی گرمی کی ایک ساعت بھی برداشت کی، اﷲ رب العزت اسے جہنم کی آگ سے ایک سو سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے۔'' سیدنا سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ جو آدمی مکۃ المکرمہ میں ایک دن بیمار ہوجائے اور اس کے روزمرہ کے نیک کاموں کے معمولات ادا نہ ہوسکیں تو اﷲ تعالیٰ اسے نہ صرف اس دن کے اعمال کے اجر سے نوازتے ہیں، بلکہ سات سال کے اعمال کا خطیر اجر بھی مرحمت فرماتے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس آدمی نے مکۃ المکرمہ کی گرمی پر ایک ساعت بھی صبر کیا تو اس سے جہنم ایک سو سال کے فاصلہ تک دور کردی جائے گی اور جنت دو سو سال کی مسافت سے اس کے قریب کردی جائے گی۔ یہ شہر نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا اور نہ ہی میرے بعد ہوگا۔ (جنگ کے لیے) اور میرے بھی دن میں سے تھوڑی سی دیر کے لیے حلال ہوا تھا۔''
سورہ آل عمران آیت نمبر95 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''بے شک! پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر ہوا، مکہ ہی میں ہے۔ یہ برکت والا اور ہدایت والا ہے، جہاں والوں کے لیے، اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوگیا، اسے امن مل گیا، اور اس گھر کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے اور جو شخص اس کی طرف راہ چلنے کی قدرت رکھتا ہو۔''
مکہ ہی وہ مقدس شہر ہے جس کی قسمیں اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں کھائی ہیں:
''قسم ہے انجیر کی، زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی ۔'' (سورۃ التین)
سورۂ بلد میں ارشاد ہوا:''میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور آپ پر ممانعت نہیں رہے گی اس شہر میں۔''
بیت اﷲ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی تھی:''اے ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو، انہی تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور کتاب کی تعلیم دے اور دانائی کی باتیں سکھائے اور ان کا تزکیہ نفس کرے۔ بے شک! تو بڑی حکمت والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ 129)
مکہ مکرمہ روئے زمین کا سب سے مقدس اور بزرگی والا شہر ہے اور آسمان کے نیچے یقینی طور پر سب سے افضل جگہ ہے، کیوں کہ اسی میں بیت اﷲ ہے جس کا حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے، اسی شہر کو اﷲ تعالیٰ نے بلد الحرام فرمایا۔ نزول وحی اور نزول ملائکہ کا مرکز، انبیا و اولیا کا ٹھکانا اور ہر انعام خداوندی کی بنیاد ہے۔
نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے:''روئے زمین پر بہترین شہر اور اﷲ تعالیٰ کا محبوب مقام مکۃ المکرمہ ہے۔''
آپؐ کا ارشاد ہے:''مکۃ المکرمہ میں قیام سعادت مندی اور اس کی سکونت ترک کرنا بدبختی ہے۔''
اسی مقدس شہر سے قیامت کے دن انبیا، صدیقین، ابرار، فقہا، متقی، صلحا اور عبادت گزار مرد اور عورتیں اٹھیں گے۔ یہ لوگ خوش و خرم ہوں گے اور عذاب سے بے خوف و خطر ہوں گے۔'' حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:''اگر مجھے ہجرت کا حکم بارگاہ خداوندی سے نہ ملتا تو میں مکۃ المکرمہ کی سکونت ہرگز نہ چھوڑتا، میں نے آسمان کو مکے کی زمین سے زیادہ قریب کہیں نہیں دیکھا، اور نہ ہی میرے دل نے مکے کی سرزمین کے سوا کہیں قرار و سکون حاصل کیا اور مجھے اس شہر میں چاند بے حد حسین و جمیل دکھائی دیتا ہے۔''
جمہور علمائے کرام کے نزدیک مکۃ المکرمہ، مدینہ طیبہ سے افضل ہے۔ مدینے کی شہرت آپؐ کے تشریف فرما ہونے کے بعد ہوئی ہے، جب کہ مکے کی فضیلت ہمیشہ سے مسلمہ ہے۔ جب سیدنا حضرت آدم علیہ السلام اس متبرک شہر میں تشریف لائے اس وقت سے اس کی بزرگی اور عزت دو بالا ہوگئی۔ خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اﷲ تعمیر کیا اور لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا تو دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ حج کرنے کے لیے یہاں آنے لگے۔ روئے زمین کے تمام شہروں پر مکۂ معظمہ کی فضیلت روشن دلیل ہے۔ حج کے مہینوں میں لاکھوں مسلمان یہاں فریضۂ حج ادا کرنے آتے ہیں ۔ شہر کے گلی کوچوں میں ہر جانب زائرین کی آمد کے وقت دعا، تکبیر اور تہلیل کی ایمان افروز صدائیں گونجتی ہیں۔ یہ معزز شہر نزول وحی و قرآن اور ظہور اسلام کا مقدس مرکز ہے۔ اس شہر میں ایک ہی دین اور مذہب کا بول بالا ہے ۔ یہاں لڑائی کرنا بھی حرام ہے اور شکار کرنا بھی حرام ہے۔
اس مقدس شہر کے قبرستان (جنت المعلیٰ) سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے جو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گے۔ دجال کے داخلے سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔ کعبۃ اﷲ کے اردگرد تین سو انبیاء کی قبریں ہیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ستر انبیاء کی قبریں ہیں۔ حطیم، کے اندر میزاب کعبہ کے نیچے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کی قبریں ہیں۔ اس طرح چاہ زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان سیدنا ہودؑ، حضرت شعیبؑ اور حضرت صالحؑ کی قبریں ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں انبیاء کی قبریں دنیا بھر میں کسی اور خطۂ زمین میں بھی نہیں ہیں اور اہل مکہ نماز میں کعبے کی چاروں سمت سے رخ کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں جہاں نماز میں چاروں طرف رخ کیا جا سکتا ہو۔
قرآن پاک میں مکۃ المکرمہ کی شان میں بے شمار آیات نازل ہوئیں۔
حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک! اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے حرمت والا بنا دیا ہے۔ پس وہ اﷲ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے نہ اس میں شکار کیا جائے گا اور نہ اس کی حدود میں گری پڑی کوئی چیز اٹھائی جائے، مگر جو آدمی اپنی چیز کی شناخت کرلے۔''
مکہ ایسی سرزمین ہے جس میں بیت الحرام ہے جو سارے جہاں کا قبلہ اور تمام مساجد کا مرجع ہے۔ مکہ ایسا حرم پاک ہے جس کی سرزمین میں شکار کرنا حرام ہے حالاں کہ شکار کرنا ساری دنیا میں حلال ہے۔ اس ارض پاک میں اﷲ تعالیٰ کے تمام شعائر اور مناسک موجود ہیں جن کی بزرگی کے باعث دنیا ان کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس سرزمین میں مقام ابراہیم، آب زم زم، حطیم اور حجر اسود ہیں۔ یہاں عالی شان مسجد الحرام ہے۔ طواف اور سعی کرنے والوں کے لیے صفا و مروہ دو بڑی علامتیں ہیں۔ مکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں نیکیوں کا اجر بہت زیادہ کردیا جاتا ہے اور گناہ گاروں کو گناہوں سے پاک کردیا جاتا ہے۔