رُدالی معاوضہ لے کر میت پر بین کرنے والی عورتیں

راجستھان کی متنوع ثقافت اور رسم و رواج سے جڑا ایک منفرد اور دل چسپ...


ایکسپریس July 14, 2012
راجستھان کی متنوع ثقافت اور رسم و رواج سے جڑا ایک منفرد اور دل چسپ کردار : فوٹو ایکسپریس

تخلیقِ عالم کے بعد پہلا انسانی قتل اور اولین موت حضرت آدم کے بیٹے ہابیل کا مقدر بنی، جسے اس کے بڑے بھائی قابیل نے مار ڈالا تھا۔ اپنے بیٹے ہابیل کی جواں مَرگی کا غم نسلِ انسانی کا پہلا غم قرار پایا اور یہیں سے موت پر گریہ و بین کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

دنیا کے مختلف خطوں میں آج بھی صدیوں سے سوگ منانے اور کسی کی موت پر غم کے اظہار کے مختلف طریقے رائج ہیں، جن پر اِن خطوں کے باسی صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔

اپنے کسی عزیز یا محبوب شخصیت کے دنیا سے رخصت ہوجانے پر سوگ منانا ایک فطری عمل ہے۔ چین کے دیہات میں کسی بزرگ کے وفات پاجانے کی صورت میں سوگ بہ اندازِ خوشی منایا جاتا ہے، جہاں کسی کی موت کی اطلاع دینے کے لیے بندوق سے گولی چلائی جاتی ہے۔ عورت کے وفات پا جانے کی اطلاع کے لیے گولیوں کی تعداد طاق رکھی جاتی ہے، جب کہ اگر مرنے والا مرد ہو تو اِن گولیوں کو جفت تعداد میں چلایا جاتا ہے۔ گولی چلنے کی آواز سُن کر دیہاتی ایک مقام پر جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر سب کے جمع ہونے کے بعد مرنے والے شخص کا نام بتایا جاتا ہے۔ وفات پاجانے والا کوئی معمر شخص ہو تو اس کی تدفین کی پہلی رات سے متوفی کے اپنے دیہات اور قریبی دیہات سے لوگ اس کے قریب جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر یہ سب لوگ اپنا مخصوص ''رقصِ سوگ'' مردے کے لواحقین کے ساتھ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ رقص کئی دنوں تک جاری رہتا ہے اور جتنے دن یہ جاری رہتا ہے، مردے کے لواحقین کے لیے اتنی ہی مسرت و انبساط کا سبب ہوتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس رقص کے ذریعے وہ اپنے دیہات کو بد ارواح اور آفات سے بچاتے ہیں اور مرنے والے کی روح کو اِس سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔

ہندوستان کی شمال مغربی ریاست راجستھان، جہاں اپنے خوب صورت محلات اور قلعوں کی وجہ سے سیّاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے، وہیں اِس کے دل چسپ رسم و رواج بھی سیّاحوں کے لیے یکساں کشش کے حامل ہیں۔ موت پر بین اور سوگ ایک فطری انسانی ردعمل ہے۔ ایک شخص جو ہمیں بہت عزیز تھا، وہ اب کبھی ہمارے ساتھ نہیں ہوگا، یہ احساس ہی کسی کے غم و اندوہ میں مبتلا ہونے کے لیے کافی ہے۔ اپنے پیاروں اور اعزا کی موت پر بین ایک بے اختیار فطری جذباتی عمل ہے، لیکن کسی عزیز کی موت پر بین و گریہ سے فضا کو سوگوار کرنے کے لیے دوسروں کی خدمات حاصل کی جائیں تو یہ اختیاری عمل دوسروں کے لیے دل چسپی کے کئی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔

یہ سب کچھ ہمیں راجستھان کی متنوع ثقافت میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں مرنے والے شخص کے گھر کی فضا کو سوگوار کرنے کی غرض سے بین کرنے والی عورتوں کی خدمات مستعار لینے کی ایک قدیم روایت اب تک موجود ہے۔ راجستھان کے کچھ علاقوں میں رائج اِس روایت کے مطابق اگر کسی اونچی ذات کے برہمن گھرانے میں کسی مرد کی موت واقع ہوجائے، تو گھر کی عورتوں کو سرعام بین کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے گھر کی اِن عورتوں کی جگہ مرنے والے کے غم میں بین کے لیے مخصوص پیشہ ور بین کرنے والی عورتوں جنھیں ''ردالی'' کہا جاتا ہے، سے رجوع کیا جاتا ہے۔ موت پر رونے کا فریضہ یہ عورتیں معاوضے کے عوض بخوبی انجام دیتی ہیں۔

نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی یہ ہندو دلّت عورتیں بطور ''ردالی'' مرنے والے کے گھر پر اپنے بین و گریہ سے غم و سوگ کی فضا پیدا کرتی ہیں، جو مرنے والے کے لواحقین کو مطلوب ہوتی ہے اور جس کے لیے اِن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

راجستھانی ثقافت کا یہ کردار بہت منفرد اور اچھوتا ہے۔ خوشی کے موقع پر تو ہنسنے ہنسانے کے لیے مخصوص افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، مگر اپنے غم میں رونے کے لیے معاوضہ دے کر خدمات حاصل کرنے کی رسم بہت دل چسپ اور عجیب ہے۔ راجستھان کے رنگارنگ کلچر اور رسوم ورواج کی طرح یہ رسم اور ''ردالی'' عورتوں کا طبقہ راجستھان کی انفرادیت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں