یہی ایک راستہ ہے نجات کا
ہم نے دین کی تعبیر کا کام علماء کے سپرد کر دیا ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی بنا سکتے ہیں۔
اس پورے خطے میں شاہ ایران امریکا کا کانسٹیبل اور اس کے مفادات کا واحد پہریدار سمجھا جاتا تھا۔ ایک ایسا مطلق العنان بادشاہ جس کی جمہوریت، آزادی اظہار یہاں تک کہ دین کی بھی اپنی تعبیرات تھیں۔ جمہوریت تو بقول اس کے ایران میں قائم تھی، الیکشن ہوتے تھے، پارلیمنٹ وجود رکھتی تھی، منتخب وزیراعظم تھا۔ دین کے بارے میں بھی وہ ایک مرنجاں مرنج اور تہواروں والا تصور رکھتا تھا۔
محرم کے دنوں میں ذکر حسین، مجالس اور پورے ملک میں سوگ کی کیفیت کے ساتھ ساتھ جابجا ،،حسینیان،، (امام بار گاہ کا ایرانی نام) کا سرکاری سرپرستی میں قیام، امام رضا کے روضے پر حاضری، وہاں شاندار قالین اور فانوس تحفے میں دینا، کسی بھی مرجع کو جھک کر آداب کرنا، یہ سب وہ بصد خلوص و احترام کرتا تھا۔
اس زمانے میں روس کا کیمونزم زندہ و بیدار تھا، اس لیے ایران میں ،،دہشت گرد،، کا اس زمانے کا ایک مخصوص حلیہ تھا۔ وہ جینز اور جاگرز پہنتا ہو، اس نے لمبے لمبے بال بڑھائے ہوں، سگریٹ کے مرغولوں اور کافی کے تلخ گھونٹوں کے ساتھ انقلاب کی گفتگو کرتا ہو۔ ان کیمونسٹوں کے خلاف ایک عمومی تاثر یہ بھی تھا کہ یہ لوگ اللہ کو نہیں مانتے، مذہب کا انکار کرتے ہیں، کبھی ان کو محرم کی مجلس یا خوشی کی شیرینی بانٹتے نہیں دیکھا گیا۔
مدتوں ان لوگوں کو پکڑ پکڑ کرنا معلوم مقام پر موجود قید خانوں میں رکھا جاتا جو امریکی سی آئی اے کی تربیت یافتہ خفیہ ایجنسی ساوک کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ مجھے ایران کے دفتر خارجہ کے پہلو میں بنے ہوئے ایسے ہی ایک عقوبت خانے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے جسے اب ایک عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔ اسے ''موزہ عبرت'' کہتے ہیں۔ موزہ فارسی میں عجائب گھر کو کہتے ہیں۔ تشدد کے جو آلات میں نے وہاں دیکھے اور جو طریقے وہاں مستعمل تھے انھیں دیکھ کر بدن میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے۔
یہی شاہ ایران جب اپنے اقتدار اور امریکی حمایت کی معراج پر تھا تو اس کے خلاف ایران کے مذہبی عناصر کی ایک واضح اکثریت بھی ہو گئی۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی تحریریں اور تقریریں ایران میں اس مروجہ مذہبی رجحان کو بدلنے کا راستہ دکھا رہی تھیں۔ شریعتی کا وہ مضمون ،،تشیع صفوی و تشیع علوی،، عام ایرانی نوجوان کے دلوں کی دھڑکن تھا۔ اس مضمون میں انھوں نے بتایا کہ حضرت علیؓ اور ان کے پیروکاروں کا اسلام، قیام، جدوجہد اور باطل سے ٹکرانے کا اسلام ہے اور اس تشیع کا رنگ سرخ ہے جب کہ اس وقت ایران کا تشیع صفوی ہے جو صفوی بادشاہوں کا مسلک ہے جس میں گریہ اور مفاہمت ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہے۔
کچھ عرصے بعد ایران میں شدت پسند اور دہشت گرد کی دو صورتیں ہو گئیں، ایک وہ جو پہلے بیان کی گئی اور دوسری وہ افراد جنھوں نے داڑھی رکھی ہو، بار بار مسجد یا حسینیان جاتے ہوں، گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شریعتی کی تحریروں یا علامہ اقبال کی شاعری کا حوالہ دیتے ہوں۔ اب ان لوگوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
شاہ ایران نے اپریل 1978ء میں آرمی کی اکیڈمی کی سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے عجیب رعونت سے کہا کہ میرے دور میں جمہوری اداروں کو استحکام آیا اور لوگ ووٹ کے ذریعے کتنے عرصے سے حکمران منتخب کر رہے ہیں، یہاں سفید انقلاب آ چکا ہے جس کے ذریعے ایک ایسی مڈل کلاس وجود میں آ چکی جو انقلاب کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے ساتھ ساڑھے سات لاکھ مستعد فوج ہے جو ہر قسم کی لوٹ مار، تشدد، غنڈہ گردی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
شاہ ایران کے امریکی سرپرست بھی یہی سمجھ رہے تھے۔ امریکا کی اٹھارہ کے قریب مختلف سرکاری اور نجی تنظیموں نے یہ رپورٹ مرتب کی تھی ایران انقلاب کے راستے سے کوسوں دور ہے۔ ایرانی قوم ایک جمہوری، سیکولر اور آزاد خیال مزاج رکھتی ہے اس لیے وہاں ایسا تصور بھی ممکن نہیں۔
اس کے بعد کی کہانی ہر کسی کو معلوم ہے لیکن اس زمانے میں شاہ ایران اس کی ساوک کے دستے اور پولیس اپنی جہالت اور حکم کی تعمیل اور بجا آوری میں ایسے اقدامات کرتے جا رہے تھے جس نے مختلف گروہوں اور نظریوں میں بٹی ہوئی ایرانی قوم کو صرف اور صرف شاہ ایران اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا کے خلاف متحد کر دیا۔ اقدامات پر غور کیجیے، جس کے گھر سے شریعتی کی کوئی کتاب، کارل مارکس کا کیمونسٹ مینی فیسٹو یا معاشیات کی کتاب داس کیپٹل برآمد ہو جاتی اس کتاب کے وزن کے مطابق سزا سنائی جاتی۔
ایک چھوٹے سے علمی کتابچے پر پانچ سال سزا ملتی اور اگر کسی کے گھر سے زیادہ کتابیں برآمد ہو جاتیں تو اس کا اتہ پتہ تک معلوم نہ ہوتا کہ وہ کہاں چلا گیا۔ نکارا گوا، چلی اور ہنڈراس میں بھی اسی طرح امریکیوں نے اپنی پٹھو حکومتوں کو سبق سکھایا تھا کہ اگر لٹریچر پر پابندی لگا دو تو پورے ملک میں امن ہو جائے گا۔ شاہ ایران نے بھی یہی کیا، کتب خانوں کے مالک اور پبلشرز ایسی کسی کتاب کو رکھنے سے بھی تھر تھر کانپنے لگے۔ لیکن جو لوگ ان کتابوں پر پابندی لگانے والے تھے اور جو اس حکم کو نافذ کرنے والے تھے ان کا علم اتنا تھا کہ ایک دفعہ انھوں نے ایک گھر میں چھاپہ مارا، وہ کسی کیمونزم سے عقیدت رکھنے والے نوجوان کا گھر تھا۔ اس کے پاس تو بہت کتابیں تھیں، یوں بہت بڑا دہشت گرد اور انقلابی سمجھا گیا۔
اس نے اپنے کمرے میں ویتنام کے رہنما ہو چی منہ کی تصویر لگا رکھی تھی۔ ساوک کے افسر نے اسے دو تین ٹھڈے مارے اور تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کم ازکم اپنے اس بوڑھے باپ کا ہی کچھ خیال کر لیتے۔ ایران اور اس جیسے تمام ممالک، جہاں کسی بھی پرتشدد تحریک کا آغاز ہوا ہو وہاں سب سے پہلے لٹریچر پر حملہ کیا گیا اور وہ بھی انتہائی بھونڈے طریقے سے۔ زار روس کے زمانے میں کمیونسٹ لٹریچر ضبط ہونے لگا تو لوگوں کے ہاتھ سے لکھ کر اور کاربن کاپیاں کر کے لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ حکومت مخالف تحریک، شدت پسندی یا دہشت گردی کتنی ہی کمزور ہو اس میں جان ہمیشہ ایسی کارروائیاں ڈالتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کتابوں پر پابندی کی فہرستیں وہ مرتب کرتے ہیں جنھوں نے کتاب چھو کر بھی نہیں دیکھی ہوتی، بیورو کریٹ، پولیس والے، ایجنسیوں کے اہلکار۔ ایک ہزار سالوں سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب غنیۃ الطالبین چھپتی چلی آ رہی ہے، کیا اس سے شیعہ سنی فسادات ہوئے، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ دو سو سالوں سے چھپ رہی ہے، کیا وہ وجہ فساد ہے، اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی کے فتاویٰ نے دہشت گردی کی آگ کو بھڑکایا ہے۔
یہ ایجنڈا کس کا ہے کہ کتب فروش جن کتابوں میں لفظ توحید، جہاد، باطل سے جنگ اور طاغوت جیسے لفظ بھی شامل ہوں انھیں اپنی دکانوں سے اٹھا رہے ہیں۔ ایک جہالت ہے، مدت ہوئی لاہور کے ایک اخبار میں شبلی نعمانی کی سیرت النبی قسط وار چھپنا شروع ہوئی۔ ایک تھانیدار نے قابل اعتراض مواد سمجھ کر مقدمہ درج کر لیا اور پھر علامہ شبلی نعمانی کی تلاش میں چھاپے مارنے شروع کر دیے۔
حکام کے سامنے اپنے نمبر بنانے والے افسران کو علم تک نہیں کہ وہ جو کروڑوں موبائل لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن پر جی پی آر ایس اور وائی فائی میسر ہے، وہاں ہزاروں ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی لٹریچر صرف چند سیکنڈ میں موبائل کی اسکرین پر آ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان تمام علماء کی شدت انگیز تقریریں بھی چند سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ ہو جاتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایران میں کتابوں پر پابندی لگی تو کیسٹوں نے طوفان برپا کر دیا، لیکن یہاں تو کیسٹ خریدنے کی بھی ضرورت نہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ایسی شدت پسندی، قتل و غارت یا دہشت گردی جسے علمی بنیادی میسر آ جائے اسے طاقت سے نہیں علم سے ہی ختم کیا جاتا ہے۔ موجودہ فرقہ واریت کی تعریف کون کرے گا۔ بحرین اور یمن کے دہشت گرد ایران اور عراق کے لیے انقلابی ہیں اور عراق اور شام کے دہشت گرد دیگر کے لیے انقلابی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دین کی تعبیر کا کام علماء کے سپرد کر دیا ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی بنا سکتے ہیں۔
جس دن پہلا فرقہ واریت کا قتل ہوا تھا اگر اس دن اس ملک کے نصاب تعلیم میں قرآن عربی کے ساتھ پڑھایا جاتا تو کسی کو اس کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے مولوی کے پاس نہ جانا پڑتا۔ وارث شاہ، غالب، رحمن بابا اور شاہ لطیف کی شاعری کے مطالب ڈھونڈنے کوئی کسی دوسرے کے پاس جاتا ہے۔ ہم فزکس، کیمسٹری، بیالوجی کے لیے انگریزی زبان سیکھتے ہیں لیکن قرآن ترجمہ سے پڑھتے ہیں۔ ہم پر قرآن کی ہیبت طاری ہوتی ہے اور نہ ہی ہم پر اس کے مطلب واضح۔ قرآن سے نصاب کی سطح پر رابطہ یہی ایک راستہ ہے نجات کا۔
وہ سیکولر دانشور جو یہ تصور لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم اس تازہ جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کے لوگوں کے آئیڈیلزم سے مذہب نکال دیں گے، انھیں اندازہ تک نہیں کہ ان کے یہ مشورے ہمیشہ تاریخ کا کوڑا دان بنے ہیں۔ مذہبی آئیڈئلزم کا اس ملک میں یہ حال ہے کہ لوگ فرقہ واریت تک بھول جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں چرچل، ڈیگال کیوں نہیں آتا۔ مسلک کوئی بھی ہو، سب یہی کہتے ہیں یہاں خمینی کیوں نہیں آتا۔