اوباما کا دورہ بھارت اور ہماری خارجہ پالیسی
ہم امریکا کا متبادل روس اور چین کو بنا رہے ہیں تا کہ امریکا پاکستان کو بھی وہی اہمیت دے جو وہ بھارت کو دے رہا ہے۔
امریکی صدر باراک حسین اوباما کے لیے حالیہ دورہ بھارت کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اوباما اپنے دور صدارت میں دو مرتبہ بھارت آئے۔ اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے بھارت کا دو مرتبہ دورہ نہیں کیا۔ یہ چیز اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بھارت امریکا کی نظر میں کتنی اہمیت حاصل کر گیا ہے۔ بھارت کا محل وقوع چین سے جڑی ہوئی اس کی سرحد' ایک بہت بڑی منڈی، افغانستان سے بھی قریب جہاں امریکا کے مشرق وسطی اور سینٹرل ایشیا کے حوالے سے لامحدود مفادات ہیں۔
دورہ بھارت میں امریکی صدر نے ایٹمی ٹیکنالوجی پر بھارتی مطالبات تسلیم کر لیے اور بھارت کو افغانستان میں بھی قابل اعتماد پارٹنر قرار دے دیا جب کہ پاکستان بھی امریکا کا افغانستان میں پارٹنر ہے لیکن قابل اعتماد پارٹنر ہے یا نہیں اس کے بارے میں ابھی تک اس نے کچھ نہیں کہا ۔ شاید اس کی وجہ اچھے یا برے طالبان کی وہ اصطلاح ہے جسے پاکستان نے ایک عرصے تک اپنائے رکھا' امریکی صدر نے سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کر دی۔
دونوں ممالک میں دفاع، تجارت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ بھارت سے ماحولیات کے معاملے پر اتفاق رائے کو امریکا کی ایک بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی نے ماحولیات کے ایسے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جس نے انسانی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پہلے تو انسان کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ہی سامنا تھا جس کے نتیجے میں برفانی تودے پگھلنا شروع ہوگئے تو دوسری طرف شدید بارشوں نے زمین کی زرخیزی کو بنجر پن میں تبدیل کرنا شروع کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے خطے خشک سالی کا شکار کر دیا۔ ایک طرف بڑھتا ہوا درجہ حرارت دوسری طرف برفانی طوفانوں نے قیامت ڈھا دی ہے۔
اس کی وجہ وہ صنعتی ترقی ہے جس سے زہریلی گیس خارج ہوکر اوزون کو تباہ کر رہی ہے۔ماحولیاتی عدم توازن دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کو اگلے پچاس سالوں تک تباہ و برباد کرتا رہے گا۔ ماحولیات کے علاوہ صدر اوباما نے بھارتی قوم کو جس چیز کی یاد دہانی کرائی ہے وہ مذہبی رواداری اور برداشت ہے۔
انھوں نے بھارتی مذہبی شدت پسندوں کو تلقین کی ہے کہ کسی بھی مذہب کو اختیار کرنا اور اس کی تبلیغ کرنا بھارتی عوام کا حق ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد ہندو مذہبی جنونیوں کو شہ مل گئی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں سخت دبائو اور خوف ہراس کا شکار ہیں۔ امید ہے کہ امریکی صدر اوباما کے اس پیغام کو برسراقتدار پارٹی نظر انداز نہیں کر سکے گی۔
دورہ بھارت میں دونوں رہنمائوں میں ایک دوسرے کے لیے گرم جوشی و بیتابی دکھائی دی۔ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت سے بہتر تعلقات امریکی خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہیں جب کہ نریندر مودی نے کہا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان فطری گلوبل پارٹنر شپ ہے۔ سول نیوکلیئر پارٹنر شپ بہترین تعلقات کی مظہر ہے۔ مودی نے اس کا اس طرح اظہار کیا کہ میرے اور باراک کے درمیان ایسی دوستی بن گئی ہے کہ کھلے پن کی وجہ سے ہم آرام سے فون پر بات کر لیتے ہیں آرام سے گپ شپ مار لیتے ہیں۔ ہنسی مذاق کر لیتے ہیں، اس کیمسٹری کی وجہ سے ہم اور ہمارے عوام قریب آئے۔
شاید اسی وجہ سے اوباما نے بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کی حمایت کی ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے آغاز پر جسے پوری دنیا میں براہ راست دیکھا جا رہا تھا۔ میڈیا اور بھارتی عوام کو مخاطب ہوتے ہوئے اوباما نے کہا کہ میرا سب کو پیار بھرا نمسکار۔ دوسرے موقعہ پر انھوں نے کہا کہ میں بھی نریندر مودی جیسا کرتہ پہننے کی سوچ رہا تھا۔
دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔ مودی ایک بے تکلف دوست کی طرح امریکی صدر کو باراک کہہ کر پکارتے رہے۔ جب کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے امریکی صدر کی اہلیہ کو 100 بنارسی ساڑھیوں کا تحفہ دیا۔ ہر ساڑھی پر سونے اور چاندی کے تار کا کام کیا گیا ہے اور ایک ساڑھی کی قیمت سوا لاکھ روپے بیان کی جاتی ہے۔
جب اوباما بھارت کے دورے پر تھے تو اسی دوران آدمی چیف راحیل شریف نے چین کا دورہ کیا جس کا مقصد چین سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا تھا تا کہ اس نفسیاتی صورت حال کے دبائو سے نکلا جائے جو اوباما کے دورے نے پیدا کر دی تھی۔ اگر چین پاکستان کی ضرورت ہے تو اس سے کہیں بڑھ کر پاکستان چین کی ضرورت ہے۔ امریکا اور چین میں ایسی دوستی ہے کہ دونوں کی معیشت کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔
سیکڑوں امریکی کمپنیوں نے چین میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور چین کی بیشتر برآمدات کی امریکا میں کھپت ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ امریکی معیشت چین کی مدد کے بغیر چل نہیں سکتی لیکن اس دوستی میں دشمنی کا پہلو یہ ہے کہ چین کی بے تحاشا معاشی ترقی نے نے اس کی جی ڈی پی کو امریکا کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی نمبرون پوزیشن خطرے میں ہے جس کی جگہ مستقبل قریب میں چین لیتا نظر آ رہا ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی صورت حال نہ مکمل مثبت ہوتی ہے نہ مکمل منفی، یعنی مثبت میں منفی پوشیدہ ہے تو منفی میں مثبت۔ اگر یہ صورتحال بین الاقوامی تعلقات پر نافذ ہوتی ہے تو یہ صورتحال ان لوگوں اور اداروں کے لیے بہت پیچیدہ ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ میں خارجہ امور کے معاملات ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں سے تعلقات میں اگر ایک قدم بھی غلط پڑتا ہے تو نسلوں کی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ ہمارے نابغوں نے خارجہ معاملات میں وہ اقدامات کیے جس سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
اس صورت میں تو صورت حال اور زیادہ خطرناک ہو جانی ہے جب قوم و ملک کے بجائے کسی فرد یا ادارے کے مفادات پیش نظر ہوں۔ اوباما کے دورے نے ایک سراسمیگی کی کیفیت ہم پر طاری کر دی ہے۔ اب ہم امریکا کا متبادل روس اور چین کو بنا رہے ہیں تا کہ امریکا پاکستان کو بھی وہی اہمیت دے جو وہ بھارت کو دے رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی تضاد ہے کہ ہم آج بھی اس خیالی دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں جب چین اور بھارت کی سرحدی جنگ ہوئی تھی اب چین اور بھارت کے تعلقات مثالی ہیں حتیٰ کہ ان کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی ہو چکی ہیں اور اس کالم کی اشاعت تک اوباما کے دورے سے پیدا ہونے والے خدشات کے ازالے کے لیے خاتون بھارتی وزیر خارجہ بیجنگ پہنچ بھی چکی ہوں گی۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر روس پاکستان کے نزدیک آ رہا ہے تو روس بھارت کو امریکا کے زیادہ نزدیک نہ جانے کے لیے پاکستان سے تعلقات بڑھا کر بھارت پر دبائو ڈال رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا بھارت کو گلوبل کردار کے لیے تیار کر رہا ہے جو امریکی مفادات میں ہو لیکن بھارتی قیادت اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ وہ اپنے ہمسائے چین سے بگاڑ کر امریکا کی گود میں بیٹھ جائے۔ خارجہ تعلقات میں ایک بلف بھی ہوتا ہے۔ اسی کا سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ تو وہ حال ہوتا ہے جو ہمارا ہوا یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
...فروری مارچ سے حالات و واقعات کا وہ سلسلہ شروع ہو گا جو پاکستانی سیاست کو اس کے منطقی انجام میں داخل کر دے گا۔ سیل فون:0346-4527997۔